Print Page Options
Previous Prev Day Next DayNext

Beginning

Read the Bible from start to finish, from Genesis to Revelation.
Duration: 365 days
Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
رومیوں 4-7

ابرا ہیم کی مثال

تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں ہمارے اجداد ابراہیم ؟کے ایمان کے بارے میں کہ وہ کیا سیکھا ہے ؟ اگر ابرا ہیم کو اس کے اعمال کے تحت راستباز ٹھہرا یا جاتا ہے تو اسکے فخر کر نے کی بات تھی لیکن خدا کے آگے وہ فخر نہیں کر سکتا۔ صحیفہ کیا کہتا ہے ؟ “ابرا ہیم نے خدا پر ایمان لا یا۔اور خدا نے اسکے ایمان کو قبول کیا۔ اور خدا نے اسے راستباز بنایا-” [a]

کام کر نے والے کو مزدوری دینا تحفہ نہیں ہے لیکن وہ تو اسکی کمائی ہے۔ لیکن اگر کو ئی شخص کام کر نے کے بجائے اس خدا پر ایمان لا تا ہے جو گنہگار کو راستباز بنا دیتا ہے تو اسکا ایمان اسکی راستبازی کا سبب بن گیا۔ ایسے ہی داؤد بھی اسے مبارک کہتا ہے جسے اعمال کے بغیر ہی خدا راستباز ٹھہرا تا ہے۔

“مبارک ہیں وہ
    جنکی بد کاریاں معاف ہو ئے۔
    اور جن کے گناہ ڈھانکے گئے۔
مبارک ہے وہ شخص
    جس کے گناہوں کا خدا وند حساب نہ کریگا۔” [b]

پس کیا یہ مبارک بادی صرف ان ہی کے لئے ہے جو مختون ہیں یا ان کے لئے بھی جو غیر مختون ہیں ہاں یہ ان پر بھی لا گو ہو تا ہے جو غیر مختون ہے ہم نے کہا، “ابرا ہیم کا ایمان ہی اس کے لئے راستبازی گنا گیا۔” 10 تو ایسا کب ہوا ؟جب اسکا ختنہ ہو چکا تھا یا جب وہ نا مختون تھا۔ نہیں ختنہ ہو نے کے بعد نہیں بلکہ جب وہ نا مختون تھا۔ 11 اور اس نے ختنہ کا نشان پا یا۔ اس کے ایمان کی وجہ سے اس کی راست بازی پر مہر لگا دی گئی جبکہ اس نے دکھا یا کہ وہ ابھی تک نا مختون ہے تا کہ وہ سب لو گوں کا باپ ٹھہرے جو با وجود نا مختون ہو نے کے ایمان رکھتے ہیں۔ اور انکا ایمان بھی انکے لئے راستبازی میں گنے جائیں گے۔ 12 اور وہ انکا بھی باپ ہو جو مختون ہو ئے ہیں ہمارے باپ ابراہیم ان کے باپ ہیں اگر وہ ختنہ پر انحصار نہ کریں بلکہ ہمارے باپ ابرا ہیم کے ایمان کی مثال کی پیروی کریں جو اسکا تھا جب کہ وہ ابھی تک غیر مختون تھا۔

ایمان ہی خدا کے وعدہ کے حصول کا ایک راستہ ہے

13 کیوں کہ یہ وعدہ کہ وہ دنیا کا وارث ہو گا نہ ابراہیم سے اور نہ اسکی نسل سے نہ شریعت کے ذریعہ سے کیا گیا تھا بلکہ راستبازی کے ذریعہ سے جو ایمان کا نتیجہ ہے۔ 14 کیوں کہ اگر شریعت والے ہی وارث ہوں تو ایمان کا کو ئی معنیٰ نہیں رہتا۔ اور وعدہ بھی بیکار ہو جا تا ہے۔ 15 کیوں کہ شریعت خدا کا غضب لا تی ہے جہاں شریعت نہیں وہاں عدول حکمی بھی نہیں۔

