Print Page Options
Previous Prev Day Next DayNext

Beginning

Read the Bible from start to finish, from Genesis to Revelation.
Duration: 365 days
Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
یسعیاہ 36-41

اسور کا یہوداہ پر حملہ

36 حزقیاہ بادشا ہ کی حکومت کے چودھویں برس یوں ہوا کہ شاہِ اسور سخریب کے یہوداہ کے تمام فصیلدار شہروں پر چڑھا ئی کی اور ان کو لے لیا۔ سخریب نے اپنے سپہ سالار کو یروشلم لڑنے کے لئے بھیجا۔ وہ سپہ سالار لکیس کو چھوڑ کر یروشلم میں شاہِ حزقیاہ کے پاس گیا۔ وہ اپنے ساتھ ایک زبرست فوج کو بھی لے گیا تھا۔ وہ سپہ سالار اوپر کے تالاب کی نالی پر دھوبیوں کے میدان کی راہ پر کھڑا ہو ا۔

تب الیاقیم بن خلقیاہ جو گھر کا دیوان تھا اور شبناہ منشی اور محّرر یو آ خ بن آسف نکل کر اسور کےسپہ سالار کے پاس آئے۔

سپہ سالار نے ان سے کہا ، “تم لوگ شاہ حزقیاہ سے جا کر یہ باتیں کہو کہ ملکِ معظّم شاہِ اسور یہ فرماتا ہے :

“تم اپنی مدد کے لئے کس پر بھروسہ رکھتے ہو ؟ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اگر جنگ میں تمہا را یقین طاقت اور بہتر منصوبوں پر ہے تو وہ بیکار ہے۔ وہ خالی لفظوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔آخر کس کے بھروسے پر تم میرے خلاف بغاوت کر رہے ہو۔ کیا مدد کے لئے مصر پر منحصر ہو ؟ مصر تو ایک ٹو ٹے ہو ئے عصا کی مانند ہے۔اگر تم سہا را پانے کو اس پر جھکو گے۔تو وہ تمہیں صرف نقصان ہی پہنچا ئے گا اور تمہا رے ہا تھ میں ایک چھید بنا دے گا۔ شاہ مصر فرعون ان سب کے لئے جو اس پر بھروسہ کر تے ہیں ایسا ہی ہے۔ pi لیکن ہو سکتا ہے تم کہو گے کہ ہم مدد پا نے کیلئے اپنے خداوند خدا پر بھر و سہ رکھتے ہیں۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ حزقیاہ نے خداوند کی قربان گا ہوں اور عبادت کیلئے بلند مقامو ں کو فنا کر دیا ہے۔ اور یہودا ہ اور یروشلم سے حزقیاہ نے یہ باتیں کہیں ، “تمہیں ایک قربان گا ہ کے لئے عبادت کر نی چا ہئے۔”

اگر تم اب بھی میرے مالک سے جنگ کر نا چا ہتے ہو ، تو شاہِ اسور تم سے یہ معاہدہ کر ے گا۔ اگر تمہا رے پاس کا فی گھوڑ سوار ہیں تو میں تمہیں دو ہزار گھو ڑے دے دو ں گا۔ تب بھی تم میرے آقا کے ایک ادنی ٰعہدیدار ،اس کے کسی کمترین ملازم تک کو تم نہیں ہرا پا ؤ گے۔اس لئے تم مصر کے گھو ڑ سوار اور رتھو ں پر کیسے منحصر کر سکتے ہو۔

10 اور اب دیکھو ! کیا میں نے بغیر خداوند کی مدد کے اس شہر کو برباد کر نے کے لئے حملہ کیا ؟خداوند نے مجھے حکم دیا، “اس سر زمین پر حملہ کرو !”

11 تب الیاقیم اور شبناہ اور یو آ خ نے سپہ سالار سے کہا، “مہربانی کر کے ہمارے ساتھ ارامی زبان میں ہی بات کر کیونکہ اسے ہم سمجھ سکتے ہیں۔تو یہودی زبان میں ہم سے مت بول۔ اگر تو یہودی زبان کا استعمال کرے گا تو فصیل کے سبھی لوگ تمہا ری بات سمجھ جا ئیں گے۔

12 لیکن سپہ سا لا ر نے کہا ، “کیا میرے مالک نے مجھے یہ باتیں کہنے کو تیرے آقا کے پاس یا تیرے پاس بھیجا ہے؟کیا اس نے مجھے ان لوگوں کے پاس نہیں بھیجا جو تمہا رے ساتھ نجاست کھانے اور پیشاب پینے کو دیوار پر بیٹھے ہیں ؟”

13 پھر سپہ سالا ر نے کھڑے ہو کر بلند آواز میں یہودی زبان میں کہا، 14 ” برائے مہربانی اسور کے بادشا ہ کا پیغام سنو۔بادشا ہ یوں فرماتا ہے:

“حزقیاہ سے تم دھو کہ نہ کھا ؤ کیونکہ وہ تم کو بچا نہیں سکتا ہے۔ 15 حزقیاہ جب تم سے یہ کہتا ہے، “تم خداوند پر بھروسہ رکھو۔خداوند شاہ اسور سے ہماری حفاظت کرے گا۔ خداوند شاہ اسور کو ہمارے شہر کو قبضہ کرنے نہیں دے گا۔‘ تمہیں اس پر یقین کرنا چا ہئے۔”

16 حزقیاہ کی نہ سنو ! کیوں کہ شاہ اسور یوں فرماتا ہے، “تم مجھ سے معاہدہ کر لو اور نکل کر میرے پاس آؤ اور میرے سپرد ہو جا ؤ ،تب تم میں سے ہر ایک اپنی تاک اور اپنی انجیر کے درخت کا میوہ کھا سکتے ہو اور اپنے حوض کا پانی پی سکتے ہو۔ 17 جب تک میں آکر تمہیں تمہا رے ہی جیسے ایک ملک میں نہ لے جا ؤں تب تک تم ایسا کر تے رہ سکتے ہو۔اس نئے ملک میں تم اچھا اناج اور نئی مئے پا ؤ گے۔ اس زمین پر تمہیں کافی رو ٹی اور تاکستان ملے گی۔”

