Beginning
روح میں زندگی
8 پس اب جو مسیح یسوع میں ہے ان پر سزا کا حکم نہیں۔ 2 کیوں کہ روح کی شریعت نے جو مسیح یسوع کی معرفت زندگی دیتی ہے تجھے گناہ کی شریعت سے جو موت کی جانب لے جاتی ہے آزاد کر دیا۔ 3 وہ شریعت کمزور تھی انسان غیر روحانی انسانی فطرت کے سبب سے کامیاب نہ ہوا۔ اس لئے خدا نے اپنے بیٹے کو ہمارے ہی جیسے انسا نی بدن میں جس کو دوسرے انسان گناہ کے لئے استعمال کر تے ہیں بھیجا۔ خدا نے اپنے بیٹے کو ہمارے گناہوں کے لئے قربان ہو نے کے لئے بھیجا۔ 4 خدا نے یہ اس لئے کیا تا کہ شریعت کا تقاضہ ہما رے لئے مکمل طور پر پو را ہو جو کہ گناہ کی فطرت پر نہیں بلکہ روح کے مطا بق ہے اور ہم اس کے مطا بق چلتے ہیں۔
5 کیوں کہ جو لوگ گناہ کی فطرت کے خوا ہش کے مطا بق چلتے ہیں وہ صرف ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ان کے گناہ کی فطرت چاہتی ہے۔لیکن جوروحانی خیالات کے مطا بق چلتے ہیں انکے خیالات گناہ کے مطابق ہو تے ہیں لیکن جو روحانی خیالات کے مطا بق زندہ ہیں انکے خیالات روح کے خیالات کی طرح رہتے ہیں۔ 6 جو خیالات ہماری انسانی فطرت کے تابع ہیں اس کا نتیجہ موت ہے۔ اور جو روح کے تابع ہیں اس کا نتیجہ زندگی اور سلامتی ہے۔ 7 یہ کیو ں سچ ہے؟ اس لئے کہ خیال جو انسانی فطرت کے تابع ہے وہ خدا کے خلاف ہے کیوں کہ یہ خدا کی شریعت کے تابع نہیں رہتا۔ اور اصل میں اہمیت نہیں رکھتا۔ 8 او ر وہ جو فطری گناہوں کے تابع زندہ ہیں وہ خدا کوخوش نہیں کر سکتے۔
9 لیکن تم گناہوں کی فطرت میں حکمران نہیں ہو۔ لیکن روحانی ہو۔ بشرطیکہ خدا کی روح تم میں بسی ہو ئی ہو۔ لیکن اگر کسی میں مسیح کی روح نہیں ہے تو وہ مسیح کا نہیں ہے۔ 10 تمہا را بدن گناہ کے سبب مردہ ہے اگر مسیح تم میں ہے۔روح تمہیں زندگی دیتی ہے کیوں کہ تم راستباز بنو۔ 11 اور اگر اس خدا کی روح جس نے یسوع کو مرے ہو ئے میں سے جلا یا تھا تمہا رے اندر رہتی ہے تو خدا جس نے مسیح کو مرے ہوئے میں سے جلا یا تھا تمہا رے فانی جسموں کو اپنی روح سے جو تمہا رے اندر بسی ہو ئی ہے زندگی دیگی۔
12 اسی لئے میرے بھائیواور بہنو! ہم قرضدار تو ہیں مگر ہمارے گنہگار فطرت کے نہیں تا کہ ہم گناہوں کی فطرت کی خواہش کے مطابق زندگی گذاردیں۔ 13 کیوں کہ اگر تم فطری گناہوں کی خواہش کے مطا بق زندگی گذارو گے تو روحانی موت مرو گے۔ لیکن اگر تم روح کے وسیلے سے فطری گناہو ں کی خواہش برے کاموں کو کرنا چھوڑ دو گے تم جیتے رہوگے۔
