Print Page Options
Previous Prev Day Next DayNext

Beginning

Read the Bible from start to finish, from Genesis to Revelation.
Duration: 365 days
Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
حزقی ایل 31-33

اسور ایک دیودار کے درخت کی طرح ہے

31 جلاوطنی کے گیارہویں برس کے تیسرے مہینے (جون ) کی پہلی تاریخ کو خدا وند کا کلام مجھے ملا۔ اس نے کہا، “اے ابن آدم! شاہ مصر، فرعون اور اسکے لوگوں سے یہ کہو:

“تمہاری بزرگی میں
    کون تمہاری مانند ہے۔
اسور لبنان میں دلکش شاخوں والا دیودار کا درخت تھا۔
    یہ بہت لمبا اور اوپر چوٹی میں گھنی شاخیں تھیں
    جو کہ جنگل کو سایہ دیتا تھا۔
پانی درخت کو بڑھا تا ہے۔
    گہری ندی اسے اونچا بڑھا تی ہے۔
ندی اس جگہ کے چاروں طرف سے بہتی تھی
    جہاں پر درخت تھا۔
یہ دوسرے درختوں کی طرف دھارا کو بھیجا۔
اس لئے کھیت کے سبھی درختوں سے وہ درخت بلند تھا،
    اور اس نے کئی ڈالیاں پھیلا رکھی تھیں۔
وہاں کافی پانی تھا۔
    اس لئے درخت کی شاخیں باہر پھیلی تھیں۔
اس درخت کی شاخوں میں آسمان کے سبھی پرندوں نے گھونسلے بنائے تھے۔
    اس درخت کی شاخوں کے نیچے سبھی جانور اپنے بچوں کو جنم دیتے تھے۔
سبھی بڑی قومیں
    اس درخت کے سایہ میں رہتی تھیں۔
اس لئے درخت اپنی بر تری اور اپنی لمبی شاخوں کی وجہ سے خوبصورت تھا
    کیوں کہ اس کی جڑیں گہرے پانی تک پہنچتی تھیں۔
خدا کے باغ کے دیودار کا درخت بھی اتنا بڑا نہیں تھا
    جتنا کہ یہ درخت تھا۔
سرو کے درخت بھی اتنی زیادہ ڈالیاں نہیں رکھتے
    اور نہ ہی چنار کے درخت میں اس درخت جیسی ڈالیاں تھی۔
خدا کے باغ کا کوئی بھی درخت اتنا خوبصورت نہیں تھا
    جتنا یہ درخت تھا۔”
میں نے کئی ڈالیاں سمیت اس درخت کو خوبصورت بنا یا
    اور خدا کے باغ کے سبھی درخت اس سے رشک کرتے تھے

10 اس لئے خدا وند میرا مالک کہتا ہے: “درخت بلند ہو گیا ہے۔ اس نے اپنی چوٹی کو بادلوں میں پہنچا دیا ہے۔ درخت متکبر ہو گیا کیوں کہ یہ قد آور ہے۔ 11 اس لئے میں نے ایک طاقتور بادشاہ کو اس درخت کو لینے دیا۔ اس حکمراں نے درخت کو اس برے اعمال کے سبب سزا دی۔ میں نے اس درخت کو اپنے باغ سے باہر کیا۔ 12 “اجنبی جو دنیا کی سب سے خطرناک قوم ہیں اس درخت کو کاٹ ڈالا اور اسکی شاخوں کو پہاڑوں پر ساری وادی میں بکھیر دیئے۔ اس روئے زمین میں بہنے والی ندیوں میں اس کی شاخیں بہہ گئیں۔ درخت کے نیچے اب کوئی سایہ نہیں تھا۔ اس لئے سبھی لوگوں نے اس درخت کو چھوڑ دیا۔ 13 اب اس گرے درخت پر پرندے رہتے ہیں اور اسکی ٹوٹی شاخوں پر جنگلی جانور چلتے ہیں۔

14 “اب اس پانی کا کوئی بھی درخت متکبر نہیں ہوگا۔ وہ بادلوں تک پہنچنا نہیں چاہیں گے۔ کوئی بھی طاقتور درخت جو اس پانی کو پیتا ہے قد آور ہونے کی شیخی نہیں بگھا رے گا کیوں کہ ان سبھی کی موت یقینی ہو چکی ہے۔ وہ سبھی موت کے مقام پاتال میں چلے جائیں گے۔ وہ ان دیگر انسانوں کی طرح ہونگے جو مرتے ہیں اور گڑھے میں چلے جا تے ہیں۔”