18 ہو شیار رہو ! ایسا نہ ہو کہ حزقیاہ تم کو یہ کہہ کر راہ دکھا نہ دے ، “خداوند ہم لوگو ں کو بچا ئے گا۔” کیا دوسری قوموں کے خدا ؤں میں سے کسی نے بھی اپنے ملک کو شاہِ اسور کے ہا تھ سے چھڑا یا ہے ؟ 19 حمات اور ارفاد کے خداوند ( دیوتائیں) آج کہاں ہیں ؟ انہیں ہرا دیا گیا ہے۔ سفر وائیم کے خداوندیں کہاں ہیں ؟ وہ بھی ہرا دیئے گئے ہیں۔ اور کیا تم یہ سوچتے ہو کہ سامریہ کے دیوتا نے وہاں کے لوگو ں کو میرے ہا تھ کی قوت سے بچا لیا ؟ نہیں! 20 کسی بھی ملک یا قو م کے ایسے کسی بھی خداؤں کا نام مجھے بتا ؤ جس نے وہاں کے لوگوں کو میری قوت سے بچا یا ہے میں نے ان سب کو ہرا دیا۔اس لئے دیکھو ! میری قوت سے یروشلم کو خداوند نہیں بچا پائے گا۔

21 اہلِ یروشلم خاموش رہے انہوں نے سپہ سالار کو کو ئی جواب نہیں دیا۔حزقیاہ نے لوگو ں کو حکم دیا تھا کہ و ہ سپہ سالا ر کو کو ئی جواب نہ دیں۔

22 اس کے بعد الیاقیم بن خلقیاہ جو محل کا دیوان تھا اور شبناہ شا ہی منشی اور مو آ خ بن آسف محرّر اپنے کپڑے چاک کئے ہو ئے حزقیاہ کے پاس آئے اور سپہ سالار کی باتیں اسے سنائیں۔

حزقیا ہ کا خدا سے مدد کے لئے فریاد کرنا

37 حزقیاہ نے جب سپہ سالا ر کا پیغام سنا تو اس نے اپنے کپڑے پھا ڑ لئے اور ٹاٹ اوڑھ کر خداوند کے گھر میں گیا۔

حزقیاہ نے محل کے دیوان الیاقیم اور شبناہ منشی اور کا ہنوں کے بزرگوں کو ٹاٹ اوڑھا کر آموص کے بیٹے یسعیاہ نبی کے پاس بھیجا۔ انہوں نے یسعیاہ سے کہا ، بادشا ہ حزقیاہ نے کہا ہے کہ آج کا دن دکھ اور سزا اور تو ہین کا دن ہے کیوں کہ بچے پیدا ہو نے پر ہے لیکن عورت کو ولادت کی طاقت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے تمہا را خداوندسپہ سالار کی کہی ہو ئی باتوں کو سن لے۔شاہِ اسور نے سپہ سا لار کو خدا کی اہانت کر نے کے لئے بھیجا ہے۔ہو سکتا ہے خداوند تمہا رے خدا نے ان اہانت آمیز باتوں کو سن لیا ہے۔ اور وہ انہیں اس کی سزا دے گا۔ مہربانی کر کے ہمارے لوگو ں کے لئے دعا کرو جو بچے ہو ئے ہیں۔

حزقیاہ کے ملازم یسعیاہ کے پاس گئے۔ یسعیاہ نے ان سے کہا ، “اپنے مالک کو یہ بتا دینا :خداوند کہتا ہے تم نے سپہ سالار سے جو سنا ہے ان باتوں سے مت ڈرنا !شاہِ اسور کے“ ملازم لڑکوں ” نے میری تو ہین کر نے کے لئے جو اہانت آمیز باتیں کہیں ہیں ان سے مت ڈرنا۔ دیکھو ! میں اس میں ایک روح ڈا ل دو ں گا اور اس کے بعد ایک افواہ سن کر اپنے ملک کو لوٹ جا ئیگا۔ اور میں اسے اسی کے ملک میں تلوار سے مر وا ڈا لوں گا۔”

اسور کی فوج کا یروشلم کو چھوڑنا

8-9 شاہ اسور کو ایک اطلاع ملی کہ اتھو پیا کا بادشا ہ تر ہا قہ کے خلاف جنگ کے لئے آرہا ہے۔ اس لئے اسور کا بادشا ہ لکیس کو چھوڑ کر لبنا ہ چلا گیا۔ سپہ سالا ر نے یہ سنا اور وہ بھی لبناہ کو چلا گیا۔ جب اسور کا بادشا ہ نے سنا کہ ترہاقہ آرہا ہے۔ تو اس نے بھی حزقیاہ کے پاس ایلچی بھیجے۔

بادشا ہ نے ان سے کہا ، 10 “یہودا ہ کے بادشاہ حزقیاہ سے تم یہ باتیں کہنا :

“جس دیوتا پر تمہا را یقین ہے اس سے وعدہ کر کے تم بے وقوف مت بنو۔اسور کا بادشا ہ یروشلم پر قبضہ نہیں کرے گا۔” 11 دیکھو ! تم اسور کے بادشا ہوں کے بارے میں اس نے جو کیا ہے سن ہی چکے ہو۔ انہوں نے تمام ملکوں کو لوُ ٹ کر انکا کیا حال بنایا ہے۔ اس لئے کیا تو بچا رہے گا ؟ 12 کیا ان لوگوں کے خدا ؤں نے ان کی حفاظت کی ہے ؟ نہیں ! میرے باپ دادا نے انہیں فنا کر دیا تھا۔میرے لوگوں نے جو زان حاران اور رصف کے شہرو ں کو شکست دیئے تھے اور انہوں نے عدن کے لوگو ں کو جو تلسار میں رہا کر تے تھے انہیں بھی ہرا دیا تھا۔ 13 حمات اور ارفاد کے بادشا ہ کہاں گئے۔سفر و ائیم کا بادشا ہ آج کہاں ہے۔ ہینع اور عوّاہ کے بادشا ہ اب کہاں ہیں۔ ان کا خاتمہ کر دیا گیا۔ وہ سبھی بر باد کر دیئے گئے۔