14 جو خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بچے ہیں۔ 15 کیوں کہ وہ روح جو تمہیں ملی ہے تمہیں غلام نہیں بناتی۔ جس سے ڈر پیدا نہیں ہوتی۔ جو روح تم نے پا ئی ہے تمہیں خدا کے چنے ہوئے اولاد بناتی ہے اس روح کے ذریعہ ہم پکار اٹھتے ہیں “ اباّ، اے باپ!” 16 روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر حقیقت کی گوا ہی دیتی ہے کہ ہم خدا کے بچے ہیں۔ 17 اور چونکہ ہم اسکے بچّے ہیں تو وارث بھی ہیں۔ یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث ہیں بشرطیکہ ہم اس کے ساتھ درد سہیں اور اس کے ساتھ جلا ل بھی پا ئیں۔
ہمیں جلا ل ملے گا
18 کیوں کہ میں سمجھتا ہوں اس زما نے کے دکھ درد اس لا ئق نہیں کہ اس آنے والے جلا ل کے تقابل میں ہو جو ہم پر نازل ہو نے والی ہے۔ 19 کیوں کہ مخلو قات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہو نے کی راہ دیکھتی ہے۔ 20 خدا کی بنائی ہوئی تمام اشیاء اس طرح باطل کے تابع ہوں گی اپنی مرضی سے نہیں ہوں گی بلکہ خدا نے خود فیصلہ کیا کہ اس کے حوالے کردے۔
21-22 اس لئے ہم جانتے ہیں کہ تمام مخلوقات اب تک درد زہ اسی طرح تڑپتی کراہتی ہیں اس لئے کہ تمام مخلوقات اپنی فانی غلا می سے چھٹکا رہ پا کر خدا کے بچوں کے جلا ل کی آزادی میں شا مل ہوں گے۔ 23 اور نہ صرف وہی بلکہ ہم میں جنہیں روح کا پہلا پھل ملا ہے ہم اپنے اندرکراہتے رہے ہیں۔ہمیں اس کے بچے ہو نے کے لئے مکمل طور سے انتظار ہے جب کہ ہمارا بدن چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انتظار کر رہا ہے۔ 24 ہمیں نجات ملی ہے۔ اسی سے ہما رے دل میں امید ہے لیکن جب ہم جس کی امید کر تے ہیں اسے دیکھ لیتے ہیں تو وہ حقیقی امید نہیں رہتی۔ لوگوں کے پاس جو چیز ہے اس کی امید کون کر سکتا ہے۔ 25 لیکن اگر ہم جسے دیکھ نہیں رہے اس کی امید کرتے ہیں تو صبروتحمل کے ساتھ اس کی راہ کو دیکھتے ہیں۔
26 ایسے ہی روح ہماری کمزوری میں مدد کرنے آتی ہے کیوں کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کس طرح سے دعا کریں۔ مگر روح خود آ ہیں بھر کر چلا ّ کر خدا سے ہما ری شفاعت کرا تی ہے جن کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ 27 لیکن وہ جو دلوں کو پرکھنے وا لا روح کے دماغ کو جانتا ہے کہ روح کی کیا نیت ہے کیوں کہ خدا کی مرضی سے ہی وہ خدا سے اپنے لوگوں کے لئے بات کر تی ہے۔
