Beginning
خدا کا ایوب سے کہنا
38 تب خدا وند نے طو فانی ہوا سے جواب دیا۔ خدا نے کہا :
2 “یہ کون جاہل شخص ہے جو احمقانہ باتیں کر رہا ہے ؟ ”
3 اے ایوب ! تیار ہو جاؤ
اور سوالو ں کا جواب دینے کے لئے جو میں تم سے پو چھوں تیار ہو جاؤ۔
4 “ایّوب ! بتا تو کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیاد ڈا لی تھی ؟
اگر تو اتنا سمجھدار ہے تو مجھے جواب دے۔
5 کیا تم کو معلوم ہے کس نے اسکی ناپ ٹھہرا ئی
یا کس نے اس پر سوت کھینچا ؟
6 کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی بنیاد کس پر رکھی گئی ہے ؟
کیا تم جانتے ہو کہ کس نے پہلے پتھر کو اسکی جگہ پر رکھا ہے ؟
7 جب ایسا کیا گیا تھا تب ستارے ملکر گائے تھے
اور سارے فرشتے خوشی سے للکارے تھے !
8 “ایّوب ! جب سمندر زمین کی گہرائی سے پھوٹ پڑا تھا ،
تو کس نے اسے روکنے کے لئے دروازوں کو بند کیا تھا ؟
9 اس وقت میں نے بادلوں سے سمندر کو لپیٹ دیا تھا۔
(جیسے بچہ کو چادر میں لپیٹا جاتا ہے۔)
10 سمندر کی حدیں میں نے مقرر کی تھيں۔
اور اسے تالا لگے ہوئے پھا ٹکوں کے پیچھے رکھا تھا۔
11 میں نے سمندر سے کہا ، ’تو یہاں تک آسکتا ہے لیکن تو اس حد کو پار نہیں کر سکتا ہے۔
تیری مغرور موجیں یہاں پر رک جائیں گی۔‘
12 “ایوب ، کیا تو کبھی اپنی زندگی میں سویرا (سورج ) کو حکم دیا کہ طلوع ہوجا
یا دن کو کہ آغاز ہوجا ؟
13 ایوب ! کیا تو نے کبھی صبح کی روشنی کو زمین پر چھا جانے کا حکم دیا ہے
اور شریر لوگوں کے چھپنے کی جگہ کو چھو ڑ نے کے لئے بلا یا ہے۔
14 صبح سویرے کی روشنی
پہاڑ یوں اور وادیوں کو ظا ہر کر دیتی ہے۔
جب دن کا اجالا زمین کے اوپر پھیلتا ہے
تو ان تمام چیزوں کی شکل و صورت کپڑوں کی سلوٹوں کی طرح ظا ہر ہوجاتی ہے۔
وہ چکنی مٹی کو مہر سے دبائی گئی جیسی
شکل کو اختیار کرتی ہے۔
15 شریر لوگوں کو دن کی روشنی بھلی نہیں لگتی
کیوں کہ جب یہ پھیلتی ہے تب یہ انکو برے کام کرنے سے رکنے پر مجبور کرتی ہے۔
16 “ایوب ! بتا کیا تو کبھی بھی سمندر کے منبع میں گیا ہے جہاں سے سمندر شروع ہوتا ہے ؟
کیا تو کبھی بھی سمندر کے سطح پر چلا ہے ؟
17 ایوب ! کیا تم نے کسی بھی وقت ان پھاٹکوں کو دیکھا ہے جو موت کی دنیا کی طرف جاتی ہے ؟
کیا تم نے کبھی پھاٹکوں کو دیکھا ہے جو تمہیں موت کے اندھیری جگہ پر لے جاتی ہے۔
18 ایوب ! کیا تو سچ مچ میں جانتا ہے کہ یہ زمین کتنی بڑی ہے ؟
اگر تو یہ سب کچھ جانتا ہے تو تو مجھ کو بتا۔
19 “ایوب ! روشنی کہاں سے آتی ہے ؟
اور تاریکی کہاں سے آتی ہے ؟
20 ایّوب ! کیا تم روشنی اور اندھیرے کو اسکی ابتداء کی جگہ واپس لے جا سکتے ہو ؟
کیا تم اس جگہ کا راستہ جانتے ہو ؟
21 ایّوب ! یقیناً تم سبھی چیزیں جانتے ہو کیوں کہ تم بہت عمر رسیدہ اور عقلمند شخص ہو۔
جب یہ چیزیں بنائی گئی تھیں تو تم زندہ تھے ؟
22 “ایوب ! کیا تو کبھی ان کو ٹھریوں میں گیا ہے
جہاں میں برف اور اولوں کو رکھا کرتا ہوں ؟
23 میں نے برف اور اولوں کو تکلیف کے وقت استعمال کرنے کے لئے ،
لڑائی اور جنگ کے دوران استعمال کرنے کے لئے رکھا ہے۔
24 ایّوب ! کیا تُو کبھی ایسی جگہ گیا ہے جہاں سے سورج اُگتا ہے