حزقیاہ کا خدا سے فریاد کرنا

14 حزقیاہ نے قاصدوں سے وہ پیغام لے لیا اور پڑھا ، پھر وہ خداوند کے گھر میں چلا گیا۔حزقیاہ نے اس پیغام کو کھو لا اور خداوند کے سامنے پھیلا دیا۔ 15 پھر حزقیاہ خداوند سے فریاد کر نے لگا : 16 اے اسرائیل کا خداوند قادر مطلق تو بادشا ہ کی مانند کرو بی فرشتوں پر بیٹھتا ہے۔ تو اور صرف تو ہی خدا ہے جو زمین کے سبھی مملکتوں پر حکومت کر تا ہے تو نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ 17 میری سن ! اپنی آنکھیں کھول اور دیکھ۔کان لگا کر توجہ سے اس پیغام کے لفظوں کو سن جسے سخریب نے مجھے بھیجا ہے۔ اس نے تجھ زندہ خدا کے بارے میں اہانت آمیز باتیں کہی ہیں۔ 18 اے خداوند اسور کے بادشا ہوں نے اصل میں سبھی ملکوں اور وہاں کی زمین تباہ کر دی ہے۔ 19 اسور کے بادشاہوں نے ان ملکوں کے خدا ؤں کو جلا ڈا لا ہے لیکن وہ سچے خداوند نہیں تھے۔ وہ تو صرف ایسے بت تھے جنہیں آدمیوں نے بنایا تھا۔ وہ خالص پتھر تھے ، خالص لکڑی تھی۔ اس لئے وہ ختم ہو گئے وہ برباد ہو گئے۔ 20 اس لئے اب اے خدا ہمارے خداوند! مہربانی کر کے اسور کے بادشا ہ کی قوت سے ہماری حفاظت کر تا کہ زمین کے سبھی بادشاہوں کو پھر پتا چل جا ئے کہ تو خداوند ہی صرف خدا ہے۔

حزقیاہ کو خدا کا جواب

21 تب یسعیاہ بن آموص نے حزقیاہ کے پاس یہ پیغام بھیجا۔“ یہ وہ ہے جسے خداوند اسرائیل کے خدا نے فرمایا ہے شاہِ اسور سخریب کے با رے میں تو نے مجھ سے دعا کی ہے۔

22 اس لئے خداوند نے اس کے حق میں یوں فرمایا ہے :

“صیون کی پاک دامن کنواری دختر سخریب تجھے حقیر سمجھتی ہے۔
    وہ تیری ہنسی اڑا تی ہے۔
کیوں کہ تم بھاگ گئے۔
    یروشلم کی دختر تیری ہنسی اڑاتی ہے۔
23 تو نے کسی کی بے عزتی کی ہے
    اور کسی کا مذاق اڑا یا ہے؟
تو نے کسی کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے اور عزت واحترام نہیں دیا ؟
    مجھے ، اسرائیل کے قدوس کے!
24 خداوند کے خلاف بُری باتیں کہلوانے کے لئے تو نے اپنے ملاز موں کا استعمال کیا۔
    تو نے کہا، “میرے پاس بہت ساری رتھ ہیں۔
    میں نے اپنی رتھو ں کو لیا اور لبنان کے عظیم پہاڑ کی سب سے اونچی چو ٹی کو فتح کر لیا۔
میں نے لبنان کے سب سے لمبے دیودار کے درختوں کو کاٹ ڈا لا۔
    میں نے اس کے سب سے اچھے صنوبر کے درختوں کو کاٹ ڈا لا۔
میں اس کے سب سے اونچے پہاڑ کی چو ٹی تک گیا
    اور اس کے سب سے گھنے جنگل تک گیا۔
25 میں نے غیر ملکی زمین پر کنوئیں کھو دے اور پانی پیا۔
میں نے مصر کی ندیوں کو پیروں تلے روندا
    اور اسے خشک کر دیا۔”

26 یہ وہ جو تو نے کہا۔
    لیکن کیا تو نے یہ نہیں سنا ہے؟
میں نے ( خدا نے ) بہت پہلے ہی منصوبہ بنا لیا تھا۔
    بہت بہت پہلے ہی میں نے اسے تیار کر لیا تھا۔
اب اسے میں نے کیا ہے۔میں نے ہی تمہیں ان فصیلد ار شہرو ں کو بر باد کر نے دیا
    اور میں نے ہی تمہیں ان شہروں کو ملبوں کے ڈھیر میں بدلنے دیا۔
27 ان شہروں کے باشندے کمزور تھے
    وہ لوگ خوفزدہ اورشرمندہ تھے۔
وہ کھیت کے نئے پو دے جیسے تھے۔
    وہ نئی گھاس کے جیسے تھے۔
وہ اس گھاس کی مانند تھے جو مکانو ں کی چھتوں پر اگا کر تی ہے
    وہ گھا س لمبی ہو نے سے پہلے ریگستان کی مشرقی گرم ہوا سے جھلس جا تی ہے۔
28 میں جانتا ہوں کہ تم کب اٹھتے ہو
    اور کب بیٹھتے ہو،
    کب باہر جا تے ہو
    اور کب اندر آتے ہو۔
اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم جنگ سے کب واپس آئے اور مجھ سے کیسے ناراض ہو گئے۔
29 تم مجھ سے ناراض تھے
    اور میں نے اپنے تئیں تیرے تکبر کو بھی سنا تھا۔
اس لئے تیری ناک میں نکیل ڈا لوں گا
    اور تیرے منہ میں لگام لگا ؤں گا۔
اور میں تم کو اسی راستے سے واپس بھیج دو ں گا
    جس راستے سے تو یہاں آیا۔”

