Print Page Options
Previous Prev Day Next DayNext

Beginning

Read the Bible from start to finish, from Genesis to Revelation.
Duration: 365 days
Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
ایّوب 24-28

24 “خدا قادر مطلق کیوں جانتا ہے کہ لوگوں پر بری چیزیں کب ہونگی۔
    لیکن اس کے ماننے والے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ کب اس کے بارے میں کچھ کرنے جا رہا ہے۔”

“لوگ اپنی جائیداد کی حدود کے نشان کو اپنے پڑوسی کی زمین کو زیادہ لینے کے لئے کھسکا دیتے ہیں۔
    وہ بھیڑوں کے جھنڈ کو چرا لیتے ہیں۔ اور دوسری گھاس کے میدان میں ہانک دیتے ہیں۔
یتیم بچّوں کے گدھے کو وہ چرا لے جاتے ہیں۔ بیوہ کی گائے کو وہ کھول کر لے جاتے ہیں۔
    جب تک کہ وہ انکا قرض ادا نہیں کر دیتی ہے۔ شریر لوگ شیر خوار بچے کو اسکی ماں سے چھین لیتے ہیں۔
    وہ غریب کے بچے کو قرض کی ضمانت کے طور پر لے جاتے ہیں۔
وہ غریبوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ بغیر گھر کے ایک جگہ سے دوسري جگہ بھٹکتے پھریں۔
    غریب لوگوں کو شریر لوگوں سے اپنے آپ کو چھپا نے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔

“غریب لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بیا بان میں اپنی خوراک کی تلاش میں بھٹکتے ہیں۔
    وہ صبح سویرے خوراک کی تلاش میں اٹھتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے بچوں کا کھا نا حاصل کر نے کے لئے دیر شام تک کام کرتے ہیں۔
غریب لوگوں کو دیر رات تک فصلوں کو کاٹنے اور پیالوں کو کھیت میں جمع کر نے کے لئے کام کرنا ہوگا۔
    ان کو امیر لوگوں کے لئے کام کرنا ہوگا۔ انکے تاکستانوں میں انگور اکٹھا کر نا ہوگا۔
بنا کپڑوں کے انہوں نے اپنی راتیں بتائيں۔
    انکے پاس سردی کے موسم میں خود کو ڈھکنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
8-9 وہ پہاڑوں پر بارش سے بھیگ جاتے ہیں
    اور پناہ کی کمی کی وجہ سے چٹان سے لپٹ جاتے ہیں۔
10 کپڑوں کی کمی کی وجہ سے غریب لوگ ننگا بدن کام کرنے کے لئے جاتے ہیں۔
    وہ شریر لوگوں کے لئے اناجوں کے ڈھیروں کو اٹھا تے ہیں۔ لیکن وہ اب بھی بھوکے رہتے ہیں۔
11 وہ لوگ زیتون کو تیل نکالنے کے لئے پیستے ہیں۔
    وہ اسے مئے کے کو لہو میں روند تے ہیں لیکن پھر بھی پیاسے رہتے ہیں۔
12 مرتے ہو ئے لوگ جو آہیں بھر تے ہیں ، شہر میں سُنائی دیتی ہیں۔
    ستا ئے ہو ئے لوگ سہا رے کو پکار تے ہیں ، لیکن خدا نہیں سُنتا ہے۔

13 “ کچھ لوگ روشنی کے خلاف بغاوت کر تے ہیں ، وہ خد ا کے راستو ں کو نہیں جانتے ہیں۔

وہ لوگ اس راستہ پر نہیں رہتے ہیں جسے خدا چا ہتا ہے۔

14 قاتل صبح ہو تے ہی اٹھتا ہے۔
    غریبوں اور ضرورت مندوں کو ہلاک کرتا ہے ، اور رات میں چور بن جا تا ہے۔
15 زنا کا ر رات آنے کا منتظر رہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے کو ئی نہیں دیکھے گا ،
    اور تب تک وہ اپنا چہرہ ڈھانک کر رکھتا ہے۔
16 اندھیرے میں شریر لوگ دوسرے لوگو ں کے گھرو ں میں گھس جا تے ہیں،
    لیکن دن میں خود کو اپنے گھرو ں میں بند رکھتے ہیں اور روشنی سے بچتے ہیں۔
17 ان جیسے لوگو ں کے لئے سب سے اندھیری رات صبح جیسی ہو تی ہے۔
    ہاں ، وہ لوگ اس خطرناک اندھیری رات کی دہشت سے اچھی طرح واقف ہیں۔