16 اسی لئے خدا کا وعدہ ایمان کا پھل ہے اور وہ وعدہ ابراہیم کی تمام نسلوں کے لئے مفت تحفہ کی مانند ہے یہ تحفہ نہ صرف انکے لئے جو شریعت کو مانتے ہیں بلکہ ان سب کے لئے جو ابراہیم کی مانند ایمان رکھتے ہیں جو ہم سب کا باپ ہے۔ 17 صحیفوں میں لکھا ہے کہ“میں نے تجھے کئی قوموں کا باپ بنایا۔” [c] خدا کی نظر میں وہ سچ ہے ابرا ہیم خدا پر ایمان لایا۔ جو مرے ہو ئے لوگوں کو زندگی دیتا ہے اور جو چیزیں وجود میں نہیں ہیں ان کو اسی طرح بلا لیتا ہے گو یا وہ ہیں۔

18 وہ نا امیدی کی حالت میں امید کے ساتھ ایمان لا یا چنانچہ ابرا ہیم بہت سی قوموں کا باپ ہوا جیسا کہ کہا گیا، “تمہاری نسل بے شمار ہو گی۔” [d] 19 اور وہ تقریباً سو برس کا تھا۔ اپنے مردہ جسم کے باوجود اور سارہ کے بانجھ پن کے لحاظ کے با وجود اس نے اپنے ایمان کو کمزور نہ کیا۔ 20 خدا کے دعدے کا منتظر رہا اپنے ایمان کو نہیں کھو یا اتنا ہی نہیں ایمان کو اور مضبوط کر تے ہو ئے خدا کی تمجید کی۔ 21 اسے پو را یقین تھا کہ خدا نے اسے جو وعدہ دیا ہے اسے پو را کر نے پر وہ قا در ہے۔ 22 اور اسلئے “خدا نے انکی ایمان کی وجہ سے انکو راستباز بنایا۔” 23 اور الفاط کہ “انکی ایمان کی وجہ سے انکو راستباز بنایا” [e] نہ صرف اس کے لئے لکھا گیا ہے بلکہ ہمارے لئے بھی ہے۔ 24 ہمارا ایمان گنا جائیگا اس لئے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں ، ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جس نے ہمارے خداوند یسوع کو مردوں میں سے زندہ کیا۔ 25 یسوع کو ہمارے گناہوں کے لئے موت کے حوالہ کر دیا گیا۔ اور ہمیں راستباز بنانے کے لئے مر نے کے بعد جلا یا گیا۔

خدا نے راستباز ہو نے کے لئے

کیوں کہ ہم اپنے ایمان کے سبب خدا کے لئے راست باز ہو گئے ہیں۔ خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے خدا کی طرف سے ہمیں سلامتی ہے۔ کیوں کہ جس کے وسیلے سے اور ایمان کے سبب سے اس فضل تک ہما ری رسائی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلا ل کی امید پر فخر کریں گے۔ صرف یہی نہیں کہ ہم اپنی مصیبتوں میں خوش رہیں گے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ مصیبت سے صبر پیدا ہو تا ہے۔ اور صبر سے پختگی اور پختگی سے امیدپیدا ہو تی ہے۔ اور امید ہمیں نا امید نہیں ہو نے دیتی کیوں کہ مقدس روح جو ہم کو بخشا گیا ہے اس کے وسیلہ سے خدا کی محبت ہما رے دلوں میں ڈالی گئی ہے۔

کیوں کہ جب ابھی ہم کمزور ہی تھے صحیح وقت پر مسیح نے ہمارے لئے جبکہ ہم خدا کے خلاف تھے اپنی جان تک دیدی۔ اب دیکھو کسی راستباز انسان کے لئے بھی مشکل ہی سے کوئی اپنی جان دیگا۔کسی اچھے آدمی کے لئے شاید کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرے۔ لیکن خدا اپنی محبت ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے جب کہ ہم بھی گنہگار ہی تھے۔ مسیح نے ہمارے لئے اپنی جا ن دی۔

