Print Page Options
Previous Prev Day Next DayNext

Beginning

Read the Bible from start to finish, from Genesis to Revelation.
Duration: 365 days
Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
لوقا 14-16

کیا سبت کے دن شفاء دینا ٹھیک ہے؟

14 سبت کے دن میں یسوع ایک اعلیٰ فریسی کے گھر میں کھا نا کھا نے چلے گئے وہاں پر مو جود تمام لوگ یسوع ہی کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ یسوع کے سامنے انہوں نے ایک مریض کو لا یا جس کوجلندر [a] تھا۔ یسوع نے فریسیوں اور معلمین شریعت سے پو چھا ، “سبت کے دن شفا ء دینا صیح ہے ؟ یا غلط ؟” وہ کو ئی جواب دینے سے قاصر تھے۔ تب یسوع نے اس آدمی کا ہاتھ چھو کر شفاء دی اور اس کو بھیج دیا۔ یسوع نے فریسیوں کے معلّمین شریعت سے پو چھا ، “تم جان تے ہو کہ اگر سبت کے دن تمہارا بیٹا ہو یا کہ تمہارا کو ئی جانور جن سے تم خدمت لیتے ہو کنویں میں گر جائے تو تم انکو خود ہی کنویں سے باہر نکال کر بچا تے ہو۔” فریسی اور معلّم شریعت یسوع کی اس بات کا کو ئی جواب نہ دے سکے۔

تو اپنے آپ کو اہم نہ بنا

مہمان بن کے آنے والے چند لوگ کھانا کھانے کے لئے نمایاں اور عمدہ جگہ بیٹھے ہو ئے تھے ان لوگوں کے بارے میں یسوع نے یہ تمثیل پیش کی۔ “اگر کسی نے تجھے شادی میں مدعو کیا تو تو اعلیٰ و ارفع جگہ پر نہ بیٹھ۔ اس لئے کہ ہو سکتا ہے اس نے تجھ سے زیادہ بڑے اور معزّز آدمی کو مدعو کیا ہوگا۔ اگر تو کسی نمایاں جگہ پر بیٹھ گیا ہو تو میزبان آکر تجھ سے کہے گا کہ یہ جگہ فلاں آدمی کے لئے خالی کردو۔ تب تجھے محفل کی آخری جگہ میں بیٹھنا ہو گا جس سے احمق پن ظاہر ہو گا۔

10 اس لئے اگر تجھے کو ئی آدمی مدعو کرے تو تجھے چاہئے کہ تو جاکر آخر میں بیٹھے۔ تب پھر میز بان آکر تجھ سے کہے گا کہ اے دوست اس اعلیٰ جگہ پر بیٹھ جا! تب تمام مہمان لوگ تیری عزت کریں گے۔ 11 ہر ایک جو اپنے آپ کو بڑا بنا نا چاہے گا وہ نیچا ہو جا ئیگا اور جو کو ئی اپنے آپ کو کمتر اور گھٹیا تصور کریگا تو اسے اونچا اور بڑا سمجھا جائیگا۔”

تمہیں جزا ملے گی

12 تب یسوع نے مدعو کر نے والے فریسی سے کہا ، “جب تو دو پہر کے کھا نے یا رات کے کھا نے کی دعوت دے تو صرف اپنے دوستوں ، بھا ئیوں ، غریبوں ،عزیزوں اور مالداروں کو ہی مدعو نہ کر کیوں کہ وہ بھی تجھے دوسری مرتبہ کھا نے پر مدعو کریں گے اور وہ تیرا بدلہ ہو جا ئیگا۔ 13 اس کے بجائے جو تو کھا نے کی دعوت دے تو غریبوں ، لنگڑوں اور اندھوں کو مدعو کر۔ 14 تب تجھے خیر و برکت حاصل ہو گی کیوں کہ وہ لو گ تجھے اپنی دعوت میں بلا کر بدلہ چکا نے کے قابل نہ ہونگے۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن خدا تم کو اسکا اجر دیگا اس وقت جب نیک لوگ موت سے جی اٹھیں گے۔”

محفل ضیافت کی کہانی

15 یسوع کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے ان تفصیلات کو سنکر کہا، “خدا کی بادشاہت میں کھانا کھانے والے ہی با فضل ہیں۔