18 “شریر لوگ ایسے بہا دیئے جا تے ہیں جیسے سیلاب سے سامان بہہ جا تا ہے۔
    انکی زمین لعنت سے بھری ہو ئی ہے۔ اس لئے وہ اپنے ہی کھیتوں سے انگوروں کو ایک ساتھ اکٹھا نہیں کر پا ئیں گے۔
19 جیسا کہ خشک سالی اور گرمی ان لوگو ں کے پانی کو جو کہ جا ڑے کے موسم کے برف سے آیا تھا سکھا دیتی ہے۔
    اس لئے قبر بھی ان گنہگاروں کو لے جا ئے گی۔
20 بُرے آدمی کی موت کے بعد اس کی ماں اسے بھول جا تی ہے۔
    اسکی لاش کھانے وا لے کیڑے ہی صرف اس کے پیارے ہیں۔
لوگ اسے یاد نہیں کریں گے۔
    وہ بُرا شخص ایک سڑی ہو ئی چھڑی کی طرح ٹوٹ جا ئے گا۔
21 بُرے لوگ بانجھ اور بنا بچے کی عورتوں کو چوٹ پہنچا تے ہیں۔
    وہ بیواؤں کی مدد کر نے سے انکار کرتے ہیں۔
22 بُرے لوگ اپنی طاقت کا استعمال طاقتور آدمی کو فنا کرنے کے لئے کر تے ہیں۔
    اگر چہ وہ طاقتور ہو جا ئیں گے، لیکن وہ لوگ اپنی زندگی کے بارے میں بھی پرُ یقین نہیں ہو سکتے ہیں۔
23 بُرے لوگ کچھ وقت کے لئے ہو سکتا ہے محفوظ اور بے خطر محسوس کریں۔
    ہو سکتا ہے وہ طاقتور ہونا چا ہیں۔
24 وہ لوگ تھوڑے وقت کے لئے کامیاب ہو سکتے ہیں ، لیکن آخر میں وہ فنا کر دیئے جا تے ہیں۔
    دوسرے لوگوں کی مانند ان لوگو ں کو بھی اناج کی بالیوں کی طرح کاٹ ديا جائےگا۔

25 میں وعدہ کر تا ہو ں کہ یہ باتیں صحیح ہیں ! کون ثابت کر سکتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے ؟
    کون ثابت کر سکتا ہے کہ میری باتیں غلط ہیں ؟ ”

بِلدد سُوخی کا ایّوب کو جواب

25 تب بِلدد سوُ خی نے ایّوب کو جواب دیا :

“خدا حکمران ہے ، وہ لوگو ں کو خوفزدہ کر تا ہے اور اس سے اپنا احترام کرواتا ہے۔
    وہ اوپر اپنی سلطنت میں امن و امان قائم کر تا ہے۔
کو ئی اس کے ستاروں [a] کو گِن نہیں سکتا ہے۔
    خدا کا سورج سب پر چمکتا ہے۔
خدا کے مقابلہ میں کو ئی شخص بہتر نہیں ہے۔
    ایک وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے کبھی بھی پاک نہیں ہو سکتا۔
یہاں تک کہ خدا کی آنکھوں کے سامنے چاندی بھی چمکیلي نہیں ہے۔
    خدا کی نظرمیں تارے بھی پاک نہیں ہیں۔
لوگ بھی کم پاک ہیں۔
    لوگ ایک بیکار کیڑے کی مانند ہیں۔”

ایّوب کا بِلدد کو جواب

26 تب ایّوب نے جواب دیا :

