Beginning
خدا کا اپنے بندوں کو نہیں بھو لنا
11 پس میں پوچھتا ہوں، “کیا خدا نے اپنے ہی لوگوں کو ردّ کر دیا؟” نہیں! ہر گز نہیں۔ کیوں کہ میں بھی ایک اسرا ئیلی ہوں ابراہیم کی نسل اور بنیمین کے قبیلے میں سے ہوں۔ 2 خدا نے اسکے لوگوں کو ردّ نہیں کیا جنہیں اس نے پہلے ہی سے چنا تھا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ صحیفہ ایلیاہ کے ذکر میں کہتا ہے ؟ جب ایلیاہ خدا سے اسرائیلی لوگوں کے خلاف فریاد کررہا تھا ؟ 3 “اے خداوند! انہوں نے تیرے نبیوں کو قتل کیا اور تیری قربان گاہوں کوڈھا دیا صرف ایک ہی نبی میں بچا ہوں اور وہ مجھے بھی قتل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔” [a] 4 مگر تب خداوند نے اسے اس طرح جواب دیا تھا، “میں نے اپنے لئے سات ہزار آدمی بچا رکھے ہیں جنہوں نے بعل [b] کی عبادت نہیں کی۔” [c]
5 پس ویسے ہی آجکل بھی کچھ ایسے لوگ بچے ہیں جو خدا کے فضل سے بر گزیدہ بنے ہیں۔ 6 اور اگر یہ خدا کے فضل کا نتیجہ ہے تو لوگ جو عمل کر تے ہیں یہ ان اعمال کا نتیجہ نہیں ہے۔ ورنہ خدا کا فضل، فضل ہی نہ رہا۔
7 پس نتیجہ کیا ہوا ؟ بنی اسرائیل جس چیز کی تلاش کر رہے تھے وہ اسے نہیں پا سکے مگر بر گزیدوں کو اسکو پا نے میں کامیابی ہو ئی۔ جب کہ باقی سب لوگوں کو سخت کر دیا گیا اور وہ اسے پا نہ سکے۔ 8 جیسا لکھا ہے کہ:
“خدا نے انہیں ایک سست روح دی”[d]
“ایسی آنکھیں دیں جو دیکھ نہیں سکتی تھیں،
اور ایسے کان دیئے جو سن نہیں سکتے تھے
اور ٹھیک یہی حالت آج تک بنی ہو ئی ہے۔” [e]
9 داؤد کہتا ہے کہ
“ان کا دستر خوان ان کے لئے جال بنے
اور سزا کا باعث بن جا ئے۔
10 انکی آنکھیں دھند لی ہو جا ئیں تا کہ وہ دیکھ نہ سکیں
اور ان کی پیٹھ ہمیشہ جھکا ئے رکھے۔” [f]
11 پس میں پوچھتا ہوں کہ کیا انہوں نے ایسی ٹھو کر کھا ئی کہ وہ گر کر نیست و نابود ہو جا ئیں ؟نہیں۔ ہر گز نہیں! بلکہ ان کی غلطیوں سے غیر یہودی لوگوں کو نجات ملی تا کہ یہودیوں کو غیرت ہو۔ 12 پس اس طرح اگر ان کی غلطیاں دنیا کیلئے باعث برکت اور ان کے بھٹکنے سے غیر یہودیوں کے لئے باعث برکت ہو تب خدا کی خوا ہش کے مطا بق یہودیوں کا بھر پور ہونا ہی دنیا کو بھرپور برکت کا باعث ہوگا۔
13 اب میں تم لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو یہودی نہیں ہو۔ کیوں کہ میں خصو صی طور پر غیر یہودیوں کا رسول ہوں۔جہاں تک ہو سکے میں اپنی خدمت کروں گا۔ 14 اس امید پر کہ اپنے لوگوں میں بھی غیرت دلا کر ان سے بعض کو نجات دلا ؤں۔ 15 کیوں کہ اگر خدا کے وسیلے سے ان کو خارج کر دیئے جانے سے دنیا میں خدا کے ساتھ میل ملا پ پیدا ہو تا ہے تو پھر ان کا خدا کے پاس مقبول ہو نا یقیناً مردوں میں سے جی اٹھنے کے برا بر نہ ہوگا۔ 16 اگر روٹی کا نذرا نہ خدا کی نظر میں مقدس ہے تب تو روٹی بھی مقدس ہے ؟ اگر پیڑ کی جڑ مقدس ہے تو اس کی شا خیں بھی مقدس ہو ں گی۔