28 ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلا پید ا کرتی ہیں یعنی ان کے لئے جو خدا کے مقصد کے مطا بق بلا ئے گئے۔ 29 خدا نے اس دنیا کے پیدا ہو نے سے پہلے ہی ان لوگوں کو مقرر کیا۔ اور اپنے بیٹے کی ہمشکل میں رہنے کیلئے طے کیا۔تا کہ سب بھائیوں اور بہنوں میں وہ پہلا ہونا چاہئے۔ 30 اور جن کو اس نے پہلے سے مقرر کیا ان کو بلا یا بھی اور جن کو بلا یا ان کو راستباز ٹھہرایا اور جن کو راستباز ٹھہرایا ان کو جلال بھی بخشا۔
یسوع مسیح میں خدا کی محبت کا ہو نا
31 اس کے بارے میں ہم کیا کہیں ؟اگر خدا ہمارے حق میں ہے تو ہمارے خلاف کون ہو سکتا ہے ؟ 32 اس نے جو اپنے بیٹے تک کو بچا کر نہیں رکھا بلکہ اسے ہم سب کے لئے مر نے کو چھوڑدیا۔ وہ بھلا ہمیں اس کے ساتھ اور سب کچھ کیوں نہیں دیگا ؟ 33 خدا کے بر گزیدوں پر ایسا کون ہے جو الزام لگائے ؟ وہ خدا ہی ہے جو انہیں راستباز ٹھہراتا ہے۔ 34 ایسا کون ہے انہیں قصور وار ٹھہرائے گا ؟مسیح یسوع وہ ہے جو مر گیا مر دوں میں سے جی اٹھا۔ جو خدا کے داہنی طرف بیٹھا ہے اور ہماری شفاعت بھی کر تا ہے۔ 35 وہ کیا چیز ہے جو ہمیں مسیح کی محبت سے الگ کریگا ؟مصیبت یا تنگی یا ظلم یا قحط سالی یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار ؟ 36 جیسا کہ لکھا ہے:
“تیرے لئے ہر دن ہمیں موت کے حوالے کیا جاتا ہے
ہم کو ذبح ہو نے والی بھیڑ جیسے سمجھا جا تا ہے۔” [a]
37 خدا کے وسیلے سے جو ہم سے محبت کر تا ہے۔ ان سب باتوں میں ہم ایک جلالی فتح پا رہے ہیں۔ 38 کیوں کہ مجھ کو پکاّ یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اس سے ہم کو کو ئی بھی چیز جدا نہ کر سکے گی ،نہ موت ،نہ زندگی ،نہ فرشتے ، نہ بدروحیں ، نہ حال کی ،نہ مستقبل کی چیزیں، نہ قدرت ، 39 نہ بلندی ، نہ پشتی ،اور نہ ہی پو ری کائنات کی کوئی بھی چیز۔
خدا اور یہودی لوگ
9 میں مسیح میں سچ کہہ رہا ہوں میں جھوٹ نہیں کہتا اور میرا ضمیر مقدس روح کی مدد سے ہی میرا گواہ ٹھہرے گا۔ 2 میں بہت غمگین ہوں اور میرے دل میں دکھ درد برابر رہتا ہے۔ 3 کاش میں اپنے بھائیوں اور بہنو ں اور اپنے دنیاوی رشتہ داروں کی خا طر لعنت اپنے اوپر لے سکتا۔ میں ان لوگوں کی مدد کر سکتا اور اگر میرا مسیح سے الگ ہو جانا انکے حق میں اچھا ہو تا تو میں ایسا کر سکتا۔ 4 وہ لوگ اسرائیلی ہیں۔ وہ لوگ خدا کے چنے ہوئے اولاد ہیں۔ وہ خدا کا جلال حاصل کر چکے ہیں اور خدا انکے ساتھ خدا نے انہیں موسیٰ کی شریعت دی ہے۔ خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ 5 اور وہ لوگ ہمارے آباؤ اجداد کی نسل ہیں اور وہ لوگ انسانی جسم کے طور سے مسیح میں سے ہیں۔اور مسیح ہر چیز کے اوپر خدا ہے۔ ابد تک اسکی تعریف کرو! آمین