خداوند کا پیغام حزقیاہ کے لئے

30 تب خدا وند نے حزقیاہ سے فرمایا ، “اے حزقیاہ تجھے دکھا نے کے لئے کہ یہ کلام سچ ہے میں تجھے ایک نشان دونگا۔ اس سال تو کھا نے کے لئے کوئی اناج نہیں بو یا۔ اس لئے اس سال تو پچھلے سال کی فصل سے خود بخود اگ آئے اناج کو کھا ئے گا اور اگلے سال بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن تیسرے سال تو اس اناج کو کھا ئے گا جسے تو نے اگا یا ہوگا۔ تو اپنی فصلوں کو کاٹے گا۔ تیرے پاس کھا نے کو بھر پور غذا ہوگی۔ تو تاکستان لگائے گا اور انکا پھل کھا ئے گا۔

31 “یہوداہ کے گھرانے کے کچھ بچے ہوئے لوگ بڑھتے ہوئے بہت بڑی قوم کی شکل اختیار کرلیں گے۔ وہ لوگ ان درختوں کی مانند ہونگے جنکی جڑیں زمین میں بہت گہری جاتی ہیں اور وہ بہت گھنے ہو جاتے ہیں۔ اور بہت سے پھل دیتے ہیں۔ 32 یروشلم اور کوہ صیون پر کچھ ہی لوگ زندہ بچیں گے اور وہ یروشلم سے باہر جائیں گے۔” خدا وند قادر مطلق کی زور دار محبت ہی یہ کریگی۔

33 اس لئے خدا وند نے شاہ اسور کے بارے میں یہ کہا:

“وہ اس شہر میں نہیں آپائے گا۔
    وہ اس شہر پر ایک بھی تیر نہیں چھو ڑیگا۔
وہ اپنی ڈھا لوں کا منھ اس شہر کی جانب نہیں کرے گا۔
    وہ اس شہر کے قلعہ پر حملہ کرنے کے لئے بُرج کھڑا نہیں کرے گا۔
34 وہ اسی راستے سے جس سے آیا تھا واپس اپنے شہر لوٹ جائے گا۔
    اس شہر میں وہ داخل نہیں ہوگا
    یہ پیغام خدا وند کی جانب سے ہے۔
35 خدا وند فرماتا ہے میں بچاؤنگا اور اس شہر کی حفاظت کروں گا۔
    میں ایسا خود اپنے لئے اور اپنے بندہ داؤد کے لئے کروں گا۔ ”

اسور کے سپاہيوں کو تباہ کيا گيا

36 اس لئے خدا وند کے فرشتے نے اسور کی چھاؤنی میں جاکر ایک لاکھ پچا سی ہزار سپاہیوں کو مار ڈا لا۔ دوسری صبح جب لوگ اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ انکے چاروں طرف مرے ہوئے سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہیں۔ 37 تب شاہ اسور سنحریب اپنے گھر نینوہ واپس چلا گیا اور وہیں رہنے لگا۔

38 اور ایک دن جب وہ اپنے دیو تا نسروک کی ہیکل میں عبادت کررہا تھا تو اسی وقت اسکے بیٹے ادر ملک اور شراضر نے اسے تلوار سے قتل کر دیا اور اراراط کی سر زمین کو بھاگ گئے اس طرح سنحریب کا بیٹا اسر حدّون اسور کا نیا بادشاہ بن گیا۔

حزقیاہ کی بیماری

38 ان ہی دنوں حزقیاہ ایسا بیمار پڑا کہ مرنے کے قریب ہو گیا اس لئے آموص کے بیٹے یسعیاہ نبی اس سے ملنے گیا۔ یسعیاہ نے بادشاہ سے کہا ، “خدا وند نے تمہیں یہ باتیں بتانے کے لئے کہا ہے : تو جلد ہی مر جائے گا۔ اس لئے تیرے مرنے کے بعد تیرے خاندان والے کیا کریں گے یہ تجھے انہیں بتا دینا چاہئے۔ اب تو پھر کبھی اچھا نہیں ہوگا۔”

حزقیاہ نے دیوار کی طرف کر وٹ لی۔ اس نے خدا وند سے دعا کی اس نے کہا ، “اے خدا وند مہر بانی کرکے مجھے یاد رکھ کہ میں نے ہمیشہ تیرے سامنے نہایت یقین اور صدق دل کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ میں نے وہ باتیں کی ہیں جنہیں تو بہتر کہتا ہے۔” اس کے بعد حزقیاہ بلند آواز میں رونا شروع کردیا۔

یسعیاہ کو خدا وند سے یہ پیغام ملا: حزقیاہ کے پاس جا اور اس سے کہہ دے ، “یہ وہ باتیں ہیں جنہیں خدا وند تمہارے باپ دادا کا خدا کہتا ہے ، میں نے تیری دعا سنی ہے اور تیرے دکھ بھرے آنسو دیکھے ہیں۔ اور اس لئے میں تیری زندگی میں پندرہ سال اور جوڑ ر ہا ہوں۔ شاہِ اسور کے ہاتھوں میں سے میں تجھے اور اس شہر کو بچاؤنگا۔ میں اس شہر کی حفاظت کروں گا۔”

اور یہ خدا وند کی طرف سے تمہارے لئے نشان ہوگا جسے کہ وہ کرے گا کیوں کہ اس نے کہا تھا : دیکھو میں سایہ کو جو کہ آخز کے سیڑھیوں [a] پر ہے دس سیڑھی پیچھے لیجا تا ہوں۔ تب سورج دس سیڑھی پیچھے گیا جن سیڑھیوں پر کہ وہ پہلے ہی جا چکا تھا۔