16 تب یسوع نے اس سے کہا کہ کسی نے کھانے کی ایک بہت بڑی دعوت کی اس آدمی نے بے شمار لوگوں کو مدعو کیا۔ 17 جب کھانا کھانے کا وقت آیا تو اس نے اپنے خادم کو بھجواکر مہمانوں کو اطلاع دی اور کہا کہ کھانا تیّار ہے۔ 18 لیکن تمام مہمانوں نے کہا کہ وہ نہیں آسکتے ان میں سے ہر ایک نے نیا بہا نہ تلا شا۔ ان میں سے ایک نے کہا ، “میں نے ابھی ایک کھیت کو خرید لیا ہے۔ اسلئے مجھے جا کر دیکھنا ہے مجھے معاف کر دیں۔ 19 دوسرے نے کہا، “میں نے ابھی پانچ جوڑی بیل خریدا ہے اور مجھے جا کر انکو دیکھنا ہے۔ برائے کرم مجھے معاف کریں۔ 20 تیسرے نے کہا، “میں نے ابھی شادی کی ہے اس لئے میں نہیں آسکتا۔

21 تب وہ نو کر واپس ہوا اور اپنے مالک سے تمام چیزیں بیان کر نے لگا پھر اسکا مالک بہت غضب ناک ہوا اور نوکر سے کہا، “راستوں ، میں گلیوں اور کوچوں میں جا کر غریبوں کو اور معذوروں کو اندھوں کو لنگڑوں کو یہاں بلا کر لے آؤ۔

22 تب اس نو کر نے آکر کہا کہ اے میرے خداوند! میں نے وہی کیا جیسا کہ تم نے کہا تھا لیکن ابھی اور بھی لوگوں کی جگہ کی گنجائش ہے۔ 23 تب اس مالک نے اپنے نوکر سے کہا کہ شاہراہوں پر اور دیگر راستوں پر چلا جا اور وہاں کے رہنے والے تمام لوگوں کو بلا لا اور میری یہ آرزو ہے کہ میرا گھر لوگوں سے بھر جا ئے۔ 24 لیکن میں تجھ سے کہتا ہوں کہ میں نے پہلی مرتبہ جن لوگوں کو کھا نے پر مدعو کیا تھا ان میں سے کو ئی ایک بھی میری دعوت میں کھانا چکھ نے نہ پا ئے گا۔

منصوبہ بندی کی ضرورت

25 لوگوں کی ایک بھیڑ یسوع کے ساتھ گروہ در گروہ ہو کر چل رہی تھی وہ مڑے اور ان سے اس طرح کہنے لگے۔ 26 “اگر کوئی جو میرے پاس آئے اور میری محبت سے زیادہ اپنے ماں باپ بیوی بچوں بھا ئیوں بہنوں اور اپنے آپ سے محبت کرنے والے کے لئے ممکن نہیں کہ وہ میرا شاگرد بنے۔ 27 جو میری پیروی نہ کرے اور اسے دی گئی صلیب کو اٹھا ئے نہ پھرے وہ میرا شاگرد نہ ہو سکے گا۔

28 اگر تو ایک عمارت کی تعمیر کرنا چاہتا ہے تو پہلے تجھے چاہئے کہ اس پر کیاخرچ آئیگا غور کر۔ اور حساب لگا کہ اس عمارت کی تعمیر کے لئے کیا میرے پاس وافر مقدار میں پیسہ ہے یا نہیں۔ 29 اگر تو ایسا نہ کرے اور ہو سکتا ہے کہ عمارت کی تعمیر شروع کردے۔ لیکن اسکی تعمیر پوری نہ کر سکے گا اور لوگ تجھے دیکھکر مذاق اڑاتے ہو ئے کہیں گے۔ 30 اس نے تعمیر کا کام شروع کردیا لیکن کام کی تکمیل اس سے ہو نہ سکی۔”

31 “ایک بادشاہ جب دوسرے بادشاہ کے خلاف لڑنے کے لئے جاتا ہے وہ ایک منصوبہ بنا تا ہے اور اگر بادشاہ کے پاس صرف دس ہزار فوج ہو تو دوسرا بادشاہ جن کے پاس بیس ہزار فوج ہو تو وہ غور کریگا کہ کیا وہ اس کو شکشت دے سکے گا ؟ 32 اور اگر وہ دوسرے بادشاہ کو شکشت نہیں دے سکتا تو وہ اپنے سفیر کو بھیج کر اس سے امن معاہدہ کی گزارش کریگا۔