15 خدا وند میرا مالک یہ کہتا ہے، “اس دن جب وہ درخت اسفل کو گیا میں نے لوگوں سے ماتم کروایا۔ میں نے گہرے پانی کو، اس کے لئے غم سے چھپا دیا۔ میں نے درخت کی ندیوں کو روک دیا۔ اور درخت کے لئے پانی کا بہنا رک گیا۔ میں نے لبنان کو اس کے لئے ماتم کروایا۔ کھیت کے سبھی درخت اس بڑے درخت کے غم میں بیمار ہوگئے۔ 16 میں نے درخت کو گرایا اور درخت کے گرنے کی آواز سے قو میں کانپ اٹھیں۔ میں نے درخت کو موت کے مقام اسفل پر پہنچا یا۔ یہ نیچے ان لوگوں کے ساتھ رہنے گیا جو گڑھے میں نیچے گرے ہوئے تھے۔ ماضی میں عدن کے سبھی درخت یعنی لبنان کے بہترین درخت اس پانی کو پیتے تھے۔ ان سبھی درختوں نے پاتال میں تسکین حاصل کی تھی۔ 17 ہاں! وہ درخت بھی قد آور درخت کے ساتھ موت کے مقام اسفل پر گئے۔ انہوں نے ان لوگوں کا ساتھ پکڑا جو جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس بڑے درخت نے دیگر درختوں کو طاقتور بنا یا، وہ درخت قوموں کے درمیان اس بڑے درخت کے سایہ میں رہتے تھے۔

18 “اس لئے اے مصر! عدن میں بہت سے قد آور اور طاقتور درخت ہیں۔ ان میں سے کسی درخت کے ساتھ میں تمہارا موازنہ کروں گا۔ تم عدن کے درختوں کے ساتھ پاتال کو جاؤ گے۔ موت کے مقام میں تم ان غیر ملکیوں اور جنگ میں مارے گئے لوگوں کے ساتھ لیٹو گے۔ ”

ہاں، یہ فرعون اور اسکے سبھی لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ خدا وند میرے مالک نے یہ کہا تھا۔

فرعون: ایک شیر ببر یا گھڑ یال؟

32 جلا وطنی کے بارہویں برس کے بارہویں مہینے (مارچ ) کے پہلے دن خدا وند کا کلام میرے پاس آیا۔ اس نے کہا، “اے ابن آدم! شاہ مصر کے بارے میں ماتم کا گیت گاؤ۔ اس سے کہو:

’“تم نے سوچا تھا تم طاقتور جوان شیر ببر ہو۔تم مختلف قوموں میں غرور کے ساتھ ٹہلتے تھے۔
    لیکن سچ مچ میں تم سمندر کے گھڑیال جیسے ہو۔
تم پانی کو دھکیل کر راستہ بنا تے ہو
    اور اپنے پیروں سے پانی گدلا کرتے ہو۔
    تم مصر کی ندیوں کو ہلایا (گھونٹا ) کرتے ہو۔”

خدا وند میرا مالک یہ کہتا ہے:

“میں نے بہت سے لوگوں کو ایک ساتھ اکٹھا کیا ہے۔
    اب میں تمہارے اوپر اپنا جال پھینکوں گا۔
    تب وہ لوگ تمہیں اوپر کھینچ لیں گے۔
تب میں تمہیں خشک زمین پر پھینک دوں گا۔
    میں تمہیں میدان میں پھینکوں گا۔
تب میں سبھی پرندوں کو بلاؤں گا تاکہ وہ تم پر رہ سکیں۔
    میں ہر جگہ سے جنگلی جانوروں کو تمہیں کھانے اور پیٹ بھر نے کے لئے بلاؤں گا۔
میں تمہارے جسم کو پہاڑوں پر بکھیروں گا۔
    میں تمہاری لاشوں سے وادیوں کو بھر دوں گا۔
میں تمہارا خون پہاڑوں پر ڈالونگا
    اور زمین اس سے بھیگ جائے گی۔
    ندیاں تم سے بھر جائیں گی۔
میں تم کو روپوش کردوں گا
    اور آسمان کو ڈھک دوں گا اور ستاروں کو سیاہ کردوں گا۔
    میں سورج کو بادل سے ڈھک دوں گا اور چاند نہیں چمکے گا۔
میں آسمان کے تمام چمکتے ہوئے اجسام کو تاریک کردوں گا۔
    میں تمہارے سارے ملک میں اندھیرا کردوں گا۔”
میرے مالک خدا وند نے یہ سب باتیں کہیں۔