کیوں کہ اب جب ہم انکے خون کے باعث راستبازہو گئے ہیں تو اب ان کے وسیلہ سے خدا کے غضب سے یقینی طور پربچیں گے۔ 10 کیوں کہ جب ہم خدا کے دشمن تھے اس نے اپنے بیٹے کی موت کے وسیلے سے خدا سے ہما را میل کرایا اب جبکہ ہمارا میل خدا سے ہو چکا ہے تو اس کی زندگی سے ہمارا اور مزیدتحفظ ہوگا۔ 11 صرف یہی نہیں ہے ہم ا پنے خداوندیسوع مسیح کے وسیلے سے اب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہو گیا۔ اس لئے ہم خدا پر اپنے خداوندیسوع مسیح کے ذریعہ فخر کر سکتے ہیں۔

آدم اور مسیح

12 جس طرح ایک آدمی کے سبب گناہ دنیا میں آیا اور گناہ سے موت آئی اور یہ موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سبھی نے گناہ کئے تھے۔ 13 اب دیکھو شریعت کے آنے سے پہلے دنیا میں گناہ تھا لیکن جب تک شریعت نہیں آئی کسی کا بھی گناہ نہیں گنا گیا۔ 14 لیکن آدم سے لے کرموسیٰ تک موت ہر ایک پر حکومت کرتی رہی۔ موت ان پر بھی ویسے ہی حاوی رہی جنہوں نے آدم کی مانند گناہ نہیں کئے تھے۔

آدم بھی اسی کی طرح تھا جو آئندہ آنے والا تھا۔ 15 لیکن خدا کی نعمت آدم کے گناہ جیسی نہیں تھی کیوں کہ اگر ایک شخص کے گناہ کے سبب سے سبھی لوگوں کی موت ہوئی تو اس ایک شخص یسوع مسیح کے فضل کے وسیلے سے خدا کی مہر بانی اور اس کی بخشش تو سبھی لوگوں کی بھلا ئی کے لئے افراط سے نازل ہو ئی۔ 16 اور یہ بخشش کا ویسا حال نہیں جیسا آدم کے گناہ کرنے کا ہوا۔ آدم سے ایک بار گناہ سر زد ہو نے کے بعد وہ قصور وار ٹھہرا۔ لیکن خدا کے فضل سے بہت سے گناہ کر نے کے بعد لوگوں کو راستباز ٹھہرا نے کا حکم آیا۔ 17 کیوں کہ ایک شحص کے گناہ کے سبب موت سب لوگوں پر حاوی ہو گئی تو کچھ لوگ خدا کا بے انتہا فضل اور بخشش حا صل کر تے ہیں جو انہیں راستباز بنا تے ہیں۔ وہ ایک شخص یعنی یسوع مسیح کے وسیلے سے وہ لوگ ضرور حقیقی زندگی حاصل کریں گے اور حکو مت کریں گے۔

18 غرض جیسے ایک گناہ کے سبب سے سبھی لوگوں کو سزا ملی۔ویسے ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلے سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جو راستباز ٹھہر کر سچّی زندگی پا ئی۔ 19 لیکن اس ایک شخص کی نا فر مانی کے سبب سب لوگ گنہگار ٹھہرے ویسے ہی اس ایک شخص فرمانبرداری کے سبب سبھی لوگ راستباز بنادیئے جائیں گے۔ 20 شریعت کے وجود میں آنے کی وجہ سے گناہ بڑھ جائیں گے۔ جہاں گناہ بڑھے وہاں خدا کا فضل اس سے زیا دہ ہوا۔ 21 جس طرح گناہ کی وجہ سے موت نے بادشاہی کی، اس طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے ابدی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعے سے بادشاہی کرے۔