17 کچھ شاخیں کاٹ کر پھینک دی گئیں اور تو جنگلی زیتون کی ٹہنی ہے جس پرپیوند چڑھا دیا گیا ہے تب تم آپس میں زیتون کی روغن دار جڑمیں حصہ دار ہو گے۔ 18 تب تم ان ٹہنیوں کے آگے جو تو ڑ کر پھینک دی گئیں فخر نہ کر۔ اور اگر تو فخر کر تا ہے تو یاد رکھ تو نہیں، جو جڑ کو سہارا دیاہے بلکہ جڑ تجھ کو سنبھا لتی ہے۔ 19 اب تو کہے گا ہاں، “یہ شاخیں اس لئے توڑ دی گئیں کہ میرا اس پر پیوند چڑھے۔” 20 یہ سچ ہے کہ اور تو بے ایمانی کے سبب سے تو ڑدی گئی اور توتیرے ایمان کے سبب سے اسی جگہ پر قائم ہے اس لئے اس پر مغرور نہ ہو بلکہ تو خوف کر۔ 21 اگر خدا نے اصلی ڈالیوں کو نہ چھو ڑا تو وہ تجھے بھی نہیں چھوڑیگا۔
22 اس لئے تو خدا کی مہر بانی اور سختی پر توجہ دے۔ اس کی یہ سختی ان کے لئے جو گر گئے مگر خدا کی مہر بانی تیرے لئے ہے۔ بشرطیکہ تو اس کی مہر بانی پر قائم رہے ورنہ پیڑ سے تجھے بھی کاٹ ڈالا جائے گا۔ 23 اور اگر وہ اپنا ایمان میں لوٹیں تو انہیں پھر دوبارہ پیوند کیا جا ئے گا۔ کیوں کہ خدا پھر انہیں پیوند کر کے بحال کر نے پر قادر ہے۔ 24 ایک جنگلی شاخ کے لئے ایک اچھا درخت کا حصہ بن جانا یہ فطری نہیں ہوگا۔ لیکن تم غیر یہودی لوگ جنگلی زیتون کے درخت سے کاٹے ہو ئے ایک شاخ کی طرح ہو۔اور تمہیں ایک اچھے زیتون کی درخت میں جوڑا (کاشت کیا) گیا ہے۔ لیکن وہ یہودی اس شاخ کی طرح ہیں جو کہ ایک اچھے زیتون کے درخت سے بڑھا ہے۔ اس لئے یقینی طور پر انہیں اپنے اصل درخت میں پھر سے جوڑے جا سکتے ہیں۔
25 اے بھا ئیو اور بہنو! میں تمہیں اس پوشیدہ سچا ئی سے نا واقف رکھنا نہیں چاہتا( کہ تم اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے لگو) اسرائیل کا کچھ حصہ ایسے ہی سخت کر دیئے جا ئیں گے جب تک کہ غیر یہودی خدا کا حصہ نہیں بن جاتے۔ 26 اور اس طرح تمام اسرائیل نجات پائیں گے۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ
“چھڑا نے وا لا صیون سے آئے گا۔
وہ یعقوب کے خاندان سے برائیاں دور کریگا۔
27 اور ان کے ساتھ یہ میرا عہد ہوگا
جبکہ میں ان کے گناہوں کو دور کردوں گا۔” [g]
28 خوش خبری کے اعتبار سے وہ تمہا ری خاطر خدا کے دشمن تھے مگر جہاں تک خدا کی جانب سے انکے منتخب ہو نے کا تعلق ہے وہ انکے باپ دادا کو دئیے گئے وعدوں کی وجہ سے خدا کے پیارے ہیں۔ 29 کیوں کہ خدا جسے بلاتا ہے اور جوکچھ وہ عطیہ دیتا ہے اس کی طرف سے اپنا ذہن کبھی نہیں بدلتا۔ 30 کیوں کہ جس طرح تم پہلے خدا کے نافرمان تھے مگر اب ان کی نافرما نی کے سبب سے تم پر خدا کا رحم ہوا۔ 31 اسی طرح اب یہ بھی نا فرمان ہوئے تا کہ تم پر رحم ہونے کے باعث اب ان پر بھی رحم ہو سکے۔ 32 اس لئے کہ خدا نے ہر ایک لوگوں کو نا فرمانی میں پکڑے جا نے د یا تا کہ سب پر رحم فرما ئے۔
خدا کی توصیف
33 واہ! خدا کی حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے اس کے فیصلے ہماری سمجھ کے باہر ہیں اور اس کی راہوں کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔ 34 جیسا کہ لکھا ہے:
“خداوند کی عقل کو کس نے جانا؟
اور اسے صلاح دینے وا لا کون ہو سکتا ہے؟” [h]
35 “خدا کو کسی نے کچھ دیا ہے کہ
وہ کسی کو اس کے بدلے میں کچھ دے۔” [i]
36 کیوں کہ ساری چیزیں اس کی تخلیق کردہ ہیں اور اسی کے وسیلہ سے ان کے لئے وجود ہے۔ اسکا جلال ابد تک ہوتا رہے۔ آمین۔
اپنی زندگی خدا کے حوالے کردو