33 ٹھیک اسی طرح تم کو بھی پہلے تدبیر کرنا چاہئے اور اگر تم چاہتے ہو کہ میری پیروی کرو تو پہلے تم کو تمہارے پاس کی ہر چیز کو چھوڑنا ہو گا ورنہ میرے شاگرد نہیں ہو سکتے۔

تم اپنے اثر و رسوخ کو ضائع نہ کرو

34 “نمک ایک اچھی چیز ہے لیکن اگر نمک اپنا ذائقہ کھو دے تو اسکی کو ئی قیمت نہ ہو گی تم اسکو دوبارہ نمکین بنا نہیں سکتے۔ 35 تو ایسی صورت میں اس سے مٹی کو یا کھاد کو کو ئی فائدہ نہ ہو گا لوگ اسکو باہر پھینک دیتے ہیں۔ “تم لوگ جو میری باتوں کو سنتے ہو غور فکر کرو!”

آسمان میں خوشی

15 کئی ایک محصول وصول کر نے والے اور گنہگار یسوع کے اطراف اس کی تعلیمات کو سننے کے لئے جمع

ہو ئے تھے۔ تب فریسی اور معلّمین شریعت نے اس بات کی شکایت کر نی شروع کی “دیکھو یہ آ دمی گنہگاروں کو بلاتا ہے اور انکے ساتھ کھانا کھا تا ہے۔”

اس وقت یسوع نے ان سے یہ تمثیل بیان کی: “فرض کرو کہ ایک آدمی کے پاس سو بکریاں ہیں اگر ان میں سے ایک بکری کھو جا ئے تو وہ ان ننانوے بکریوں کو چھوڑ کر ایک بکری کی خاطر ڈھونڈتا پھریگا اور اس بکری کے ملنے تک وہ اسکو تلاش ہی کرتا رہیگا۔ جب اسے وہ بکری نظر آئیگی تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہے گی اور وہ اس بکری کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر گھر لے جائیگا۔ تب وہ اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کو بلاکر کہے گا کہ میرے ساتھ خوش ہو جاؤ کیوں کہ میری کھوئی ہوئی بکری پھر سے مجھے مل گئی۔ اسی طرح میں کہتا ہوں اگر ایک گنہگار اپنے دل میں تبدیلی لاتا ہے۔تو اس کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہو گی ننانوے راستبازوں کی نسبت جو تو بہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک تو بہ کرنے والے گنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہو تی ہے۔

“فرض کرو کہ ایک عورت کے پاس دس چاندی کے سّکے ہیں۔اور وہ عورت ا ُ ن میں سے ایک سکّہ کھو دیتی ہے تو وہ چراغ لائے گی اور گھر کی صفائی کریگی وہ سکّہ ملنے تک اس کو بڑی احتیاط سے ڈھونڈے گی۔ وہ جب گمشدہ سکّہ کو پا تی ہے تو وہ اپنے عزیزوں اور پڑوسیوں سے کہتی ہے تم سب میرے ساتھ خوش ہو جاؤ کیوں کہ میرا کھویا ہوا سکّہ پھر مل گیا ہے۔ 10 اسی طرح ایک گنہگار اپنے دل و دماغ میں تبدیلی لا تا ہے اور تو بہ کر کے خدا کی طرف رجوع ہو تا ہے تو فرشتوں کے سامنے خوشی ہو گی۔”

گھر چھوڑ کر جا نے والا بیٹا

11 تب یسوع نے کہا ، “ایک آدمی کے دو لڑ کے تھے۔ 12 چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ سے پو چھا کہ تیری جائیداد میں سے مجھے ملنے وا لا حصّہ دیدے تب باپ نے اپنی جائیداد دونوں لڑکوں میں بانٹ دی۔