گناہ کے لئے موت لیکن مسیح میں زندگی

پس ہم کیا کہیں ؟ کیا گناہ ہی لگا تار کر تے رہیں تا کہ خدا کی نہ مہربانی برھتی رہے ؟ ہر گز نہیں۔ ہم گناہ کے لئے مر چکے ہیں کیوں کہ ہم گناہوں میں آئندہ کی زندگی کیسے گزاریں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم جتنوں نے یسوع مسیح میں شامل ہو نے کے لئے بپتسمہ لیا ہے تو اسکی موت میں شا مل ہو نے کا بپتسمہ لیا ہے۔ جب ہم نے بپتسمہ لیا تو ہم بھی اسکے ساتھ اس کی موت میں شریک ہو ئے اس کے ساتھ دفن بھی کر دیئے گئے تا کہ مسیح باپ کے جلال کے وسیلے سے مرے ہو ؤں میں جلا دیا گیا تھا ویسے ہی ہم بھی اسی طرح ایک نئی زندگی پائیں گے۔

کیوں کہ ہم اسکی موت کی مشابہت سے اسکے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ اس سے اس کے جی اٹھنے کی مشابہت میں بھی اس کے ساتھ وا بستہ ہونگے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پرانی انسانی فطرت مسیح کے ساتھ اس لئے مصلوب کی گئی کہ ہمارے گناہ کا بدن تباہ ہو جائے سبب یہ ہے کہ ہم آگے کے لئے گناہ کے غلام نہ بنے رہیں۔ کیوں کہ جو مرگیا وہ گناہ کے بندھن سے آزاد ہو گیا۔

اور جیسا کہ ہم مسیح کے ساتھ مر گئے تو ہمیں یقین ہے کہ ہم اسی کے ساتھ جئیں گے بھی۔ ہم جانتے ہیں کہ مسیح جسے مرے ہو ؤں میں سے زندہ کیا گیا تھا پھر نہیں مرے گا۔ اس پر موت کا اختیار کبھی نہیں ہو گا۔ 10 گناہ کو شکشت دینے کے لئے ایک ہی بار مرے ہیں۔ لیکن جو زندگی وہ اب جی رہے ہیں وہ زندگی خدا ہی کی ہے۔ 11 اسی طرح تم اپنے لئے بھی سوچو تم گناہ پر مر چکے ہو لیکن خدا کے لئے یسوع مسیح میں زندہ ہو۔

12 پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے اس لئے تم اس گناہ کی خواہشوں پر نہ چلو۔ 13 اپنے بدن کے حصّے کو گناہ کی خدمت کے لئے حوالہ نہ کرو تمہارے جسم برائیاں کر نے کے لئے اوزار نہ بنیں اسکی بجائے مرے ہو ؤں میں سے اب زندہ رہنے والوں کی مانند خدا کی خدمت کے لئے حوالے کر دو۔ اور اپنے بدن کے حصّے کو صحیح کام کے اوزار ہو نے کے لئے خدا کی خدمت کے لئے حوالے کردو۔ 14 اس لئے کہ تم پر گناہ کا اختیار نہ ہو چو ں کہ تم شریعت کے تا بع نہیں ہو بلکہ خدا کے فضل کے سہارے جی رہے ہو۔