6 ایسا نہیں کہ خدا نے اپنا وعدہ پو را نہیں کیا ہے کیوں کہ جو اسرا ئیل کی اولاد ہیں وہ سب ہی سچّے اسرا ئیلی نہیں۔ 7 اور نہ ابرا ہیم کی نسل ہو نے کے سبب وہ سچ مچ میں ابرا ہیم کے فرزند ٹھہرے ہیں بلکہ جیسا خدا نے کہا تیری نسل اسحٰق کے وسیلے سے کہلا ئے گی۔ [b] 8 یعنی جسمانی فرزند جو پیدا ہو ئے خدا کے سچے فرزند نہیں بلکہ وعدہ کے ذریعے پیدا ہو نے والے ہی خدا کے بچے کہلا ئیں گے۔ 9 کیوں کہ وعدہ کا قول یہ ہے، “میں اس وقت کے مطا بق آؤنگا اور سارہ کو بیٹا ہو گا۔” [c]
10 اور صرف یہی نہیں بلکہ رابقہ کو بھی ایک شخص سے اولا دہوگی ہمارے بزرگ ا سحاق ہیں۔ 11-12 اس سے پہلے دو لڑ کے پیدا ہو ئے تھے اور نہ انہوں نے نیکی یا بدی کر نے سے پہلے رابقہ سے کہا گیا کہ “بڑا لڑکا چھو ٹے کی خدمت کریگا۔” [d] خدا کہتا ہے کہ پس اسکا منصوبہ رہیگا یہ معلوم کرانے کے لئے اور اسکا انتخاب بھی اسکے منصوبہ پر موقوف رہے گا۔ ان بیٹوں کے کاموں سے نہیں۔ 13 جیسا کہ صحیفہ کہتا ہے کہ “میں نے یعقوب سے تو محبت کی مگر یسوع سے نفرت۔” [e]
14 پس ہم کیا کہیں ؟ کیا خدا کے ہاں بے انصا فی ہے ؟ 15 ہر گز نہیں۔ کیوں کہ وہ موسیٰ سے کہتا ہے کہ “میں جس شخص پر بھی رحم کر نے کی سوچونگا اس پر رحم کرونگا اور جس پر ترس کھا نا منظور ہے اس پر ترس کھا ؤنگا۔” [f] 16 پس یہ اخلا قی کوشش ارادہ کر نے والے پر منحصر نہیں بلکہ رحم کر نے والے خدا پر ہے۔ 17 کیوں کہ صحیفہ میں فرعون سے کہا گیا ہے “میں نے تجھے اس واسطے کھڑا کیا تھا کہ میں اپنی قدرت تیرے ساتھ جو ہے ظا ہر کروں اور میرا نام تمام روئے زمین پر مشہور ہو۔” [g] 18 پس خدا جس پر رحم کر نا چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور جس سے سختی کر نا چاہتا ہے سختی کر دیتا ہے۔
19 پس تو مجھ سے کہیگا پھر “وہ کیوں عیب لگا تا ہے ؟کون اس کے ارادہ کا مقابلہ کرتا ہے ؟” 20 ا ے انسان بھلا تو کون ہے جو خدا کو جواب دیتا ہے ؟ کیا مٹی کا بر تن کمہار سے کہہ سکتا ہے کہ“تو نے مجھے ایسا کیوں بنایا ہے ؟” 21 کیا کمہا ر کو مٹی پر اختیار نہیں کہ ایک ہی طرح کی چکنی مٹی سے کچھ برتن اہم کام کے لئے اور کچھ معمو لی استعما ل کے لئے بنائے۔
22 خدا اپنا غضب ظا ہر کرنے اور اپنی قدرت آشکار کرنے کے ارادہ سے غضب کے برتنوں کے ساتھ جو ہلا کت کے لئے تیار ہو ئے تھے نہا یت صبر سے پیش آیا۔ 23 اور اس نے چا ہا کہ اپنے عظیم جلال کی دولت رحم کے برتنوں سے آشکار کرے۔جو اس نے جلال کو قبول کرنے کے لئے پہلے تیار کئے تھے۔ 24 اور ہم وہی لوگ ہیں جو ہما ری توسط سے جن کو اس نے نہ صرف یہودیوں میں سے بلکہ غیر یہودیوں میں سے ہم کو بلا یا۔ 25 چنانچہ صحیفے کی طرح ہو سیعاہ کی کتاب میں بھی خدا یوں وضاحت کرتا ہے کہ