13 چھوٹا بیٹا اپنے حصّہ میں ملنے والی تمام چیزوں کو جمع کیا اور دور کے ملک کو سفر پر چلا اور وہاں پر وہ بے جا اسراف کر کے بیوقوف بن گیا۔ 14 تب اس ملک میں قحط پڑا اور وہاں برسات نہ ہو ئی اس ملک کے کسی حصہ میں بھی اناج نہ رہا وہ بہت بھو کا تھا اور اسے پیسوں کی شدید ضرورت تھی۔ 15 اس وجہ سے وہ اس ملک کے ایک شہری کے پاس مزدوری کے کام پر لگ گیا وہ آدمی اس کو سؤ روں کے چرانے کے لئے اپنے کھیت کو بھیج دیا۔ 16 اس وقت وہ بہت بھوکا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ سؤ روں کے کھا نے کے پھلوں کو ہی کھا نے کی خواہش کی مگر اسے کو ئی نہ دیتا تھا۔

17 تب اسے اپنی کم عقلی کے کاموں کا احساس ہوا۔ اور اپنے آپ سے کہنے لگا کہ میرے باپ کے پاس کام کرنے والے نوکروں کو وافر مقدار میں اناج ملتا ہے جبکہ میں خود یہاں کھانا نہ ملنے پر بھوکا مر رہا ہوں۔ 18 میں یہاں سے اپنے باپ کے پاس چلا جاؤں گا اور اپنے باپ سے کہونگا کہ اے باپ میں خدا کے خلاف اور تیرے خلاف بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔ 19 میں تیرا بیٹا کہلوانے کا مستحق نہیں ہوں اور تو مجھے اپنے نوکروں میں ایک نوکر کی حیثیت سے شامل کر لے۔ 20 ایسے میں وہ نکل کر اپنے باپ کے پاس چلا گیا۔

چھوٹابیٹا واپس لوٹ آیا

“بیٹا ابھی بہت دور ہی تھا کہ باپ نے اسے دیکھا اس کے دل میں شفقت پیدا ہو ئی وہ قریب دوڑتے ہو ئے آیا اور اسے گلے لگایا اور پیار کیا۔ 21 بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ اے باپ! میں نے خدا کے خلاف اور تمہارے خلاف غلطی کی ہے اور میں تیرا بیٹا کہلا نے کا مستحق نہیں ہوں۔

22 لیکن باپ نے اپنے ملازموں سے کہا کہ جلدی کرو!عمدہ قسم کے ملبوسات لا کر اسے پہناؤ۔ اور اسکی انگلی میں انگوٹھی پہناؤ اور اس کے پیرو ں میں جو تے پہناؤ۔ 23 فربہ بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تا کہ ہم دعوت اور خوشیاں منا ئیں گے۔ 24 میرا بیٹا تو مر گیا تھا اور اب پھر دو بارہ زندہ ہوا ہے! یہ گم ہو گیا تھا اب دوبارہ مل گیا ہے اس وجہ سے اب وہ خوشیاں منا نے لگے۔”

بڑا بیٹا آیا

25 “بڑا بیٹا کھیت میں تھا جب وہ واپس لوٹ رہا تھا اور گھر کے قریب آیا تو گا نے بجانے اور ناچ کی آواز کو سنی۔ 26 اس وجہ سے وہ اپنے نوکروں میں سے ایک کو بلا یا اور پوچھا کہ یہ سب کیا ہے ؟ 27 اس نو کر نے کہا کہ تیرا بھا ئی لوٹ کر آیا ہے اور تیرا باپ فر بہ بچھڑے کو ذبح کرا یا ہے۔ تیرا بھا ئی خیر و عافیت سے واپس لوٹنے کی وجہ سے تیرا باپ بہت خوش ہوا ہے!

28 بڑا بیٹا غصہ میں آکر دعوت کی محفل میں نہیں گیا تب اس کا باپ باہر آکر اس کو سمجھا نے لگا۔ 29 بڑا بیٹا باپ سے کہنے لگا میں ایک غلام کی طرح کئی سا لوں سے تیری خدمت کرتا رہا اور میں ہمیشہ تیرے احکا مات کی فرمانبر داری کی لیکن تو نے میری خا طر کبھی ایک بکری بھی ذبح نہ کی۔ مجھے اور میرے دوستوں کے لئے تو نے کبھی ایک کھانے کی دعوت کا اہتمام نہ کیا۔ 30 لیکن تیرا چھو ٹا بیٹا تیرےسارے سرمایہ کو فا حشاؤں پر صرف کیا اور جب وہ گھر واپس لوٹا تو تو نے اس کے لئے ایک فربہ بچھڑے کو ذبح کرا یا۔