“بہت سی قومیں غصہ ہوجائیں گی جب وہ سنیں گی کہ تم کو فنا کرنے کے لئے میں نے ایک دشمن کو لایا ہے۔ قومیں جنہیں تم جانتے بھی نہیں غصہ ہوجائیں گی۔ 10 میں بہت سے لوگوں کو تمہارے بارے میں حیرت زدہ کروں گا۔ ان کے بادشاہ تمہارے بارے میں اس وقت بری طرح سے خوفزدہ ہونگے جب میں انکے سامنے اپنی تلوار چلاؤں گا۔ جس دن تمہارا زوال ہوگا اسی دن ہر ایک پل بادشاہ خوفزدہ ہو نگے۔ ہر ایک بادشاہ اپنی زندگی کے لئے خوفزدہ ہوگا۔”

11 کیوں؟ کیوں کہ خدا وند میرا مالک یہ کہتا ہے: “شاہ بابل کی تلوار تمہارے خلاف جنگ کرنے آئیگی۔ 12 میں ان سپاہیوں کا استعمال تمہارے لوگوں کو جنگ میں مار ڈالنے کے لئے کروں گا۔ وہ سپاہی قوموں میں سب سے خطرناک قوم سے آئیں گے وہ ان چیزوں کو فنا کردیں گے۔ جن کا غرور مصر کو ہے۔ اہل مصر فنا کردیئے جائیں گے۔ 13 مصر میں ندیوں کے کنارے بہت سے مویشی ہیں۔ میں ان سبھی جانوروں کو بھی فنا کردوں گا۔ آئندہ لوگ اپنے پیروں سے پانی کو اور گدلا نہیں کریں گے۔ آئندہ گائیوں کے کھر بھی پانی کو اور گدلا نہیں کریں گے۔ 14 اس طرح میں مصر میں پانی کو پر سکون بناؤں گا۔ میں ان ندیوں کو خراماں بناؤں گا وہ تیل کی طرح بہیں گی۔” خدا وند میرے مالک نے یہ کہا۔ 15 “میں ملک مصر کو ویران کردوں گا۔ وہ ہر چیز سے خالی ہوگا۔ میں مصر میں رہنے والے سبھی لوگوں کو سزا دوں گا۔ تب وہ جانیں گے کہ میں خدا وند اور مالک ہوں۔

16 “یہ ایک غمزدہ گیت ہے۔ جسے لوگ مصر کے لئے گائیں گے۔ دوسری قوموں میں بیٹیاں (شہر ) مصر کے بارے میں ماتم کریں گی۔ وہ اسے مصر اور اسکے سبھی لوگوں کے بارے میں غمزدہ گیت کے طور پر گائیں گی۔” خدا وند میرے مالک نے یہ کہا تھا۔

مصر کا فنا کیا جانا

17 جلا وطنی کے بارھویں برس میں،اس مہینے کے پندرھویں دن، خداوند کا پیغام مجھے ملا اس نے کہا۔، 18 “اے ا بن آدم! مصر کے لوگوں کے لئے رو ؤ۔ مصر اور طاقتور قومو ں کی بیٹیوں کو قبرستان تک پہنچا ؤ۔ انہیں اس پاتال میں پہنچا ؤ جہاں وہ ان دیگر لوگوں کے ساتھ نیچے گڑھے میں جا ئیں گے۔

19 “اے مصر! تم کسی اور سے بہتر نہیں ہو۔ موت کے مقام پر چلے جا ؤ۔ جا ؤ اور ان غیر ملکیوں کے پاس لو ٹو۔

20 “مصر کو ان سبھی دیگر لوگوں کے ساتھ رہنا پڑیگا۔ جو جنگ میں ما رے گئے تھے۔ دشمن نے اسے اور اس کے لوگوں کو اٹھا پھینکا ہے۔