“اے بِلدد ، ضوفر ، اور الیفاز ! تم سچ مچ میں تھکے ماندے آدمی کے مددگار ہو چکے ہو۔
    ارے ہاں ! تم پھر سے میرے کمزور بازوؤں کو حوصلہ مند اور طاقتور بنا چکے ہو۔
ہاں! تم نے اس ایک کو جو عقلمند نہیں ہے تعجب خیز مشورہ دیا ہے۔
    اور تم نے دِکھا دیا ہے کہ تم کتنے عقلمند ہو۔ [b]
ان باتو ں کو کہنے میں کس نے تمہاری مدد کی ؟
    اور کس کی رُوح تیرے ذریعہ بولتی ہے ؟

“لیکن جو لوگ مر گئے ہیں انکی رُوحیں زمین کے نیچے پانی میں خوف سے کانپتی ہے۔
موت کی جگہ خدا کے سامنے کھلی ہے۔
    بربادی خدا سے چھپی ہو ئی نہیں ہے۔
اس نے شمالی آسمان کو خلا کے اوپر پھیلا دیا ہے۔
    اس نے زمین کو کسی چیز پر نہیں ٹکا یا ہے۔
خدا بادلوں کو پانی سے بھرتا ہے ،
    مگر پانی کے وز ن سے خدا بادلوں کو پھٹنے نہیں دیتا ہے۔
خدا پورے چاند کو اسکے اوپر اپنے بادلوں کو پھیلا کر ڈھانک دیتا ہے۔
10 خدا نے افق کو سمندر کے اوپر دائرہ کے جیسا کھینچا ہے۔
    جہاں روشنی اور اندھیرا پن ملتا ہے۔
11 اس کی ڈانٹ سے وہ بنیادیں جو آسمان کو تھا مے ہوئے ہیں
    خوف سے کانپ اٹھتی ہیں۔
12 اس نے اپنی طاقت سے سمندر کو خاموش کر دیا۔
    اپنی عقلمندی سے ، اس نے رہب دیو کے مدد گاروں کو برباد کر دیا۔
13 اسکی سانس سے آسمان صاف ہو گیا۔
    اس کے ہاتھوں نے اس سانپ کو مار ڈا لا جس نے بھاگنے کی کو شش کی تھی۔ [c]
14 یہ صرف کچھ ہی حیرت انگیز چیز ہے جسے خدا کرتا ہے۔
    ہم لوگ خدا کی صرف ہلکی آواز سنتے ہیں۔ کوئی بھی اسکی قوت کی گرج کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ”

27 اور ایّوب نے اپنی کہانی کہنا جاری رکھا۔ اس نے کہا ،

“وہ میرے ساتھ غیر منصف رہا ہے۔
    خدا قادر مطلق نے میری زندگی کو تلخ بنا دیا ہے۔
ليکن یقیناً ، خدا کی حیات کی قسم ،
    جب تک مجھ میں جان ہے ،
    اور خدا کی زندگی کی سانس میری ناک میں ہے ،
تب تک میرے ہونٹ بری باتیں نہیں بولیں گے
    اور میری زبان کبھی جھوٹ نہیں بولے گی۔
میں کبھی نہیں کہونگا کہ تم صحیح ہو۔
    میں مرنے کے دن تک یہ کہتا رہوں گا کہ میں بے قصور ہوں۔
میں اپنی صداقت پر مضبوطی سے قائم رہوں گا۔ اور میں اسے کبھی نہیں چھو ڑوں گا۔
    جب تک میں زندہ ہوں میرا شعور مجھے تنگ نہیں کرے گا۔
“وہ لوگ میرے خلاف ہو گئے ہیں۔ میری خواہش ہے
    کہ میرے دشمنوں کو اسی طرح سزا دی جاتی جس طرح برے لوگوں کو سزا دینی چاہئے۔
ایسے شخص کے لئے مرتے وقت کوئی امید نہیں ہے جو خدا کی پر واہ نہیں کرتا ہے۔
    جب خدا اس کی جان لیگا تب تک اس کے لئے کوئی امید نہیں ہے۔
کیا خدا برے شخص کی چیخ کو سنتا ہے
    جب وہ اسے مصیبت کے وقت پکارتا ہے۔
10 اس شخص کو خدا قادر مطلق میں خوشی لینا چاہئے تھا۔
    اس کو خدا کی ہر وقت عبادت کرنی چاہئے تھی۔

