Beginning
مسیح کی دنیا میں آمد
1 دُنیا کی ابتدا ء سے پہلے کلام [a] وہاں تھا کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ 2 وہ
ابتدا ء میں خدا کے ساتھ تھا۔ 3 سب چیزیں اس کے ذریعے پیدا ہو ئیں۔ اس کے بغیر کو ئی چیز نہیں بنی۔ 4 اُ س میں حیات تھی اور وہ زندگی دُنیا کے لوگوں کے لئے نوُر تھی۔ 5 نوُر تاریکی میں چمکتا ہے لیکن تاریکی اس نور پر کبھی قابو نہ پا سکی۔
6 یوحنّا [b] نامی ایک آدمی تھا اس کو خدا نے بھیجا تھا۔ 7 یوحناّ لوگوں سے اس نوُر کے متعلق کہنے آیا تا کہ یوحناّ کے ذریعہ لوگ نوُر کے متعلق جان سکیں اور مان سکیں۔ 8 یوحناّ خوُد نوُرنہ تھا لیکن وہ لوگوں کو نوُر کے متعلق بتا نے آیا۔ 9 سچّا حقیقی نور دُنیا میں آرہا تھا۔یہ نور جس نے تمام لوگوں کو روشنی دی۔
10 وہ دُنیا میں پہلے ہی سے مو جود تھا دُنیا اسی کے وسیلے سے پیدا ہو ئی لیکن دُنیا کے لو گوں نے اسے نہیں پہچا نا۔ 11 وہ اپنی دُنیا میں آیا لیکن اس کے اپنے لوگوں نے اسے قبول نہ کیا۔ 12 کچھ لو گوں نے اسے قبول کیا جنہوں نے قبول کیا وہ ایمان لا ئے اورجو ایمان لا ئے ان کو کچھ عطا کیا گیا اس نے ان کو خدا کی اولا د ہو نے کا حق دیا۔ 13 یہ بچے اس طرح نہیں پیدا ہو ئے جس طرح عام بّچے پیدا ہو تے ہیں۔ وہ اس طرح نہیں پیدا ہوئے جیسا کہ کسی ماں باپ کی تمنایا خوا ہش سے پیدا ہو تے ہیں۔ ا ن بچوں کو خدا نے خود پیدا کیا۔
14 کلا م نے انسان کی شکل لیا اور ہم لوگوں میں رہا۔ ہم نے اس کا جلا ل دیکھا۔ جیسا کہ با پ کے اکلوتے بیٹے کا جلا ل۔ کلا م سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا۔ 15 یوحناّ نے اپنے بارے میں لوگوں سے کہا۔ یوحناّ نے واضح کیا کہ “یہ وہی ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا تھا وہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زیادہ عظیم ہے اسلئے کہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔”
16 کلام سچا ئی اور فضل سے بھر پور تھا اور ہم تمام نے اُس سے زیادہ سے زیادہ فضل پایا۔ 17 شریعت تو موسیٰ کے ذر یعہ دی گئی لیکن فضل اور سچا ئی یسوع مسیح کے ذریعہ ملی۔ 18 کسی نے کبھی بھی خدا کو نہیں دیکھا لیکن اکلوتا بیٹا خدا ہے وہ باپ سے قریب ہے اور بیٹے نے ہمیں بتا یا کہ خدا کیسا ہے۔
یوحناّ کا یسوع کے بارے میں لوگوں سے کہنا
19 یروشلم کے یہودیوں نے چند کا ہنوں اور لا وی [c] کو یوحناّکے پاس بھیجا یہ پوچھنے کے لئے کہ “وہ کون ہے ؟” 20 یوحناّ نے کھلے طور پر کہا اور اقرا ر کیا “میں مسیح نہیں ہوں۔”
21 یہودیوں نے یوحناّ سے پوچھا، “پھر تم کو ن ہو ؟ کیاتم ایلیاہ ہو ؟” یوحناّ نے جواب دیا، “میں ایلیاہ نہیں ہوں۔” پھر یہودیوں نے پوچھا، “کیا تم نبی ہو؟” یوحنا نے کہا، “نہیں میں نبی نہیں ہوں۔”