راستبازی کے غلام

15 تب ہم کیا کریں ؟ کیا ہم گناہ کریں کیوں کہ ہم شریعت کے تا بع نہیں بلکہ فضل کے تا بع ہیں ؟ ہر گز نہیں۔ 16 کیا تم نہیں جانتے کہ تم جسکی فرماں برداری کے لئے اپنے آپکو غلا موں کی طرح حوالہ کر دیتے ہو تب تم اسی شخص کے غلام ہو۔ وہ تمہارا مالک ہے خواہ تم خدا کو یا گناہ کو اپنا مالک مانتے ہو۔ گناہ کی فرماں برداری روحانی موت اسکا نتیجہ ہے جس طرح خدا کی فرماں برداری کا انجام راستبازی ہے۔ 17 گزرے زمانے میں تم گناہ کے غلام تھے مگر خدا کا شکر ہے کہ تم اپنے پورے دل سے طریقہ علم میں جو تمہیں سکھا یا گیا اسکے فرماں بردار بنو۔ 18 تمہیں گناہ سے نجات مل گئی اور تم راست بازی کے غلام بن گئے ہو۔ 19 ( میں اس زبان کو استعمال کررہا ہوں جسے سبھی لوگ سمجھ سکیں لیکن اسے سمجھنا تم لوگوں کے لئے مشکل ہے ) گذرے ہو ئے زما نے میں تم نے اپنے بدن کے حصے کو بدکاری کرنے کے لئے ناپا کی اور غلا می کی خدمت کے تابع کر دیا تھا اور تم صرف بدی کے لئے جی رہے تھے۔تم لوگ ٹھیک ویسے ہی اپنے بدن کے حصہ کو پاک ہو نے کے لئے راستبازی کی غلا می کی خدمت کے لئے حوالے کردو تب تم صرف خدا کے لئے جی سکو گے۔

20 کیوں کہ جب ہم گناہ کے غلام تھے تو راست بازی کی زندگی سے آزاد تھے 21 اور دیکھو اس وقت تمہیں کیسا پھل ملا پر ان باتوں سے آج تم شرمندہ ہو۔ کیوں کہ انکا انجام موت ہے۔ 22 اب تم گناہ سے آزاد ہو اور خدا کے غلا م ہو ئے ہو جسکا نتیجہ صرف خدا کے لئے زندگی جو آخر کار یہ ہمیشہ کی زندگی تک پہنچا ئے گی۔ 23 کیوں کہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خدا وند یسوع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔

شادی کی مثال

اے بھا ئیو اوربہنو! کیا تم نہیں جانتے (میں ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو شریعت کو جانتے ہیں ) کہ جب تک آدمی جیتا ہے اسی وقت تک شریعت اس پر اختیار رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شادی شدہ عورت شریعت کے مطا بق اپنے شوہر کی زندگی تک ہی پابند رہتی ہے لیکن جب اسکا شوہر مر جاتا ہے تو وہ بیاہتا کی پا بندی سے آزاد ہو جا تی ہے۔ شوہر کی زندگی میں اگر کسی دوسرے شخص سے رشتہ رکھے تو وہ زانیہ ہے۔ لیکن اسکا شوہر مرگیا ہے تو بیاہتا کی شریعت اس پر لا گو نہیں ہو تی یہاں تک کہ اگر وہ دوسرے مرد کی بھی ہو جائے تو بھی وہ حرام کاری کر نے کی قصور وار نہ ٹھہرے گی۔

پس اے میرے بھائیو اور بہنو! تم بھی مسیح کے بدن کے وسیلے شریعت کے اعتبار سے مر چکے ہو اسی لئے اب تم بھی کسی دوسرے کے ہو جاؤ جو مرُدوں میں سے جلایا گیا تاکہ تم خدا کے لئے کھیتی پیدا کر سکو۔ جب ہم گنہگار فطرت کے مطابق جی رہے ہیں اس سے گناہ کے جذبہ کی خواہش جو شریعت کے باعث آئی تھی وہ ہمارے جسموں پر حاوی تھا تا کہ ہم عمل کی ایسی کھیتی کریں جسکا خاتمہ صرف روحانی موت میں ہو۔ لیکن اب ہمیں شریعت سے آزاد کردیا گیا ہے کیوں کہ جس شریعت کے تحت ہم کو قید میں ڈالا گیا تھا ہم اس کے لئے مر چکے ہیں۔اور اب خدا کی خدمت روحانی طور پر نئے طریقے سے کر تے ہیں نہ کہ لکھے ہوئے پرا نے اصول کے طور پر کر تے ہیں۔