31 لیکن باپ نے اس سے کہا ، “بیٹا! تو ہمیشہ میرے ساتھ ر ہا ہے اسلئے میراجو کچھ بھی ہے وہ سب تیرا ہی ہے۔ 32 ہم کو بہت خوش ہو نا چاہئے اور مسرت سے سرشار ہو نا چاہئے اس لئے کہ تیرا بھا ئی انتقال ہو گیا تھا اور اب پھر دوبارہ زندہ ہو کر آیا ہے اور کہا کہ وہ کھو گیا تھا اب دستیاب ہوا ہے۔”

حقیقی دولت

16 یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “کسی زمانے میں ایک دولت مند آدمی تھا اس مالدار آدمی نے اپنی تجارت کی دیکھ بھال کے لئے ایک نگراں کا ر مقر ر کیا کچھ عرصے بعد اس مالدار کو شکایتیں ملیں کہ نگراں کار اسکی جائیداد کو ضائع کر رہا ہے۔ تب اس نے اس نگراں کار کو بلایا اور کہا کہ تیرے متعلق میں نے بہت ساری شکایتیں سنی ہیں میری دولت کو تو نے کس مصرف میں خرچ کیا ہے ؟میرے پاس تفصیلی رپورٹ پیش کر۔اور اس کے بعد سے تو میری تجارت میں بحیثیت نگراں کار مقرر نہ رہ سکے گا۔

تب وہ نگراں کار اپنے آپ سے کہنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے ؟کیوں کہ میرا مالک مجھے اس خدمت سے سبکدوش کر رہا ہے! یہاں تک کہ گڑھا کھودنے کی بھی مجھ میں طاقت نہیں اور خیرات مانگنے میں مجھے شرم آتی ہے۔ اب مجھے کیا کرنا چاہئے وہ مجھے معلوم ہے!میں کام سے نکل جانے کے بعد ایسا کام کرونگا کہ لوگ مجھے اپنے گھروں میں بلائیں گے۔

پس وہ نگراں کار نے اپنے مالک کے قرض داروں میں سے ہر ایک کو بلایا اس نے پہلے قرضدار سے پو چھا کہ تجھ پر میرے مالک کا کتنا قرض واجب ا لاداء ہے ؟ اس نے کہا چار ہزا ر کلو گرام زیتون کا تیل۔اس نے اس سے کہا اپنی دستاویز لے اور جلد بیٹھ کر دوہزار کلو گرام لکھ دے۔

پھر دوسرے سے کہا تجھ پر کیا آتا ہے ؟ اُس نے کہا تیس ہزار کلو گرام گیہوں۔اس نے اس سے کہا اپنی دستا ویز لیکر پچیس ہزار کلو گرام لکھدے۔

تب مالک نے اس دھو کہ باز نگراں کار سے کہا کہ تو تو عقلمندی سے کام لیا ہے ہاں اس دنیا کے لوگ تو کاروبار میں روحانی لوگوں سے بڑھکر ہوشیار ہو تے ہیں۔

اس لئے میں کہتا ہوں “اس دنیا کی زندگی میں تم جن چیزوں کو پا ئے ہو انکا استعمال اپنے لئے دوست حاصل کر نے کے لئے کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے اور دنیا کی یہ چیزیں جب تمہارا ساتھ چھوڑ دیگی تب ہمیشہ دائم و قا ئم رہنے وا لا گھر تمہیں قبول کریگا۔ 10 جس کا تھو ڑے اور کم پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے تو اس کا بہت زیادہ پر بھی بھروسہ کیا جا سکتا ہے جو تھو ڑا ملنے پر بد دیا نت ہو سکتا ہے تو وہ بہت ملنے پر بھی وہ بد دیا نت بن سکتا ہے۔ 11 دنیا کے مال و متاع میں تم قابل بھرو سہ مند بن نہیں سکتے تو حقیقی دو لت میں تم کس طرح بھرو سہ مند بن سکو گے ؟ 12 تم اگر کسی کی امانت میں اپنے آپکو قابل بھرو سہ نہ ثابت کرو گے تو تمہاری امانت بھی تمکو کو ئی نہ لو ٹا ئیگا۔