“جو لوگ میرے نہیں تھے
انہیں میں اپنا لوگ کہوں گا
اور وہ عورت جو پیاری نہیں تھی
میں اسے اپنی پیاری کہوں گا۔” [h]
26 اور،
“اسی جگہ جہاں ان سے کہا گیا تھا کہ
’تم میرے لوگ نہیں ہو‘
اسی جگہ وہ زندہ خدا کا بیٹا کہلا ئیں گے۔” [i]
27 یسعیاہ اسرائیل کے بارے میں پکار کر کہتا ہے کہ
“اگر بنی اسرائیل کا شمار سمندر کے انگنت ریت کے برا بر بھی ہو
تو بھی صرف ان میں تھوڑے ہی بچ پا ئیں گے۔
28 جیسا کہ خداوند زمین پر اپنے انصاف کو مکمل طور سے اور جلد ہی پورا کرے گا۔” [j]
29 چنانچہ یسعیا ہ نے پہلے بھی کہا ہے کہ
“اگر خداوند قادر مطلق ہما ری کچھ نسلوں کو باقی نہ رکھتا
تو ہم سدوم اور عمورہ [k] کی مانند ہو جاتے۔” [l]
30 پس ہم کیا کہیں؟ آخر کار ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو غیر یہودی کی راستبازی پا نے کی کوشش نہیں کر تے ہیں۔حقیقت میں راستبازی پا لیتے ہیں ان کی راستبازی ایمان پر مبنی ہے۔ 31 مگر بنی اسرائیل راستباز ہو نے کے لئے جو شریعت پر چلنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہو ئے۔ 32 کس لئے؟ اس لئے کہ انہوں نے ایمان سے تلاش کر نیکی کوشش نہیں کی بلکہ اعما ل سے اس کی تلاش کی۔ انہوں نے ٹھو کر کھانے کے پتھر سے ٹھو کر کھائی۔ 33 چنانچہ صحیفے میں لکھا ہے کہ
“دیکھو! میں نے صیون میں ٹھو کر کھانے کا پتھر رکھا
اور چٹان جس سے لوگ ٹھو کر کھا کر گر تے ہیں۔
اور جو چٹان پر ایمان لا ئے گا وہ نا امید نہ ہوگا۔” [m]
10 اے بھا ئیو! میرے دل کی آرزو ہے اور میں خدا سے ان سب یہودیوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ وہ نجات پا ئیں۔ 2 کیوں کہ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ وہ خدا کے بارے میں جوش تو رکھتے ہیں لیکن انکا جوش صحیح علم کے بغیر ہے۔ 3 اس لئے کہ وہ خدا کی جانب سے راستبازی سے نا واقف ہیں اور اپنی راستبازی قائم کر نے کی کوشش کر کے خدا کی راستبازی کے تابع نہ ہو ئے۔ 4 کیوں کہ مسیح نے شریعت کا اختتام کیا تا کہ ہر آدمی جو ایمان رکھتا ہے راستبازی حا صل کر نے کے لئے خدا پر یقین رکھے۔
5 راستبازی کے بارے میں موسیٰ نے لکھا ہے کہ وہ شریعت پر عمل کر نے سے حاصل ہو تی ہے “جو شریعت کے اصولوں پر چلے گا وہ انکے وسیلہ سے رہیگا۔” [n] 6 لیکن ایمان سے ملنے والی راستبازی کے سلسلہ میں صحیفہ کہتا ہے کہ“تو اپنے دل میں یہ نہ کہہ کہ آسمان پر کون جائے گا ؟” (یعنی مسیح کے اتار لا نے کے لئے ) 7 عمیق یا گہراؤ میں کون اتریگا؟(یعنی مسیح کو مردوں میں سے اوپر لا نے کے لئے )۔