گناہ کے خلاف لڑا ئی

پس ہم کیا کہیں ؟ کیا ہم کہیں کہ وہ شریعت گناہ ہے ؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ حقیقت میں اگر شریعت نہ ہو تی تو میں پہچان ہی نہیں پا تا کہ گناہ کیا ہے ؟مثلاًاگر شریعت نہ کہتی کہ “تو خواہش نہ کر کہ وہ تیرا نہیں ہے” [f] تو میں نہ جانتا کہ خواہش کا کرنا غلطی ہے۔ مگر گناہ نے موقع پا کر اس حکم کے ذریعہ سے مجھ میں ہر طرح کی غلط خواہشات پیدا کردی۔ کیوں کہ شریعت کے بغیر گناہ مردہ ہے۔ ایک زمانے میں میں شریعت کے بغیر زندہ تھا۔ مگر جب شریعت آئی تب گناہ زندگی میں ابھر آیا۔ 10 اور میں مر گیا۔ وہی شریعت جو زندگی کا حکم دینے کے لئے تھی میرے لئے موت لے آئی۔ 11 کیوں کہ گناہ نے موقع پا کر اس حکم کے ذریعے سے مجھے بہکایا اور اسی کے ذریعے سے مجھے بھی مارڈالا۔

12 پس شریعت مقدس ہے اور اسکا حکم بھی مقدس اور راستباز اور اچھا ہے۔ 13 تب پھر کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جو اچھا ئی ہے وہی میری موت کا سبب بنا ؟ہر گز نہیں۔ بلکہ گناہ میرے واسطے موت لا نے کے لئے کچھ اچھی چیز استعمال کیا یہ ایسا ہوا تا کہ ہم گناہ کو پہچان سکیں۔ یہ ایسا ہوا یہ ظا ہر کر نے کے لئے کہ گناہ بہت ہی برا ہے۔ اور اسے ظا ہر کر نے کے لئے حکم کا استعمال کیا گیا۔

انسان کی اندرونی کشمکش

14 کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو روحانی ہے لیکن میں روحانی نہیں ہوں۔ مگر میں گناہ کے لئے غلام بنکر بکا ہوا ہوں۔ 15 میں نہیں جانتا کہ میں کیا کر رہا ہوں کیوں کہ میں جو کر نا چاہتا ہوں وہ نہیں کر تا۔ بلکہ جس سے مجھے نفرت ہے اور وہی کر تا ہوں۔ 16 اور اگر چہ میں وہی کر تا ہوں جو مجھے نہیں کرنا چاہئے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں قبول کرتا ہوں کہ شریعت خوب ہے۔ 17 لیکن اصل میں میں وہ نہیں ہوں جو یہ سب کچھ کر رہا ہوں یہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔ 18 ہاں میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہو ئی نہیں۔ حالانکہ مجھے نیک کام کر نے کی خواہش تو ہے۔ نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ 19 کیوں کہ اچھا کام کر نا پسند کرتا ہوں لیکن وہ تو نہیں کر تا۔ مگر جس برے کام کا ارادہ نہیں کر تا اسے کر لیتا ہوں۔ 20 اور اگر میں وہی کام کر تا ہوں جنہیں نہیں کر نا چاہتا تو اس کا کر نے والا میں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں رہتا ہے۔

21 غرض میں ایسی شریعت پا تا ہوں کہ جب نیکی کا ارادہ کر تا ہوں تو بدی میرے پاس رہتی ہے۔ 22 کیونکہ باطنی انسانیت کی رو سے میں خدا کی شریعت میں خوش ہوں۔ 23 لیکن میں اپنے جسم میں ایک دوسری ہی شریعت کو کام کر تے دیکھتا ہوں جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے بدن میں ہے۔ 24 میں ایک کمبخت انسان ہوں مجھے اس بدن سے جو موت کا نوالہ ہے نجات کون دلائے گا۔ 25 اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے میں خدا کا شکر کر تا ہوں۔

غرض میں خود ہی خدا کی شریعت کی خدمت اپنی عقل سے کر تا ہوں لیکن انسا نی فطرت میں گناہ کی شریعت کی خدمت کر تا ہوں۔

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

©2014 Bible League International