22 تب یہود یوں نے پوچھا ، “پھر تم کون ہو؟ اپنے بارے میں بتا ؤ” اور کہو تا کہ انہیں جواب دے سکیں۔ جس نے ہمیں بھیجا ہے۔ تم اپنے بارے میں کیا کہتے ہو۔
23 یوحناّ نے یسعیاہ نبی کے الفا ظ کہے،
“میں صحرا میں پکا ر نے والے کی آواز ہوں
خداوند کی راہ سیدھی کرو۔” [d]
24 یہ یہودی فریسیوں کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ 25 ان لوگوں نے یوحناّ سے پوچھا ، “تم کہتے ہو کہ تم مسیح نہیں ہو اور یہ بھی کہتے ہو کہ تم ایلیاہ نہیں ہو اور نبی بھی نہیں پھر تم بپتسمہ لوگوں کو کیوں دیتے ہو؟”
26 یوحناّ نے جواب دیا، “میں لوگوں کو پانی سے پبتسمہ دیتا ہوں لیکن تم میں ایک آدمی ہے جسے تم نہیں پہچانتے۔” 27 وہ آدمی میرے بعد آ ئے گا میں تو اس کی جو تیوں کے تسمے کھو لنے کے بھی قابل نہیں ہوں۔
28 یہ سب کچھ دریائے یردن کے پار بیت عنیاہ کے علا قے میں ہوا جہاں یوحناّ لوگوں کو بپتسمہ دے رہا تھا۔ 29 دوسرے دن یوحناّ نے دیکھا کہ یسوع اسکی طرف آ رہے ہیں۔یوحناّ نے کہا، “دیکھو یہ خدا کا میمنہ ہے یہ دنیا سے گنا ہوں کو لے جا نے آیا ہے۔ 30 یہ وہی آدمی ہے جس کی بات میں تم سے کہہ رہا تھا کہ ایک شخص میرے بعد آئے گا اور وہ مجھ سے عظیم ہو گا کیوں کہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔ اور وہاں ہمیشہ سے رہا تھا۔ 31 حتیٰ کہ میں اسے جانتا نہ تھاوہ کون تھا لیکن میں لوگوں کو پا نی سے بپتسمہ دینے کیلئے آیا۔اسطرح اسرائیلی جان سکتے ہیں کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔”
32-33 یوحناّ نے کہا، “میں یہ بھی نہیں جانتا کہ مسیح کو ن ہے” لیکن خدا نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کے لئے بھیجا اور خدا نے مجھ سے کہا، “روح ایک آدمی پر نازل ہو گی اور وہ وہی آدمی ہو گا جو لوگوں کو مقدس روح سے بپتسمہ دیگا۔” یوحناّ نے کہا، “میں نے دیکھا کہ وہ روح آسمان سے نیچے آئی وہ روح ایک کبوتر کی مانند تھی اور اس پر بیٹھ گئی” 34 اسی لئے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ“وہ خدا کا بیٹا ہے۔”
یسوع کا پہلا شاگرد
35 دُوسرے دن یوحناّ دوبارہ وہاں اپنے دو شاگردوں کے ساتھ تھے۔ 36 جب یو حنا نے دیکھا کہ یسوع وہاں آرہے ہیں تو اس نے کہا ،“خدا کے میمنہ کو دیکھو۔”
37 جب ان دونوں شاگردوں نے یوحنا کو یہ کہتے ہوئے سنا تو یسوع کے پیچھے ہو لئے۔ 38 جب یسوع نے پلٹ کر دیکھا کہ دونوں اسکی تقلید کر رہے ہیں تو یسوع نے پو چھا، “تم کیا چاہتے ہو ؟” دونوں نے کہا، “اے ربّی یعنی استاد آپ کہاں ٹھہرے ہیں ؟”
39 یسوع نے جواب دیا، “تم میرے ساتھ آؤ اور دیکھو” تب دونوں یسوع کے ساتھ گئے اور اس جگہ کو دیکھا جہاں یسوع ٹھہرے تھے۔ اور اس دن وہ یسوع کے ساتھ ٹھہرے یہ تقریباً چار بجے کا وقت تھا۔