11 “میں تم کو خدا کے بر تاؤ کی تعلیم دونگا۔
    میں خدا قادر مطلق کے منصوبے نہیں چھپا ؤں گا۔
12 تم سب نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے۔
    پھر تم کیوں اس طرح کی فضول باتیں کر تے ہو ؟

13 شریر لوگوں کے لئے خدا نے یہ منصوبہ بنا یا ہے ،
    اور یہی ظالم لوگوں کو خدا قادر مطلق سے ملے گا۔
14 برے لوگوں کو چاہے کتنی ہی اولاد ہو ، لیکن انہیں جنگ میں مار دیا جائے گا۔
    برے لوگوں کی اولادوں کو کبھی بھی کھا نے کے لئے زیادہ نہیں ملے گا۔
15 انکے سبھی بچے مر جائیں گے
    اور اسکی بیوہ غمزدہ نہیں ہوگی۔
16 ایک برا شخص ہو سکتا ہے کہ اتنا زیادہ چاندی جمع کر لے کہ وہ اسکے لئے دھول جیسی ہو
    اور ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس اتنے زیادہ کپڑے ہوں کہ وہ اس کے لئے مٹی کے ڈھیروں کی طرح ہوں۔
17 لیکن ایک جو صادق ہے اپنے کپڑوں کو بانٹے گا
    اور معصوم انکے چاندی کو بانٹ لیں گے۔
18 شریر شخص کا بنا یا ہوا گھر زیادہ دنوں تک نہیں رہے گا۔
    وہ مکڑی کے جالے کی مانند یا کسی چوکیدار کی جھو پڑی جیسا ہوگا۔
19 ہو سکتا ہے ایک برا شخص جب وہ سونے جاتا ہے تو امیر ہو۔
    لیکن جب وہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو اس وقت انکی ساری دولت جا چکی ہو گی۔
20 دہشت اسے اچا نک سیلاب کی طرح ڈھا نک لیگی
    اور رات کو اسے طوفان اڑا لے جائے گا۔
21 مشرقی ہوا اسے اڑا لے جائیگی اور وہ مر جائے گا
    یہ اس کو اسکے گھر سے باہر اڑا لے جائیگی۔
22 برا شخص ہو سکتا ہے طوفان کی طاقت سے بچنے کی کوشش کرے
    لیکن طوفان اسے بنا کسی رحم کے تھپیڑا مارے گا۔
23 جب برا شخص بھا گے گا تو لوگ اس پر تالیاں بجائیں گے۔
    جب وہ برا شخص اپنے گھر سے بھا گے گا تو لوگ اس پر سیٹیاں بجائیں گے۔

حکمت کي اہميت

28 “وہاں چاندی کي کان ہے جہاں لوگ چاندی پا تے ہیں ،
    وہاں ایسی جگہ ہے جہاں لوگ سونا پگھلا کر اسے خالص بناتے ہیں۔
لو ہا کو زمین سے باہر نکالا گیا ہے۔
    اور تانبوں کو چٹا نوں سے پگھلا یا گیا۔
مزدو ر لوگ گہری غاروں میں روشنی لے جا تے ہیں۔
    گھنے اندھیرے میں معد نیات تلاش کرتے ہیں۔
وہ لوگ معد نی پرت کے پیچھے چلتے ہو ئے کا فی گہرا ئی تک زمین کو کھود تے ہیں۔
    جہاں لوگ رہتے ہیں اس سے بہت دور وہ لوگ گہرا ئی میں جا تے ہیں جہاں کو ئی بھی کبھی نہیں گیا۔
    وہ زمین کے نیچے دوسرے لوگوں سے کا فی دور رسیو ں سے لٹکتے ہیں۔
زمین ، اناج پیدا کر تی ہے۔
    لیکن زمین کی سطح کے نیچے ایسا ہے
    جیسا کہ سبھی چیزیں آ گ سے پگھل گئی ہوں۔
زمین کے اندر نیلم ہے
    اور اس کے دھول میں خالص سونا ہے۔
کو ئی بھی پرندہ زمین کے نیچے کی را ہیں نہیں جانتا ہے۔
    نہ ہی کسی باز نے یہ اندھیرا راستہ دیکھا ہے۔
جنگلی جانور اس راہ پر نہیں چڑھتے
    اور نہ کو ئی شیر اس راستے پر چلا ہے۔
مزدور بے حد سخت چٹانوں کو کھو دتے ہیں
    اور وہ پہاڑو ں کو کھود ڈالتے ہیں اور اسے ننگا کر تے ہیں۔
10 مزدور چٹان کاٹ کر سرنگ بناتے ہیں۔
    وہ چٹان کے سبھی خزانو ں کو دیکھا کر تے ہیں۔
11 مزدور پانی کو روکنے کے لئے باندھ باندھا کر تے ہیں
    اور وہ لوگ چھپی ہو ئی چیزوں کو اوپر روشنی میں لا تے ہیں۔