حزقياہ کا نغمہ

یہ حزقیاہ کا وہ خط ہے جو اس نے بیماری سے اچھا ہونے کے بعد لکھا تھا۔

10 میں نے اپنے دل میں کہا، “میں اپنی آدھی عمر میں ضرور مروں گا۔
    اسفل ( پاتال) کے پھاٹکوں پر مجھے اپنی بچی ہوئی زندگی گزارنا چاہئے۔
11 اس لئے میں نے کہا، “میں خدا وند کو زندوں کی زمین میں پھر نہ دیکھوں گا۔
    انسان اور دنیا کے باشندے مجھے پھر دکھا ئی نہ دیں گے۔
12 میری نسل کو نیچے کھینچ لیا گیا ہے اور چرواہے کے خیمہ کی مانند مجھ سے دور کردیا گیا ہے۔
    میں نے اپنی زندگی جلاہے کی مانند لپیٹ لی ہے۔ وہ مجھے کر گھا سے کاٹ چکا ہے۔
    تم نے صرف ایک ہی دن میں میری زندگی کا خاتمہ کردیا۔
13 میں صبح تک مدد کے لئے پکارتا رہا تب وہ شیر ببر کی مانند میری سب ہڈیاں چور کر ڈالتا ہے۔
    تم نے صرف ایک ہی دن میں میری زندگی کا خاتمہ کردیا۔
14 میں کبوتر جیسا روتا رہاہوں میں ایک پرندہ جیسا روتا رہا۔
    میری آنکھیں تھک گئیں
تو بھی میں لگا تار آسمان کی طرف تکتا رہا۔
    میرے مالک میں مصیبت میں ہوں تو میری مدد کر۔
15 میں اپنے حالات کو بدلنے کے لئے اور کیا کہہ سکتا ہوں؟
    میرے مالک نے مجھ کو بتا یا کہ وہ کیا کرے گا
    اور اس نے خود اسے کیا۔
میں اپنی روح کی تلخی کی وجہ سے
    اپنی زندگی کے پورے سالوں میں آہستہ آہستہ چلا کروں گا۔
16 میرے مالک! ان ہی چیزوں سے انسان کی زندگی ہے
    اور انہی میں میری روح کی حیات ہے۔
    سو تو ہی شفا بخش
    اور مجھے زندہ رکھ !
17 دیکھو ! میری مصیبتیں ختم ہوئیں۔
    اب مجھے راحت ملی ہے۔
تو مجھ سے بہت زیادہ شفقت کرتا ہے۔
    تو نے مجھے قبر میں سڑ نے نہیں دیا۔
تو نے میرے سب گناہوں کو معاف کیا۔
    تو نے میرے سب گناہوں کو دور پھینک دیا۔
18 اس لئے کہ پاتال تیری ستائش نہیں کر سکتا،
    اور موت سے تیری حمد نہیں ہو سکتی۔
وہ جو قبر میں جاتے ہیں مدد کے لئے تیری وفا داری پر منحصر نہیں کر سکتے ہیں۔
19 وہ لوگ جو زندہ ہیں جیسا کہ آج میں ہوں
    تیری مدح سرائی کرتے ہیں۔
    ہر ایک باپ اپنی اولاد کو تیری وفاداری کی خبر دیگا۔
20 اس لئے میں کہتا ہوں “خدا وند نے مجھ کو بچا یا ہے
    اس لئے ہم عمر بھر خدا وند کے گھر میں نغمہ سرائی کریں گے اور ساز بجائیں گے۔

21 یسعیاہ نے کہا ، “ان لوگوں کو چور کئے ہوئے انجیر کا ٹکیا بنا نے دو اور اسے پھو ڑے پر لگا نے دو تب وہ شفا یاب ہوجائے گا۔

22 حزقیاہ نے کہا ، “کونسا نشان یہ ثابت کرتا ہے کہ میں خدا وند کی ہیکل کے اندر داخل ہو سکتا ہوں ؟ ”

بابل کے ایلچی

39 اس وقت مردوک بلدان بن بلدان شاہ بابل نے قاصدوں کو خط اور تحفوں کے ساتھ حزقیاہ کے پاس بھیجے۔ کیوں کہ اس نے سنا تھا کہ حزقیاہ بیمار تھا لیکن اب شفا یاب ہو گیا ہے۔ اور حزقیاہ ان قاصدوں سے بہت خوش ہوا اور اپنے خزانے یعنی چاندی اور سونا اور مصالحہ اور بیش قیمت عطر اور تمام اسلحہ اور جو کچھ اسکے خزانے میں موجود تھا ان کو دکھا یا۔ اس کے گھر میں اور اسکی ساری مملکت میں ایسی کوئی چیز نہ تھی جو حزقیاہ نے انکو نہ دکھا ئی۔

یسعیاہ نبی شاہ حزقیاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا ، “یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟”

حزقیاہ نے کہا ، “یہ لوگ دور کے ملک سے میرے پاس آئے ہیں یہ لوگ بابل سے آئے ہیں۔”

اس پر یسعیاہ نے اس سے پو چھا ، “انہوں نے تیرے محل میں کیا دیکھا ؟”

حزقیاہ نے کہا ، “میرے محل کی ہر شئے انہوں نے دیکھی میرے خزانوں میں ایسی کوئی چیز نہیں جو میں نے انکو نہ دکھا ئی ہو۔”

تب یسعیاہ نے حزقیاہ سے کہا ، “خدا وند قادر مطلق کے کلام کو سنو۔ ’دیکھ وہ دن دور نہیں ہے کہ سب کچھ جو تیرے گھر میں ہے اور جو کچھ تیرے باپ دادا نے آج کے دن تک جمع کر کے رکھا ہے بابل کو لے جائیں گے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ خدا وند قادر مطلق یہ فرماتا ہے۔ بابل کے لوگ تیرے کچھ بیٹوں کو لے جائیں گے وہ بیٹے جو تجھ سے پیدا ہوں گے۔ تیرے بیٹے شاہ بابل کے محل میں حاکم بنیں گے۔”

حزقیاہ نے یسعیاہ سے کہا ، “خدا وند کا پیغام جو تو نے سنا یا اچھا ہے۔ ( حزقیاہ نے ایسا اس لئے کہا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ جب تک میں بادشاہ ہوں یہاں سلامتی اور امن ہوگا۔)”