40 وہ دونوں آدمی یسوع کے متعلق یوحنا سے سن کر یسوع کے ساتھ ہو گئے ان دونوں میں سے ایک آدمی جس کا نام اندر یاس جو شمعون پطرس کا بھا ئی تھا۔ 41 اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ اپنے بھا ئی شمعون کی تلاش میں نکلا اور اس سے کہا، “ہم نے مسیحا ( جس کے معنی مسیح ) کو پا لیا۔”
42 پھر اندر یاس شمعون کو یسوع کے پاس لا یا یسوع نے شمعون کو دیکھا اور کہا،“کیا تم یو حنا کے بیٹے شمعون ہو ؟ تم کیفا یعنی پطرس کہلاؤ گے۔”
43 دوسرے دن یسوع نے طے کیا کہ گلیل جائے اور وہ فلپ سے مل کر کہا، “میرے ساتھ ہو لے” 44 فلپ کا تعلق شہر بیت صیدا سے تھا یہ شہر اندریاس اور پطرس کا بھی تھا۔ 45 فلپ نے نتن ایل سے مل کر کہا، “یاد کرو کہ شریعت میں موسٰی نے کیا لکھا تھا موسیٰ نے لکھا تھا کہ ایک شخص آنے والا ہے۔ اور دوسرے نبیوں نے بھی اس کے متعلق لکھا تھا ہم نے اسکو پا لیا اس کا نام یسوع ہے جو یوسف کا بیٹا ہے اور وہ ناصری ہے۔”
46 لیکن نتن ایل نے فلپ سے کہا ،“ناصرت! کیا کو ئی اچھی چیز ناصرت سے آ سکتی ہے ؟” فلپ نے جواب دیا، “آؤ اور دیکھو۔”
47 یسوع نے دیکھا نتن ایل اسکی طرف آرہا ہے تو کہا، “یہ شخص جو آرہا ہے حقیقت میں اسرائیلی ہے اس میں کو ئی خامی نہیں ہے”۔
48 نتن ایل نے پوچھا،“تم مجھے کیسے جانتے ہو ؟” یسوع نے جواب دیا، “میں نے تمہیں اس وقت دیکھا جب تم انجیر کے درخت کے نیچے تھے جبکہ فلپ نے تمہیں میرے متعلق بتا یا تھا۔”
49 تب نتن ایل نے یسوع سے کہا،“اے استاد آپ خدا کے بیٹے ہیں آپ اسرائیل کے بادشاہ ہیں۔”
50 یسوع نے نتن ایل سے کہا، “میں نے تم سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں انجیر کے درخت کے نیچے دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تم مجھ پر یقین رکھتے ہو۔ لیکن! تم اس سے بھی زیادہ عظیم چیزیں دیکھو گے۔” 51 یسوع نے مزید کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں تم سب کو ئی دیکھو گے کہ آسمان کھلا ہے اور خدا کے فرشتے اوپر جا رہے ہیں اور ابن آدم پر نیچے آرہے ہیں۔” [e]
قا نا میں شادی
2 دو دن بعد گلیل میں شہر قانا میں ایک شادی ہو ئی جہاں یسوع کی ماں تھی۔ 2 یسوع اور اسکے ساتھی بھی شادی میں مدعو کئے گئے تھے۔ 3 شادی کی تقریب میں جب مئے ختم ہو گئی تب یسوع کی ماں نے کہا ، “ان کے پاس مزید مئے نہیں ہے۔”
4 یسوع نے اس سے کہا، “اے عورت تم یہ نہ کہو کہ مجھے کیا کر نا ہے ؟ میرا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔”
5 یسوع کی ماں نے نوکروں سے کہا ، “تم وہی کرو جو یسوع کرنے کو کہے۔”
6 اس جگہ چھ پتھر کے بڑے مٹکے رکھے تھے جنہیں یہودی صفائی طہارت کے لئے استعمال کرتے تھے ہر مٹکے میں ۲۰یا ۳۰ گیلن پا نی کی گنجا ئش تھی۔
7 یسوع نے خدمت گزا روں سے کہا ، “ا ن برتنوں کو پا نی سے بھر دو۔”اور خدمت گاروں نے برتنوں کو پا نی سے لبریز کر دیا۔