12 پس اے بھائیو اور بہنو! خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتاہوں اپنی جان کو ایسی زندہ قربانی کے لئے نذر کرو جو زندہ اور مقدس اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی خدا کے لئے تمہا ری روحانی عبادت ہے۔ 2 اس دنیا کے لوگوں کی مانند تم خود کو نہ بدلو۔ بلکہ اپنے آ پ کو دماغ کی تجدید کے مطابق بدل ڈالو تا کہ تمہیں پتہ چل جا ئے کہ خدا کی مرضی تمہا رے لئے کیا ہے۔ یعنی تم جان جاؤگے کیا اچھا ہے اور خدا کو کیا پسند ہے اور کیا کا مل ہے۔
3 میں تو اس فضل کی نعمت کی وجہ سے جو خدا کی طرف سے مجھ کو دی ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میں تم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں۔ جو تم ہو اس سے اپنے آپکو بہتر نہ سمجھو۔ بلکہ جیسا خدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے اعتدال کے ساتھ اپنے آپکو ویسا ہی سمجھو۔ 4 کیوں کہ جس طرح ہمارے ان جسموں میں بہت سے اعضاء ہیں۔اور ہر عضو کے کام ایک جیسے نہیں ہیں۔ 5 اسی طری ہم بھی جو بہت سے ہیں مگر مسیح میں شا مل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء کے طور پر کام کر تے ہیں۔
6 خدا کے فضل کی نعمت کے موافق ہمیں جو طرح طرح کی نعمتیں ملی ہیں اس لئے کہ جس کسی کو نبوت کی نعمت ملی ہو وہ اپنے ایمان کے موافق نعمت کا استعمال کر نا چاہئے۔ 7 اگر کسی کو خدمت کر نے کی نعمت ملی ہو تو اپنے آپکو دوسروں کی خدمت کے لئے وقف کر نا چاہئے۔ اگر کسی کو معلم کی نعمت ملی ہو تو اسکو تعلیم دینے میں لگا رہنا چاہئے۔ 8 اگر کسی کو ہمت بندھا نے کی نعمت ملی ہو تو اسے ہمت بندھا نی چاہئے۔اگر کسی کو خیرات بانٹنے کی نعمت ملی تو اسے چاہئے کہ سخاوت کرے۔اگر کسی کو قیادت کی نعمت ملی ہے تو سرگر می سے قیادت کرے اگر کسی کو رحم کر نے کی نعمت ملی ہو تو وہ خوشی سے رحم کرے۔
9 تمہاری محبت خلوص ہو۔ برائی سے نفرت کرو ہمیشہ نیکی سے علیٰحدہ نہ رہو۔ 10 بھا ئیوں اور بہنوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے قریب رہو۔ دوسرے کو احترام کیساتھ اپنے سے بہتر سمجھو۔ 11 کام کی کوشش میں سستی نہ کرو۔ روحانی جوش کو بڑھا ؤ۔ خدا وند کی خدمت کر تے رہو۔ 12 اپنی امید میں خوش رہو مصیبت میں صابر رہو ہمیشہ دعا میں مشغول رہو۔ 13 خدا کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق مدد کرو۔ اور مسافر کو گھر بلا کر خدمت کرنے کے موقع میں لگے رہو۔
14 جو تمہیں ستاتے ہیں انکے واسطے بر کت چاہو۔ ان پر لعنت مت بھیجو۔ بلکہ بر کت چاہو۔ 15 جو خوش ہے انکے ساتھ خوش رہو۔ جو غمزدہ ہے انکے غم میں غمزدہ رہو۔ 16 آپس میں ایک دوسرے سے مل جل کر رہو۔ بلکہ معمولی لوگوں کے ساتھ ملکر رہو فخر نہ کرو۔ اپنے آپکو عقلمند مت سمجھو۔
17 برائی کا بدلہ کسی کو بھی برائی سے مت دو۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں انکی کوشش کرو۔ 18 جہاں تک تم سے ممکن ہو سکے سب کے ساتھ امن سے رہو۔ 19 اے عزیزو! دوسروں سے انتقام نہ لو بلکہ انتظار کرو کہ خدا اپنے قہر میں انہیں سزا دیگا۔ کیوں کہ صحیفوں میں لکھا ہے: “خدا وند نے کہا انتقام لینا میرا کام ہے اور میں ہی بدلہ دونگا۔” [j] 20 بلکہ