اسرائیل کی سزا کا خاتمہ

40 تمہارا خدا فرماتا ہے، “تسلی دو، تو میرے لوگوں کو تسلی دو!
تم یروشلم سے دلاسے کی باتیں کرو! اور ان سے کہو کہ
    تیرے غلامی کے دنوں کا خاتمہ ہوگیا۔
    تیرے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا گیا۔”
خدا وند نے تجھے تیرے تمام گناہوں کے لئے دو مرتبہ سزا دی ہے۔
سنو! پکارنے والے کی آواز سنو!
“خدا وند کے لئے بیابان میں ایک راہ بناؤ۔
    ہمارے خدا کے لئے بیابان میں ایک ہموار راہ بناؤ۔
ہر وادی کو بھر دو۔
    ہر ایک پہاڑ اور پہاڑی کو ہموار کردو۔
ٹیڑھی راہوں کو سیدھی کرو۔
    اور ہر ایک نا ہموار زمین کو ہموار بنا دو۔
تب خدا وند کا جلال ظا ہر ہوگا۔
    سب لوگ اکٹھے خدا وند کی عظمت کو دیکھیں گے۔
ہاں ، خدا وند نے یہ سب کہا ہے۔”
ایک آواز آئی ، “منادی کر!”
    اور میں نے کہا، “میں کیا منادی کروں ؟ ”
آواز نے کہا ، “سبھی لوگ گھاس کی مانند ہیں۔
    اور انکی رونق جنگلی پھول کی مانند ہے۔
ایک طاقتور آندھی خدا وند کی جانب سے اس گھاس پر چلتی ہے
    اور گھاس سوکھ جاتی ہے۔ جنگلی پھول فنا ہوجاتا ہے۔
    ہا ں سبھی لوگ گھاس کی مانند ہیں۔
گھاس مر جھا جاتی ہے ، اور جنگلی پھول فنا ہوجا تا ہے
    لیکن ہمارے خدا کا پیغام ابد تک قائم ہے۔”

نجات: خدا کی خوشخبری

اے صّیون ، خوشخبری سنانے والی!
    اونچے پہاڑ پر چڑھ جا ،
اور اے یروشلم ، قاصد خوشخبری لانے والی تو اپنی بلند آواز سے چلّا۔
    یہوداہ کے لوگوں سے کہو ، “دیکھو تمہارا خدا یہاں ہے۔”
10 میرا مالک خدا وند قدرت کے ساتھ آرہا ہے۔
    وہ اپنی قدرت کا استعمال تمام لوگوں پر حکو مت کرنے میں کرے گا۔
خدا وند اپنے لوگوں کو اجر دیگا۔
    اس کے پاس انہیں دینے کے لئے انکی مزدوری بھی ہوگی۔
11 خدا وند اپنے لوگوں کی ویسی ہی رہنمائی کرے گا جیسے کوئی چوپان اپنے گلہ کی رہنمائی کرتا ہے۔
    خدا وند اپنے بازوؤں میں میمنوں کو جمع کرے گا۔
    اور انہیں اپنے دل میں لیکر چلے گا اور وہ بھیڑوں کی ماؤ ں کی رہنمائی کرے گا۔

دنیا کو خدا نے پیدا کیا وہ اس کا حکمراں ہے

12 کیا کسی نے سمندر کو چلو سے ناپا ہے ؟
    یا آسمان کی پیمائش اپنے بالشت سے کی ہے ؟
اور کیا زمین کے دھول کو پیمائش کے کٹورے سے ناپا ہے ؟
    یا پہاڑوں کو پلڑوں میں وزن کیا ہے اور ٹیلوں کو ترازو میں تو لا ہے ؟
13 خداوند کی روح کو کس شخص نے بتا یا کہ اسے کیا کرنا ہے
    خداوند کو کس نے بتا یا ہے کہ اسے یہ کیسے کرنا چا ہئے۔
14 کیا خداوند نے کسی سے مددمانگی؟
    کیا خداوند کو کسی نے انصاف کا سبق دیا ہے؟
    کیا کسی شخص نے خداوند کو علم سکھا یا ہے؟
    کیا کسی شخص نے خداوند کو معرفت کی بات بتا ئی ہے۔ اور حکمت سے کام لینا سکھا یا ہے؟ نہیں!
15 دیکھو! قومیں بالٹی میں پانی کی ایک بوند کی مانند ہیں۔
اور ترازو کی باریک گرد کی مانند گنی جاتی ہیں۔
    دیکھو! وہ جزیروں کو ایک ذرّہ کی مانند اٹھا لیتا ہے۔
16 لبنان کے سارے درخت بھی کا فی نہیں ہیں
    کہ انہیں خداوند کے لئے جلا یا جا ئے۔
لبنان کے سارے جانور کا فی نہیں ہیں
    کہ انکو اس کی ایک جلانے کی قربانی کے لئے مارا جا ئے۔
17 خدا کے مقابلہ میں دنیا کی سب قومیں کچھ بھی نھیں ہیں۔
    خدا کے مقابلہ میں دنیا کی سب قومیں بالکل ہی بے مول ہیں۔

خدا کیا ہے، لوگ تصّور بھی نہیں کر سکتے

18 کیا تم خدا کا موازنہ کسی بھی شئے سے کر سکتے ہو؟ نہیں!
    کیا تم خدا کی تصویر بنا سکتے ہو ؟ نہیں !
19 کیا تم اس کا مواز نہ ایک بت سے کر سکتے ہو؟
    ایک کاریگر مورتی کو بناتا ہے۔
پھر دوسرا کاریگر اس پر سونا چڑھا د یتا ہے
    اور اس کے لئے چاندی کی زنجیر بھی بناتا ہے۔
20 تحفہ کے طور پر ایک شخص شہتو ت کی لکڑی کو چنتا ہے
    جو کہ سڑتی نہیں ہے
وہ ایک ماہر کا ریگر کو تلاش کر تا ہے
    تا کہ ایسی مورت بنا ئے جو گرے نہیں ہمیشہ قائم رہے۔
21 یقیناً تم سچا ئی جانتے ہو؟
    یقیناً تم نے سنا ہے!
    بہت پہلے کسی شخص نے تمہیں بتا یا ہے!
    یقیناً تم جانتے ہو کہ زمین کو کس نے بنایا ہے!
22 وہ خدا وند ہے جو اوپر آسمان میں اپنے تخت پر بیٹھتا ہے۔
    اسکے سامنے لوگ ٹڈی کی مانند لگتے ہیں۔
اس نے آسمانوں کو کسی پردہ کی مانند کھول دیا
    اور اس کو رہائش گاہ کے لئے خیمہ کی مانند پھیلا دیا ہے۔
23 خدا حکمرانوں کو غیر اہم بنا دیتا ہے۔
    وہ اس دنیا کے منصفوں کو پوری طرح بیکار بنا دیتا ہے۔
24 وہ دنیاوی حکمراں ایسے ہیں جیسے وہ پودے جنہیں زمین میں بویا گیا ہو۔
    لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی جڑیں زمین میں مضبوطی سے جکڑ پائے،
“خدا انکو بہا دیتا ہے
    اور وہ مرجھا جاتے ہیں۔
    اور طوفانی ہوا اس کو بھو سے کی مانند اڑا لے جاتی ہے۔
25 قدّوس کہتا ہے، “کیا تم کسی سے بھی میرا موازنہ کر سکتے ہو؟
    نہیں! کوئی بھی میرے برابر کا نہیں ہے۔