21 “مضبوط اور طاقتور لوگ جنگ میں مارے گئے وہ غیرملکی موت کے مقام پر گئے۔ اس مقام سے وہ لوگ مصر اور اس کے مددگاروں سے با تیں کریں گے، وہ جو جنگ میں مارے گئے تھے۔

22-23 “اسور اور اس کی ساری فوج وہاں موت کے مقام پر ہے۔ان کی قبریں نیچے گہرے گڑھے میں ہیں۔ وہ سبھی اسور کے سپا ہی جنگ میں مارے گئے۔ ان کی قبریں گڑھے کے چارو ں جانب ہیں۔ جب وہ زندہ تھے تب وہ لوگوں کو خوفزدہ کر تے تھے۔ لیکن اب و ہ سب خاموش ہیں۔ وہ سب جنگ میں مارے گئے تھے۔

24 “عیلام وہاں ہے اور اس کی ساری فوج اسکی قبر کے چاروں جانب ہیں۔ وہ سب جنگ میں مارے گئے۔ وہ غیر ملکی گہری نیچی زمین میں گئے۔ جب وہ زندہ تھے۔ وہ لوگوں کو خوفزدہ کر تے تھے۔۔ لیکن وہ اپنی ندامت کو اپنے ساتھ اس گہرے گڑھے میں لے گئے۔ وہ ان سب لوگوں کے ساتھ رکھے گئے جو مارے گئے تھے۔ 25 وہ لوگ عیلام اور ان کے سارے سپا ہیوں کے لئے جو کہ جنگ میں مارے گئے تھے بستر تیار کئے۔ عیلام کی فوج اس کی قبر کے چارو ں جانب ہے۔ وہ سارے غیر ملکی جو کہ جنگ میں مارے گئے تھے جب وہ زندہ تھے وہ لوگو ں کو خوفزدہ کر تے تھے۔ لیکن وہ اپنی ندامت کو اپنے ساتھ نیچے گہرے گڑھے میں لے گئے۔ان لوگوں کو ان دیگر لوگوں کے ساتھ رکھا گيا تھا جو مارے گئے تھے۔

26 “مسک، توبل اور انکی ساری فوجیں وہاں ہیں۔ ان کی قبریں ان کے چاروں جانب ہیں۔ وہ سب غیر ملکی جنگ میں مارے گئے تھے۔ جب وہ زندہ تھے تب وہ لوگو ں کو خوفزدہ کر تے تھے۔ 27 لیکن اب وہ غیر ملکیوں کے طاقتور لوگوں کے ساتھ آرام نہیں فرمارہے ہیں جو کہ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ،اپنے سرو ں کے نیچے اپنی تلواروں کے ساتھ دفنا ئے گئے ہیں ان کے گناہ ان کی ہڈیوں میں ہونگے۔ کیونکہ جب وہ زندہ تھے، انہو ں نے لوگوں کو ڈرایا تھا۔

28 “اے مصر! تم بھی فنا ہو گے۔تم ان غیرملکیوں کے ساتھ لیٹو گے۔تم ان دیگر سپا ہیوں کے ساتھ لیٹو گے۔ جو جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔

29 “ادوم بھی وہیں ہے۔ اس کے بادشا ہ اور دیگر امراء اس کے ساتھ وہیں ہیں۔ وہ طاقتور سپا ہی بھی تھے۔ لیکن اب وہ دیگر لوگوں کے ساتھ لیٹے ہیں جو جنگ میں مارے گئے تھے۔ وہ ان غیرملکیوں کے ساتھ لیٹے ہیں وہ ان لوگو ں کے ساتھ لیٹے ہیں جو نیچے گڑھے میں چلے گئے۔

30 “شمال کے سب حکمراں وہاں ہیں۔ وہاں صیدا کے سب سپا ہی ہیں۔ ان کی طاقت لوگو ں کو ڈراتی ہے۔ لیکن وہ شرمندہ ہیں۔ لیکن وہ غیرملکی ان دیگر لوگوں کے ساتھ لیٹے ہیں جو جنگ میں ما رے گئے تھے۔ وہ اپنی ندامت اپنے ساتھ گہرے گڑھے میں لے گئے۔