8 صحیفہ کیا کہتا ہے ؟ “کلام تیرے سامنےہے تیرے منھ اور تیرے دل میں ہے۔” [o] یہ وہی ایمان کا کلام ہے جس کی ہم نے منادی کی ہے۔ 9 کہ اگر تو اپنے منھ سے اقرار کرے کہ“یسوع خداوند ہے” اور تو اپنے دل میں یہ ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے زندہ کیا تو نجات پائیگا۔ 10 راست بازی کے لئے اس کے دل میں ایمان ہو نا چاہئے اور اپنے منھ سے اس کے ایمان کو قبول کر نے سے وہ نجات پا ئیگا۔
11 کیوں کہ صحیفہ کہتا ہے کہ“ہر آدمی جو اس پر ایمان رکھتا ہے اسے کبھی مایوس ہو نا نہیں پڑیگا” [p] 12 یہ اس لئے ہے کہ یہودیوں اور غیر یہودیوں میں کو ئی فرق نہیں کیوں کہ وہی سب کا خدا وند ہے اور اسکا فضل ان سب کے لئے افراط ہے جو اسکا نام لیتے ہیں۔ 13 “کیوں کہ ہر وہ شخص جو خداوند کا نام پکار تا ہے نجات پا ئیگا۔” [q]
14 مگر وہی جو اس میں ایمان نہیں رکھتے اسکا نام کیسے پکار سکتے ہیں ؟ اور وہی جنہوں نے اس کے بارے میں سنا ہی نہیں اس پر ایمان کیسے لا ئیں گے ؟ اور پھر بھلا جب تک کو ئی منا دی کر نے والا نہ ہو وہ کیسے سن سکیں گے ؟ 15 اور جب تک وہ بھیجے نہ جائیں منادی کیوں کر کریں ؟جیسا کہ لکھا ہے، “کیا ہی خوشنما ہیں انکے قدم جو خوشخبری لا تے ہیں۔” [r]
16 لیکن بد قسمتی سے تمام لوگوں نے اس خوشخبری کو قبول نہ کیا۔ چنانچہ یسعیاہ کہتا ہے کہ “اے خداوند! ہمارے پیغام کا کس نے یقین کیا ہے ؟” [s] 17 پس ایمان خوشخبری کا پیغام سننے سے پیدا ہو تا ہے اور پیغام کی بنیاد مسیح کے کلام پر ہے۔
18 لیکن میں پوچھتا ہو ں، “کیا انہوں نے پیغام نہیں سنا ؟”بیشک سنا ہے چنانچہ صحیفہ میں لکھا ہے:
انکی آواز تمام روئے زمین پر پھیلی ہو ئی ہے
اور انکی (باتیں ) الفاظ دنیا کی انتہا تک پہنچیں۔ [t]
19 لیکن میں پو چھنا چاہتا ہوں “کیا اسرائیلی نہیں سمجھ سکتے؟” پہلے موسیٰ کہتا ہے کہ:
“میں ان لوگوں کا استعمال کرتے ہو ئے تم لوگوں کے دل میں بد گمانی ڈالوں گاجو قوم ہي نہيں۔
ایک نادان قوم سے تم کو غصہ دلاؤنگا۔” [u]
20 پھر یسعیاہ بڑا دلیر ہو کر یہ کہتا ہے کہ
“مجھے ان لوگوں نے پا لیا جنہوں نے مجھے نہیں ڈھونڈا۔
میں خود انکے لئے ظا ہر ہو گیا
جنہوں نے مجھے نہیں پو چھا۔” [v]
21 لیکن خدا اسرائیلیوں کے بارے میں کہتا ہے،
“میں دن بھر
ایک نا فرمان اور حجتی پیرو کار کا انتظا رکر تا رہا۔” [w]
©2014 Bible League International