26 اوپر آسمان میں تاروں کو دیکھو۔
    کس نے ان سبھی تاروں کو بنایا؟
    کس نے آسمان کی وہ سبھی فوج بنائی؟
    کس کو سبھی تارے نام بنام معلوم ہیں؟
اس کی قدرت کی عظمت اور اسکی بازو کی توانائی کے سبب سے
    ایک بھی چھوٹ نہیں پائیگا۔”
27 اے یعقوب! تم کیوں شکا یت کرتے ہو؟
    اے اسرائیل! تو ایسا کیوں کہتا ہے،
“اگر میرے ساتھ نا انصافی کا برتاؤ کیا جاتا ہے تو خدا وند میری طرف توجہ نہیں دیتا ہے
    خدا میری طرف خیال نہیں کرتا ہے۔”
28 کیا تو نہیں جانتا ہے ؟
    کیا تو نہیں سنا ہے؟
کہ خدا وند ہمیشہ رہنے والا خدا ہے،
    ساری زمین کا خالق ہے۔
وہ نہ تھکتا ہے اور نہ ہی پریشان ہوتا ہے۔
    کوئی بھی شخص اس کی دانشمندی کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتا ہے۔
29 خدا وند ہمیشہ نا توانوں کو زور آور بننے میں مدد دیتا ہے۔
    وہ ان لوگوں کو جو کمزور ہیں طاقتور بنا تا ہے۔
30 نو جوان تھکتے ہیں اور انہیں آرام کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
    وہ تھک جاتے ہیں ٹھو کر کھا تے ہیں اور گر تے ہیں۔
31 لیکن وہ لوگ جو خدا وند کے بھروسے ہیں از سرِ نو توانا ئی حاصل کریں گے۔عقابوں کی مانند انکے نئے پر بڑھیں گے
    اگر وہ دوڑیں گے تو بھی نہیں تھکیں گے۔
    وہ چلیں گے اور تھکا ماندہ نہ ہونگے۔

خدا وند خالق ہے وہ غیر فانی ہے

41 خداوند کہا کر تا ہے،
“اے دور کے ملکو ! چپ رہو اور میری بات سنو۔
اے قومو ! ازسر نو طاقتور بنو۔
    میرے پاس آؤ اور مجھ سے باتیں کرو۔
آپس مل جل کر ہم فیصلہ کریں
    کہ کون صحیح ہے ؟
مشرق سے آتے ہو ئے اس آدمی کو کس نے جگا یا۔
    وہ جہاں کہیں بھی جا تا ہے فتح حاصل کر تا ہے ؟
وہ جس نے اس کو لا یا قوموں کو اس کے حوا لے کر تا ہے اور اسے بادشا ہوں پر مسلط کر تا ہے۔
    وہ اپنی تلوارو ں اور تیروں سے ان لوگو ں کو
    دھول یا اڑتی ہو ئی بھو سی کی مانند کر دیتا ہے۔
وہ آدمی قوموں کا پیچھا کر تا ہے اور نقصان بھی نہیں اٹھا تا ہے۔
    وہ اتنی تیزی سے چلتا ہے کہ اس کا پیرزمین کو محض ہی چھوتا ہے۔
کس نے یہ سب کیا اور ایسا ہو نے کا سبب بنا؟
    وہ کون ہے جو تا ریخ کو بہت شروع سے ہی اپنے گرفت میں کئے ہو ئے ہے؟
میں، خداوند نے ان سب کو کیا۔
    میں ، خداوند ابتداء میں تھا
    اور میں انتہا میں وہاں رہو ں گا۔
جزیروں نے دیکھا
    اور ڈر گئے۔
زمین کے کنارے تھرا گئے،
    وہ نزدیک آتے گئے۔”

وہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ، “حوصلہ رکھ”! بڑھئی سنار کا حوصلہ بڑھا تا ہے اور وہ جو دھات کو ہتھو ڑا سے پیٹ کر چپٹا کرتا ہے وہ اس شخص کا حوصلہ بڑھا تا ہے جواہرن پر اسے پیٹ کر شکل و صورت دیتا ہے۔ آخری کاریگر کہتا ہے دھا ت کا یہ کام اچھا ہے۔ تب وہ مورتی کو ایک بنیاد پر میخوں سے ٹھونک دیتا ہے تا کہ یہ گر نہ جائے۔”