اور جہاں سے مشرقی ہوا ساری زمین پر بہنے کے لئے آتی ہے ؟
25 ایوّب ! شدید بارش کے لئے آسمان میں کِس نے نہر بنا ئی ہے ؟
اور کِس نے بجلی کے طوفان کا راستہ بنایا ہے ؟
26 ایّوب ! کس نے وہاں بھی پانی برسایا ،
جہاں کو ئی بھی نہیں رہتا ؟
27 وہ بارش اس خالی زمین کو بہت سارا پانی مہیا کراتا ہے
اور گھاس اُگنا شروع ہو جا تا ہے۔
28 ایّوب ! کیا بارش کا کو ئی باپ ہے ؛
یا شبنم کے قطرے کس نے بنا ئے ؟
29 ایّوب ! برف کی ماں کون ہے ؟
اولوں کو کس نے پیدا کیا ؟
30 پانی جب جم جا تا ہے ،چٹان کی طرح سخت ہو جا تا ہے
اور یہاں تک کہ سمندربھی جم جا تا ہے۔
31 “ایوّب ! کیا تو ثریا کو باندھ سکتا ہے ؟
کیا تو جبّار کے بندھن کو کھول سکتا ہے ؟
32 کیا تم کہکشاں [a] کو اس کے مقررہ وقت پر باہر لا سکتے ہو ؟
کیا تم بھالو کو اس کے بچوں کے ساتھ باہر نکال سکتے ہو۔
33 کیا تو ان قوانین کو جانتا ہے جو آسمان پر حکمرانی کرتا ہے ؟
کیا تو ان قوانین کو زمین پر لا گو کر سکتا ہے۔
34 “ایوّب بتا! کیا تو پکار کر بادلوں کو حکم دے سکتا ہے
کہ وہ تمہا رے اوپر پانی بر سا ئے ؟
35 ایّوب ! کیا توبجلی کو حکم دے سکتا ہے ؟
کیا یہ تیرے پاس آکر کہے گا ، ’ہم یہاں ہیں۔ جناب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ ”
کیا یہ وہاں بھی جا ئے گا جہاں تم اسے بھیجنا چا ہو گے ؟
36 “ایّوب ! لوگو ں کو ذہین کون بناتا ہے ؟
ان کے باطن میں حکمت کو ن رکھتا ہے ؟
37 ایّوب ! کون اتنا زیادہ دانشمند ہے جو بادلوں کو گن لے
اور ان کو ان کے پانی کو انڈیل نے کے لئے الٹ دے ؟
38 بارش دھول کو کیچڑ بنا دیتی ہے
اور چکنی مٹی کے ڈھیلے آپس میں مل جا تے ہیں۔
39 “ایّوب ! کیا تم شیر کا شکار کر سکتے ہو ؟
اور کیا تم اس کے بھو کے بچو ں کو آ سودہ کر سکتے ہو ؟
40 وہ اپنی ماندو ں میں پڑے رہتے ہیں
یا جھاڑیو ں میں گھات لگا کر اپنے شکار پر جھپٹنے کے لئے بیٹھتے ہیں۔
41 ایّوب ! پہاڑی کوّے کو خوراک کو ن دیتا ہے ؟ ان کے بچے خدا سے فریاد کر تے ہیں
اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اِدھر اُدھر جا تے ہیں۔
39 “ایّوب ! کیا تو جانتا ہے پہاڑ کی جنگلی بکری کب بچے دیتی ہے ؟
اس طرح سے جب ہرنی بچہ دیتی ہے تو کیا تو دیکھتا ہے ؟
2 ایّوب ! کیا تم جانتے ہو کتنے مہینے بکری اور ہرنی اپنے بچوں کو اپنے رحموں میں رکھتی ہیں ؟
کیا تم جانتے ہو ان کے پیدا ہو نے کا صحیح وقت کیا ہے ؟
3 وہ جانور لیٹ جا تے ہیں اور بچوں کو جنم دیتے ہیں۔
تب ان کا درد ختم ہو جا تا ہے۔
4 ان کے بچے میدان میں مو ٹے تازے ہو تے ہیں۔ اور بڑھتے ہیں۔
تب وہ اپنی ماؤں کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کبھی بھی واپس نہیں لوٹتے ہیں۔
5 “ایّوب ! جنگلی گدھوں کو کون آزاد چھوڑدیتا ہے ؟
کس نے ان کا رسّہ کھو لا اور بندھن سے نجات دی ؟
6 یہ میں ہو ں(خدا ) جس نے ریگستان کو جنگلی گدھوں کے حوالے اس میں رہنے کے لئے کیا۔
میں نے جنگلی گدھوں کو نمکین زمین رہنے کی جگہ کے طور پر دی۔
7 جنگلی گدھا شہر کے شور و غُل پر ہنستا ہے
اور کو ئی اسے قابو نہیں کرسکتا ہے۔