12 “لیکن حکمت کہاں پائي جا سکتي ہے ؟
    اور ہم لوگ سمجھداری کو پانے کے لئے کہاں جا سکتے ہیں ؟
13 لوگ نہیں جانتے ہیں کہ حکمت کتنی قیمتی ہے۔
    زمین پر رہنے وا لے لوگ حکمت کو زمین میں کھود کر نہیں پا سکتے ہیں۔
14 سمندر کی گہرا ئی کہتی ہے، “مجھ میں حکمت نہیں ہے۔”
    سمندر کہتا ہے میرے ساتھ وہ حکمت نہیں ہے۔
15 حکمت کو سب سے زیادہ قیمتی سونا سے بھی خریدا نہیں جا سکتا ہے
    اور نہ دنیا میں اتنی زیادہ چاندی ہے کہ جس سے حکمت کو خریدا جا سکے۔
16 حکمت اوفیر کے سونے سے یا قیمتی سلیمانی پتھر سے
    یانیلموں سے خریدی نہیں جا سکتی ہے۔
17 حکمت سونا اور نگینہ سے زیادہ قیمتی ہے۔
    قیمتی سونے کے زیورسے حکمت کو خریدا نہیں جا سکتاہے۔
18 حکمت مونگے اور بلّور سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔
    حکمت یا قوت سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔
19 پکھراج اتنا قیمتی نہیں جتنا حکمت۔
    خالص سونے سے حکمت نہیں خریدی جا سکتی ہے۔

20 “تو پھر حکمت کہاں سے آتی ہے ؟
    ہم لوگ سمجھداری کو کہاں سے پا سکتے ہیں ؟
21 حکمت ہر ایک جاندار کے آنکھوں سے چھپی ہو ئی ہے۔
    یہاں تک کہ ہوا کے پرندے بھی حکمت کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
22 موت اور ہلاکت کہتی ہے ، “ہم نے حکمت کو نہیں پا یا ہے۔
    صرف اسکی افواہ ہمارے کا نو ں تک پہنچی ہے۔”

23 لیکن صرف خدا ہی حکمت تک پہنچنے کی راہ کو جانتا ہے۔
    صرف خدا ہی جانتا ہے حکمت کہاں رہتی ہے۔
24 خدا زمین کی انتہا تک دیکھ سکتا ہے۔
    اور وہ آسمان کے نیچے سبھی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے۔
25 خدا نے ہوا کو اپنی طاقت دی ہے۔
    اس نے طئے کیا کہ سمندر کو کتنا بڑا ہو نا چا ہئے۔
26 اور خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے کہاں بارش بھیجنا ہے
    اور بجلی کی گرج اور طوفان کو کہاں جانا ہے۔
27 اس وقت خدا نے حکمت کو دیکھا اور اس کے بارے میں سوچا۔
    خدا نے دیکھا حکمت کتنی قیمتی تھی اور اس نے اسے ثابت کیا۔
28 اور خد انے لوگو ں سے کہا، “خداوند کا خوف اور احترام کرو یہی حکمت ہے۔
    بُری باتیں نہ کرو یہی سمجھداری ہے۔”

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

©2014 Bible League International