صرف خدا وند ہی ہماری حفاظت کرسکتا ہے

خدا وند کہتا ہے لیکن اے اسرائیل تو میرا بندہ ہے۔
    اے یعقوب! میں نے تجھ کو چنا ہے۔
    تو میرے دوست ابراہیم کی نسل سے ہے۔
میں نے تجھے زمین کے
    دور کے ملکوں سے اٹھا یا۔
میں نے تمہیں اس دور کے ملک سے بلا یا۔
    میں نے کہا تو میرا بندہ ہے۔
میں نے تجھ کو چنا
    اور میں نے تجھے کبھی ردّ نہیں کیا۔
10 تو فکر مت کر، میں تیرے ساتھ ہوں۔
    تو خوفزدہ مت ہو، میں تیرا خدا ہوں۔
میں تجھے زور بخشونگا۔
    میں یقیناً تیری مدد کروں گا
اور میں اپنی فتحمندی کے داہنے ہاتھ سے تجھے سنبھا لوں گا۔
11 دیکھ ہر وہ لوگ جو تجھ سے ناراض ہیں
    وہ پشیماں اور رسوا ہونگے۔
جو تیرے دشمن ہیں وہ بھی نہیں رہیں گے ، وہ سب مر جائیں گے۔
12 تو ان لوگوں کو ڈھونڈے گا جو تیرے مخالف تھے ۔
    لیکن تو انکو نہیں پائے گا۔
وہ لوگ جو تجھ سے لڑیں گے
    وہ پوری طرح نیست و نابود ہو جائیں گے۔
13 میں خدا وند تیرا خدا ہوں،
    میں نے تیرا داہنا ہاتھ تھام رکھا ہے۔
میں تجھ سے کہتا ہوں کہ
    تو مت ڈر میں تجھے سہارا دونگا۔
14     اے چھو ٹے کیڑے یعقوب!
    خوفزدہ نہ ہو! اے چھو ٹی تتلی اسرائیل ڈر مت!
یقیناً میں تجھ کو مدد دونگا۔”
خود خدا وند ہی نے یہ ساری باتیں کہی تھیں۔

اسرائیل کے مقدس نے
    جو تمہاری حفاظت کرتا ہے کہا تھا :
15 “دیکھو! میں تجھے اناج مَلنے کا نیا اور تیز دانتدار آلہ بناؤنگا۔
    تو پہاڑیوں کو کوٹے گا اور انکو ریزہ ریزہ کر دے گا۔
    اور پہاڑیوں کو بھو سے کی مانند بنا دیگا۔
16 تو انکو ہوا میں اچھا لے گا
    اور ہوا ان کو اڑا کر دور لے جائے گی اور انہیں کہیں بکھیر دیگی۔
تب تو میری ، خدا وند کی وجہ سے شادماں ہوگا
    اور تو اسرائیل کے قدوس پر فخر کرے گا۔”
17 “اس وقت غریب لوگ اور حاجت مند پانی ڈھونڈیں گے
    لیکن انہیں پانی نہیں ملے گا۔
    جب وہ پیاسے ہونگے اور انکی زبان خشک ہوگی
تب میں خدا وند انکی التجا کا جواب دونگا۔
    میں اسرائیل کا خدا انکو ویران ہونے نہیں دونگا۔
18 میں سوکھے پہا ڑوں پر ندیاں بہا دونگا
    اور وادیوں سے چشمہ جاری کروں گا۔
میں ریگستان کو جھیل میں بدل دونگا
    اور خشک زمین کو پانی کا چشمہ بنا دونگا۔
19 میں بیابان میں دیودار، ببول، آس اور زیتون کے درخت لگاؤنگا۔
    میں ریت سے بھرے صحرا میں چیڑ، سرو، صنو بر اکٹھے لگاؤں گا۔
20 لوگ ایسا ہوتے ہوئے دیکھیں گے اور جانیں گے کہ خدا وند کی قدرت نے یہ سب کیا ہے۔
    لوگ انکو دیکھیں گے
اور سمجھنا شروع کریں گے
    کہ اسرائیل کے قدوس (خدا ) نے یہ کام کیا ہے۔

خدا وند کا جھو ٹے خداؤں کو للکارنا

21 خدا وند ، یعقوب کا بادشاہ فرماتا ہے ، “اے جھو ٹے خدا وندو یہاں آؤ ! اپنا معاملہ پیش کرو۔ اپنے معاملے آگے رکھو۔ 22 تمہاری مورتیوں کو ہمارے پاس آکر ، جو ہو رہا ہے وہ بتا نا چاہئے۔ آغاز میں جو کچھ ہوا تھا ، اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ ہمیں بتاؤ ہم نہایت توجہ سے سنیں گے جس سے ہم یہ جان جائیں گے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ 23 ہمیں ان باتوں کو بتاؤ جو ہونے والی ہیں۔ تاکہ ہم یقین کریں کہ سچ مچ میں تم خدا وند ہو۔ کم سے کم کچھ کرو! چاہے بھلا ، چاہے برا۔ تاکہ ہم دیکھ سکیں اور حیرت زدہ ہوجائیں اور ڈر جائیں۔

24 “دیکھو جھو ٹے خداوندو ! تم ہیچ اور بیکار ہو۔ تم تو کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ جو تمہاری پرستش کرتا ہے نفرت انگیز ہے۔

صرف خدا وند ہی خدا ہے

25 “شمال میں، میں نے ایک شخص کو اٹھا یا ہے۔
    وہ مشرق سے جہاں سورج طلوع ہوتا ہے آرہا ہے۔
    وہ دعا میں مجھے پکارتا ہے۔
وہ حکمرانوں کو مٹی کی طرح روندتا ہے جس طرح سے کمہار مٹی کو روندتا ہے۔”

26 کسی نے ابتداء سے بتا یا تا کہ ہم اسے ہونے سے پہلے جان جائیں،
    تاکہ ہم یہ کہہ سکیں ، ’وہ صحیح ہے‘
اصل میں اسے کسی نے نہیں کہا۔
    سچ مچ میں کسی نے بھی اس کی جانکاری نہیں دی۔
    اصل میں کوئی بھی نہیں تھا جو تمہاری باتوں کو سنا۔
27 میں خدا وند صیّون کو ان باتوں کے بارے میں بتانے والا پہلا تھا۔
    میں نے ایک قاصد کو اس پیغام کے ساتھ یروشلم بھیجا تھا “
    دیکھو! تمہارے لوگ واپس آرہے ہیں۔”
28 میں نے ان جھو ٹے خداؤں کو دیکھا تھا۔
    ان میں سے کوئی بھی اتنا دانشمند نہیں تھا
    جو کچھ کہہ سکے۔
میں نے ان سے سوال پو چھے تھے،
    وہ ایک بھی جواب نہیں دے پائے تھے۔
29 وہ سبھی خدا وندیں بالکل ہی بیکار تھے!
    وہ کچھ نہیں کر پاتے۔
    انکی مورتیاں باکل ہی بیکار تھیں۔

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

©2014 Bible League International