8 جنگلی گدھے پہاڑوں پر جہاں تہاں بھٹکتے ہیں۔
جنگلی گدھے وہیں پر گھاس چرتے ہیں جہاں وہ کھا نے کی غذا کھو جتے ہیں۔
9 “ایّوب ! بتا ، کیا کو ئی جنگلی سانڈ تیری خدمت پر راضی ہو گا ؟
کیا وہ تیری کھلیان میں رات کو رُکے گا ؟
10 ایّوب ! کیا تم جنگلی سانڈ کو
اپنا کھیت جوتنے کے لئے رسیوں سے باندھ سکتے ہو ؟
11 جنگلی سانڈ کا فی طاقتور ہو تا ہے
لیکن کیا تم اپنے کام کے لئے اس پر بھروسہ کر سکتے ہو ؟
12 کیا تو اپنا اناج جمع کر نے وا لے
اور اسے اپنی کھلیان تک لے جا نے کے لئے اس پر یقین کر سکتا ہے ؟
13 “شُتر مرغ جب خوش ہو تا ہے تو وہ اپنے پنکھوں کو پھڑ پھڑا تا ہے لیکن وہ اُڑ نہیں سکتا۔
اس کے پر اور پنکھ سارس کے جیسے نہیں ہو تے ہیں۔
14 مادہ شتر مرغ زمین پر اپنے انڈو ں کوچھوڑ دیتی ہے ،
اور ریت سے ان کو گرمی ملتی ہے۔
15 لیکن شتر مرغ بھول جا تا ہے کہ کو ئی اس کے انڈوں پرسے چل کر انہیں کچل سکتا ہے ،
یا کو ئی جنگلی جانور ان کو توڑسکتا ہے۔
16 شتر مرغ اپنے چھو ٹے بچوں کو چھوڑدیتی ہے۔
وہ ان سے ایسے برتاؤ کر تی ہے جیسے وہ اس کے بچے نہیں ہیں۔
اگر اس کے بچے مر بھی جا ئیں تو بھی وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی ہے
کہ اس کی ساری محنت رائیگاں گئی۔
17 کیوں کہ میں نے ( خدا ) اس شتر مرغ کو حکمت نہیں دی ہے۔
شُتر مرغ بے وقوف ہے اور میں نے ہی اسے ایسا بنا یا ہے۔
18 لیکن جب شتر مرغ دوڑنے کو تیار ہو تی ہے تب وہ گھوڑے اور اس کے سوار پر ہنستی ہے ،
کیوں کہ وہ گھوڑے سے زیادہ تیز بھاگتی ہے۔
19 “ایّوب ! بتا کیا تونے گھوڑے کو طاقت دی ؟
اور کیا اس کی گردن کو لہراتی ایال سے تو نے ملبس کیا ؟
20 ایّوب ! کیا تم نے گھوڑے کو ٹڈی کی طرح کو دایا ؟
گھوڑا مُہیب آواز میں ہنہنا تا ہے اور لوگ ڈرجا تے ہیں۔
21 گھوڑا خوش ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے اور اپنے کھُرسے وہ زمین کھودا کر تا ہے۔
اور جنگ میں تیزی سے سر پٹ دوڑتا ہے۔
22 گھوڑے دہشت کا مذاق اُڑا تے ہیں کیوں کہ وہ اس سے بالکل ڈرا ہوا نہیں ہے ،
گھوڑے لڑا ئی کے دوران نہیں بھاگتے ہیں۔
23 سپا ہیوں کا ترکش گھوڑے کے بغل میں ہلتا ہے۔
اس کے بھالے اور ہتھیار دھوپ میں چمکتے ہیں۔
24 گھوڑا بہت پُر جوش ہو جا تا ہے۔ وہ زمین کے اوپر بہت تیز دوڑتا ہے۔
جب گھوڑا بگل کی آواز سنتا ہے تو وہ اور کھڑا نہیں رہ سکتا ہے۔
25 جب جب بگل بجتی ہے وہ ہنہناتا ہے ’ ہّرے !‘
اور لڑا ئی کو دورسے سونگھ لیتا ہے۔
وہ فو ج کے سپہ سالا ر کے احکام اور جنگ کے دوسرے الفاظ سن لے تا ہے۔
26 “ایّوب ! کیا باز کو تم نے اپنے پنکھوں کو پھیلانا
اور جنوب کی طرف اُڑنا سکھا یا ؟
27 کیا تم نے عقاب کو آسمان کی بلندی پر اڑنے کے لئے کہا ؟
کیا تم نے اسے پہاڑ کی بلندی پر گھونسلہ بنانے کے لئے کہا ؟
28 عقاب چٹان پر رہا کر تا ہے
چٹان اس کا قلعہ ہے۔
29 عقاب بلندی پر اپنے قلعہ سے اپنے شکار کو دیکھ لیتا ہے۔
عقاب دور ہی سے اپنی خوراک پہچان لیتا ہے۔
30 عقاب لا شوں کے پاس جمع ہو جا تا ہے۔
ان کے بچے خون چوسا کر تے ہیں۔”
©2014 Bible League International