“اگر تیرا دشمن بھو کا ہو تو اس کو کھا نا کھلا
اور اگر پیا سہ ہے تو اسکو پانی پلا،
کیوں کہ ایسا کر نے سے
تو اس کے سر پر آ گ کے انگاروں کا ڈھیر لگا ئے گا۔” [k]
21 بدی سے شکست نہ کھا ؤ بلکہ بجائے اس کے نیکی سے بدی کو شکست دو۔
اپنی حکومتوں کے تابعدار رہو
13 ہر شخص کو چاہئے کہ اعلیٰ حکومتوں کا تا بعدار ر ہے۔کیوں کہ کو ئی ایسی حکو مت نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو۔ اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرّر ہیں۔ 2 پس جو کوئی حکومت کی مخالفت کر تا ہے ’وہ خدا کے قائم کردہ حکم کی مخالفت کر تا ہے‘ اور جو خدا کے قائم کردہ حکم کی مخالفت کرتے ہیں وہ سزا پائینگے۔ 3 دیکھو کو ئی بھی حاکم اس شخص کو نہیں ڈراتا ہے جو نیکی کر تا ہے بلکہ اسی کو ڈراتا ہے جو بدکاری کر تا ہے۔ اگر تم حاکم سے نہیں ڈرناچاہتے ہو تو نیکی کے کام کرو۔ تمہیں اسکی طرف سے تعلیم ملے گی۔
4 جو حکومت کر تا ہے وہ خدا کا خادم ہے وہ تیری بھلا ئی کے لئے ہے لیکن اگر تو بدی کرے تو اس سے ڈرنا چاہئے کیوں کہ اس کے پاس تلوار بے فائدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ خدا کا خادم ہے۔ جو برے کام کر نے والوں کو سزا دینے کے لئے غضب لا تا ہے۔ 5 اسی لئے حاکم کی تابعداری ضروری ہے۔ نہ صرف غضب کے ڈر سے ضروری ہے بلکہ ضمیر کے لئے۔
6 اسی لئے تم محصول بھی انہیں دیتے ہو کیوں کہ وہ خدا کے خادم ہیں جو اپنے مخصوص فرض کو نبھا نے میں لگے رہتے ہیں۔ 7 جس کسی کا حق ہو ادا کرو محصول باقی ہو تو محصول ادا کرو جس کی مال گزاری باقی ہو اس کو مال گزاری دو ، جس سے ڈرنا چاہئے اس سے ڈرو اور جس کی عزت کر نی چاہئے اس کی عزت کرو۔
محبت ہی شریعت
8 تم کسی طرح سے کسی کے قرضدار نہ رہو لیکن یاد رکھو جو قرض تمہارا ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کر نا ہے۔کیوں کہ جو دوسروں سے محبت رکھتا ہے وہ اسی طرح شریعت پر عمل کر تا ہے۔ 9 کیوں کہ شریعت کہتی ہے، “زنا نہ کر،خون نہ کر ،چوری نہ کر ،دوسروں کی چیزوں کی خواہش نہ کر” [l] اور انکے سوا اور جو کوئی حکم ہو ان سب کا خلا صہ اس بات میں پا یا جاتا ہے کہ “اپنے پڑوسی سے اسی طرح محبت رکھو جس طرح تم اپنے آپ سے رکھتے ہو۔” [m] 10 محبت اپنے ساتھی سے بدی نہیں کرتی ا س واسطے محبت شریعت کی تعمیل ہے۔
11 یہ سب کچھ تم اس لئے کرو کہ جیسے تم جانتے ہو نازک وقت میں ہم رہ رہے ہیں تم جانتے ہو کہ تمہا رے لئے اپنی نیند سے بیدار ہو نے کا وقت آگیا ہے کیوں کہ جس وقت ہم ایمان لا ئے تھے اس وقت کی نسبت اب ہماری نجات بہت قریب ہے۔ 12 رات [n] لگ بھگ گذر گئی اور دن [o] نکلنے والا ہے اس لئے آؤ ہم تا ریکی کے کاموں کو ترک کرکے روشن ہتھیار باندھ لیں۔ 13 اس لئے ہم ویسے ہی شائستگی سے رہیں جیسے دن کے وقت رہتے ہیں۔ اس لئے غیر معیاری دعوتوں اور نشہ بازی سے، زناکاری، شہوت پرستی سے جھگڑے اور حسد سے دور رہو۔ 14 بلکہ خداوند یسوع مسیح کو پہن لو یہ مت سوچو کہ تمہا رے گناہوں کی تشفیّ کیسے کی جا ئے اور برے کام کرنے کی خواہش کیسے پورا کریں فکر مت کر۔
©2014 Bible League International