31 “فرعون ان لوگوں کو دیکھے گا جو موت کے مقام پر گئے۔اس کی سبھی فوجوں کے متعلق اسے تسکین دی جا ئے گی۔ کیونکہ فرعون اور اس کی فوج جنگ میں ماری جا ئیگی۔ خداوند میرے مالک نے یہ کہا ہے۔

32 “جب فرعون زندہ تھا تب میں نے لوگوں کو اس سے خوفزدہ کرایا۔ لیکن اب وہ ان غیر ملکیوں کے ساتھ لیٹے گا۔فرعون اور اس کی فوج ان دیگر سپا ہیوں کے ساتھ لیٹیگی جو جنگ میں مارے گئے تھے۔ ” خداوند میرے خدانے یہ کہا تھا۔

خدا کا حزقی ایل کو اسرائیل کا نگہبان بنانا

33 خداوند کا کلام مجھے ملا، اس نے کہا، “اے ابن آدم! اپنے لوگوں سے باتیں کرو۔ان سے کہو، ’ میں دشمن کے سپا ہیو ں کو اس ملک کے خلاف جنگ کے لئے لا سکتا ہوں۔ جب ایسا ہو گا تو لوگ ایک شخص کو نگہبان کے طور پر منتخب کریں گے۔ اگر نگہبان دشمن کے سپا ہیوں کو دیکھتا ہے، تو وہ نرسنگا پھونکتا ہے اور لوگوں کو ہوشیار کر تا ہے۔ اگر لو گ اس انتباہ کو سنیں لیکن ان سنی کریں تو دشمن انہیں پکڑے گا اور انہیں قیدی کی شکل میں لے جا ئے گا، یہ شخص اپنی موت کے لئے خود ذمہ دار ہو گا۔ اس نے بگل کی آواز سنی ہر انتباہ ان سنی کی۔اس لئے اپنی موت کے لئے وہ خود قصوروار ہے۔ اگر اس نے انتباہ پر توجہ دی ہو تی تووہ اپنی زندگی بچا لی ہو تی۔

’“لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ نگہبان دشمن کے سپا ہیوں کو آتا دیکھتا ہے لیکن نرسنگا نہیں بجا تا۔ اس نگہبان نے لوگوں کو انتباہ نہیں کیا۔ دشمن انہیں پکڑے گا۔ اور ہو سکتا ہے ایک آدمی کی جان لے لے۔اس شخص کو لے جا ئے گا۔ کیونکہ اسنے گنا ہ کیا۔لیکن نگہبان بھی اس آدمی کی موت کا ذمہ دار ہو گا۔‘

اب، اے ابن آدم! میں تم کو اسرائیل کے گھرانے کا نگہبان چن رہا ہوں۔ اگر تم میری زبان سے کو ئی پیغام سنو تو تمہیں میرے لئے لوگوں کو انتباہ کر نی چا ہئے۔ میں تم سے کہہ سکتا ہوں، ’ یہ گنہگار شخص یقناً مریگا۔‘ تب تمہیں اس شخص کے پاس جا کر میرے لئے انتباہ کر نی چا ہئے۔ اگر تم اس گنہگار شخص کو انتباہ نہیں کرتے اور اسے اپنی زندگی بدلنے کو نہیں کہتے تو وہ گنہگار شخص مریگا کیونکہ اسنے گنا ہ کیا۔لیکن میں تمہیں اس کی موت کا ذمہ دار ٹھہرا ؤں گا۔ لیکن اگر تم اس برے آدمی کو اپنی زندگی بدلنے کے لئے اور گناہ ترک کرنے کے لئے انتباہ کرتے ہو اور اگر وہ گناہ کرنا چھوڑ نے سے انکار کرتا ہے تو وہ مریگا کیوں کہ اس نے گناہ کیا۔ لیکن تم نے اپنی زندگی بچا لی۔

خدا لوگوں کو فنا کرنا نہیں چاہتا

10 “اس لئے اے ابن آدم! اسرائیل کے گھرانے سے میرے لئے کہو۔ وہ لوگ کہتے ہیں، ’تم لوگوں نے گناہ کیا ہے۔ اور آئین کو توڑا ہے۔ ہمارے گناہ ہماری قوت سے باہر ہیں۔ ہم ان گناہوں کے سبب بر باد ہو رہے ہیں۔ ہم زندہ رہنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔”