8 یسو ع نے ان خدمت گاروں سے کہا، “اس میں سے تھو ڑا پا نی نکالو اور اس کو دعوت کے میر کے پاس لے جاؤ۔” چنانچہ خدمت گاروں نے پانی کو دعوت کے میر کے پاس پیش کیا۔ 9 اور جب دعوت کے میر نے اس کا مزہ چکھا تو معلوم ہوا کہ پا نی مئے میں تبدیل ہو گیا تھا ان لوگوں نے یہ نہیں جانا کہ مئے کہاں سے آئی لیکن خدمت گار جو پا نی لائے تھے انہیں معلوم تھا کہ مئے کیسے آئی۔ دعوت کے میر نے دولہا کو طلب کیا۔ 10 اور دولہا سے کہا ، “لوگ ہمیشہ پہلے بہترین مئے سے تواضع کرتے ہیں اور جب پی کر سیر ہو جا تے ہیں تب ناقص مئے دیتے ہیں لیکن تم نے عمدہ مئے اب تک بچا رکھی ہے۔”
11 یہ پہلا معجزہ تھا جو یسوع نے کیا۔ اس معجزے کو اس نے گلیل کے شہر قا نا میں کیا اور اسطرح اپنی عظمت کو دکھا یا اور اسکے ساتھی ایمان لا ئے۔
12 تب یسوع اپنی ماں بھائیوں اور شاگردوں کے ساتھ کفر نحوم کو گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہرا۔
یسوع کا ہیکل میں جانا
13 یہودیوں کی فسح [f] قریب تھی چنانچہ یسوع یروشلم گئے۔ 14 یسوع یروشلم میں ہیکل گئے وہاں اس نے دیکھا کہ لوگ وہاں مویشی بھیڑ کبوتر فروخت کر رہے ہیں۔ اور دوسرے لوگ میز پر بیٹھے ہو ئے پیسوں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ 15 یسوع نے رسّیوں سے کو ڑا تیار کیا اور لوگوں کو ڈرا کر انہیں اور تمام مویشی بھیڑوں اور کبوتروں کو ہیکل کے باہر کر دیئے اور میز پر بیٹھے لوگوں کے پاس جا کر ان کی میز کو الٹ دیئے اور با ہر کر دیئے اور انکی رقم کو پھیلا دیئے۔ 16 تب یسوع نے ان لوگوں سے کہا جو کبوتر فروخت کر رہے تھے ، “یہ سب کچھ لیکر یہاں سے نکل جاؤ۔ میرے باپ کے گھر کو تجارت کی جگہ نہ بناؤ۔”
17 جب یہ واقعہ پیش آیا تب یسوع کے شاگردوں نے یاد کیا کہ صحیفوں میں جو لکھا ہے:
“تیرے گھر کی غیرت مجھے تباہ کر دیگی” [g]
18 یہودیوں نے یسوع سے کہا، “ہم کو کونسا ایسا معجزہ دکھا ؤ گے جو یہ ثابت کرے کہ تم ایسا کر نے کا حق رکھتے ہو۔”
19 یسوع نے جواب دیا، “اس ہیکل کو تباہ کر دو میں اسکو پھر تین دن میں بنادونگا۔”
20 یہودیوں نے کہا، “لوگوں نے اس ہیکل کو بنانے میں ۴۶ سال لگا ئے ہیں کیا تمہیں یقین ہے کہ دوبارہ اسکو تین دن میں بناؤ گے ؟”
21 لیکن ہیکل کہنے سے یسوع کی مراد اپنا بدن تھا۔ 22 جب وہ مردوں میں سے زندہ ہوا تب اسکے شاگردوں کو یاد آیا کہ اس نے ایسا کہا تھا اور انہوں نے صحیفے پر اور یسوع کے قول پر ایمان لایا۔
23 جب یسوع فسح کی تقریب پر یروشلم میں تھے کئی لوگوں نے اُس کے معجزوں کو دیکھ کر یسوع پر ایمان لا ئے۔ 24 لیکن یسوع نے ان پر بھروسہ نہیں کیا کیوں کہ یسوع کو وہ تمام لوگ معلوم تھے۔ 25 یسوع یہ ضروری نہیں سمجھا کہ کوئی اسے لوگوں کے بارے میں بتا ئے اس لئے کہ اسے معلوم تھا کہ ان لوگوں کے دماغوں میں کیا ہے۔
©2014 Bible League International