11 “تمہیں ان سے کہنا چاہئے، “خدا وند میرا مالک کہتا ہے: میں اپنی زندگی کی قسم کھا کر یقین دلا تا ہوں کہ میں لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ کر خوش نہیں ہوں، گنہگار لوگوں کو بھی نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ مریں۔ میں چاہتا ہوں کہ گنہگار لوگ میر ی طرف لوٹيں میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کے راستہ کو بدلیں تاکہ زند وہ رہ سکیں۔ اس لئے میرے پاس لوٹو! برے کام کرنا چھوڑو! اے اسرائیل کے گھرانو! تمہیں کیوں مرنا چاہئے؟ '

12 “اے ابن آدم! اپنے لوگوں سے کہو: ' اگر کسی شخص نے ماضی میں نیکی کی ہے تو اس سے اسکی زندگی نہیں بچے گی۔ اگر وہ بچ جائے اور گناہ کرنا شروع کرے۔ اگر کسی شخص نے ماضی میں گناہ کیا، تو وہ فنا نہیں کیا جائے گا، اگر وہ گناہ سے دور ہٹ جاتا ہے۔ اس لئے یاد رکھو، ایک شخص کی معرفت ماضی میں کئے گئے نیک عمل اس کی حفاظت نہیں کریں گے، اگر وہ گناہ کرنا شروع کرتا ہے۔‘

13 یہ ہوسکتا ہے کہ میں کسی اچھے شخص کے لئے کہو ں کہ وہ یقیناً زندہ رہے گا۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اچھا شخص یہ سوچنا شروع کرے کہ ماضی میں اسکی جانب سے کئے گئے اچھے اعمال اسکی حفاظت کریں گے۔ اس لئے وہ برے کام شروع کر سکتا ہے۔ اس حالت میں میں اسکی ماضی کی نیکیوں پر توجہ نہیں دوں گا۔ نہیں! وہ ان گناہوں کے سبب مریگا جنہیں اس نے کرنا شروع کر دیا ہے۔

14 “یا ہوسکتا ہے کہ میں کسی گنہگار شخص کے لئے کہونگا کہ وہ یقیناً مریگا۔ لیکن وہ اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے۔ وہ گناہ کرنا چھوڑ سکتا ہے اور اچھی زندگی شروع کرسکتا ہے۔ جو اچھا اور جائز ہو اسے کر سکتا ہے۔ 15 وہ ضمانت کو لوٹا سکتا ہے جسے اس نے اپنے پاس قرض دیتے وقت رکھا تھا۔ وہ ان چیزوں کا بدلہ چکا سکتا ہے جنہیں اس نے چرایا تھا۔ وہ ان آئین کو قبول کرسکتا ہے جو زندگی دیتے ہیں۔ وہ برے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ تب وہ شخص یقیناً ہی زندہ رہے گا۔ وہ مرے گا نہیں۔ 16 میں اسکے ماضی کے گناہوں کو یاد نہیں کروں گا۔ کیوں کہ وہ جو اچھا اور جائز ہے اسے کرتا ہے۔ اس لئے وہ یقیناً زندہ رہے گا۔ 17 “لیکن تمہارے لوگ کہتے ہیں، ’ یہ بہتر نہیں ہے! خدا وند میرا مالک ویسا نہیں کر سکتا ہے۔‘ ” لیکن یہ انکا راستہ ہے جو جائز نہیں ہے۔ 18 اگر اچھا شخص نیکی کرنا بند کردیتا ہے اور گناہ کرنا شروع کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں کے سبب مریگا۔ 19 “اور اگر کوئی گنہگار گناہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اور جو اچھا اور جائز ہو اسے کرنا شروع کردیتا ہے تو وہ زندہ رہے گا۔ 20 لیکن تم لوگ اب بھی کہتے ہو کہ میں جائز پر نہیں ہوں۔ لیکن اے بنی اسرائیلیو! میں تم میں سے ہر ایک کا تمہارے کرتوت کے مطابق فیصلہ کروں گا!”

یروشلم کا لے لیا جانا

21 جلاوطنی کے بارھویں برس میں، دسویں مہینے (جنوری) کے پانچویں دن ایک شخص میرے پاس یروشلم سے آیا۔ وہ وہاں کی جنگ سے بچ نکلا تھا۔اس نے کہا، “شہر (یروشلم ) پر قبضہ ہو گیا۔”

22 جس دن بچ کر نکلنے وا لا وہ شخص میرے پاس آیا اس سے قبل کی شام کو خداوند، میرے مالک کی قدرت مجھ پر اتری۔ صبح میں جس وقت وہ شخص میرے پا س آیا خداوند نے میرا منہ کھول دیا اور پھر مجھے بولنے کی اجازت دی۔ 23 تب خداوند کا کلام مجھے ملا۔اس نے کہا، 24 “اے ابن آدم! اسرائیل کے تباہ شدہ علاقے میں اسرائیلی لوگ رہ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں، ’ابراہیم صرف ایک شخص تھا اور خدا نے اسے یہ ساری زمین دے دی تھی۔ اب ہم کئی لوگ ہیں اس لئے یقیناً ہی یہ زمین ہم لوگو ں کی ہے! یہ ہماری زمین ہے۔‘

25 “تمہیں ان سے کہنا چا ہئے کہ خداوند اور مالک کہتا ہے، ’ تم لوگ لہو سمیت گوشت کھا تے ہو۔ تم لوگ اپنی مورتیوں سے مدد کی امید کر تے ہو۔ تم لوگوں کو مار ڈا لتے ہو۔اس لئے میں تم لوگوں کو یہ زمین کیوں دو ں؟ 26 تم اپنی تلوار پر بھروسہ کر تے ہو۔ تم میں سے ہر ایک بھیانک گنا ہ کرتا ہے۔ تم میں سے ہر ایک اپنی پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کر تا ہے۔اس لئے تم زمین نہیں پاسکتے۔‘

27 “تمہیں کہنا چا ہئے کہ خداوند اور مالک یہ کہتا ہے، “میں اپنی زندگی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو لوگ ان تبا ہ شدہ شہرو ں میں رہتے ہیں وہ تلوار سے ہلاک کئے جا ئیں گے۔اگر کو ئی شخص اس ملک سے با ہر ہو گا تو میں اسے جانوروں سے ہلاک کرا ؤں گا اور انہیں کھلا ؤں گا۔ اگر لوگ قلعہ اور غارو ں میں چھپے ہونگے وہ وبا سے مریں گے۔ 28 میں زمین کو ویران اور برباد کرو ں گا۔ وہ ملک ان سبھی چیزوں کو کھو دے گا جن پر اسے فخر تھا۔اسرائیل کے پہاڑ ویران ہو جا ئیں گے۔اس مقام سے کو ئی نہیں گذرے گا۔ 29 ان لوگوں نے کئی بھیانک گنا ہ کئے ہیں۔اس لئے میں اس ملک کو ویران اور برباد کرو ں گا۔ تب وہ لوگ جان جا ئیں گے کہ میں خداوند ہوں۔”

30 “اب تمہا رے بارے میں اے ابن آدم! تمہا رے لوگ دیواروں کے سہا رے جھکے ہو ئے اور اپنے دروازو ں میں کھڑے ہیں اور وہ تمہا رے با رے میں بات کر تے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں، “آؤ! ہم جا کر سنیں جو خداوند کہتا ہے۔” 31 اس لئے وہ تمہا رے پاس ویسے ہی آئیں گے جیسے وہ میرے لوگ ہوں۔ وہ تمہا رے سامنے میرے لوگوں کی طرح بیٹھیں گے۔ وہ تمہا را پیغام سنیں گے۔ لیکن وہ لوگ وہ کام نہیں کریں گے جو تم کہو گے۔ وہ صرف وہی کرنا چا ہتے ہیں جسے وہ اچھا محسوس کر تے ہیں۔انکا دل صرف نفع تلاش کر تا ہے۔ 32 “تم ان لوگوں کی نگاہ میں محبت کی نغمہ سرائی کرنے وا لے سے زیادہ بہتر نہیں ہو۔ تمہا ری آواز اچھی ہے تم اپنا ساز بھی اچھا بجاتے ہو۔ وہ تمہا را پیغام سنیں گے۔ لیکن وہ ویسا نہیں کریں گے جو تم کہتے ہو۔ 33 لیکن جن چیزوں کے با رے میں تم گا تے ہو، وہ سچ مچ ہونگے اور تب سمجھیں گے کہ ان کے بیچ سچ مچ میں ایک نبی رہتا تھا!”

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

©2014 Bible League International