13 “کو ئی نوکر بیک وقت دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا وہ کسی ایک کی مخالفت کر کے دوسرے سے محبت کریگا یا کسی ایک کا کام کرکے دوسرے کا انکار کریگا ایسے میں تم ایک ہی وقت میں خدا کی اور دولت کی خدمت نہ کرسکو گے۔”

خدا کی شریعت کبھی نہیں بدلتی

14 فریسی ان تمام واقعات کو سن رہے تھے۔ چو نکہ فریسی دولت سے محبت رکھتے تھے اس وجہ سے وہ یسوع پر تنقید کرنے لگے۔ 15 یسوع نے فریسیوں سے کہا تم لوگوں میں اپنے آپکو اچھے اور شریف کہلوانا چاہتے ہو۔ حالانکہ تمہارے دلوں کی بات کو تو صرف خدا ہی جانتا ہے انسانی نظر میں جو چیزیں قیمتی ہیں وہ خدا کی نظر میں بے قیمت ہیں۔

16 یہ خدا کی مرضی تھی کہ مو سٰی کی شریعت کے مطابق اور نبیوں کے صحیفوں کی روشنی میں لو گ اپنی زندگی گزاریں۔ بپتسمہ دینے والا یو حنا جب سے آیا ہے اس وقت سے خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے۔ کئی لوگ خدا کی بادشاہت میں داخل ہو نے کے لئے بڑی ہی کو شش کر رہے ہیں۔ 17 زمین و آسمان کا ٹل جانا ممکن ہو سکتا ہے لیکن مذہبی شریعت سے ایک چھوٹے سے نقطے کا بدلنا بھی ممکن نہیں ہو سکتا۔

طلاق اور دوسری شادی

18 “جو اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ زنا کا مجرم ہے۔ اور مطلقہ عورت سے شادی کر نے والا بھی گویا زنا کر نے والا ہو تا ہے۔”

ایک دولت مند آدمی اور لعزر

19 یسوع نے کہا ، “ایک مالدار آدمی تھا۔ وہ بہترین لباس زیب تن کیا کرتا تھا۔ چونکہ وہ بہت مالدار تھا اس وجہ سے وہ ہر روز شان و شوکت کے ساتھ دعوتیں کرتا۔ 20 وہاں پر لعزر نام کا ایک غریب آدمی بھی رہتا تھا۔ اس کے تمام بدن پر پھوڑے پھنسیاں تھے اور وہ ہمیشہ اس مالدار آدمی کے گھر کے صدر دروازہ کے باہر پڑا رہتا تھا۔ 21 مالدار آدمی جب کھا نے سے فارغ ہو تا تو اسی کے بچے ہو ئے ٹکڑے جو پھینک دیتا تو اس سے لعزر اپنی بھو ک مٹا تا تھا۔ تب ایسا ہوا کہ کتے آتے اور اسکی پھنسیوں کو چاٹ جا تے تھے۔

22 کچھ عرصہ بعد لعزر مر گیا۔ فرشتہ لعزر کو اٹھا کر ابرا ہیم کی گود میں ڈال دیا ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ مالدار بھی مر گیا اور اس کو قبر میں دفن کر دیا گیا۔ 23 لیکن وہ عالم ارواح میں تکالیف اٹھا تے ہو ئے بہت دور پر لعزر کو ابراہیم کی گود میں پڑا دیکھا۔ 24 وہ پکارا اے میرے باپ ابرا ہیم مجھ پر رحم فرما اور لعزر کو میرے پاس بھیج دے اور گزارش کی کہ وہ اپنی انگلی پانی میں بھگوکر میری زبان کو تر کر دے کیوں کہ میں آگ میں تکلیف اٹھا رہا ہوں!

25 “تب ابراہیم نے جواب دیا کہ بیٹے یاد کر تو جب زندہ تھا وہاں پر تجھے ہر قسم کا آرام تھا۔ لیکن لعزر تو بیچارہ مصائب کی زندگی میں تھا۔ اب تو وہ سکھ اور چین سے ہے اور جب کہ تو تکالیف میں گھِرا ہے۔ 26 اس کے علا وہ تیرے اور ہمارے درمیان بڑا گہرا تعلق ہے وہاں پر پہنچ کر تیری مدد کر نا کسی سے بھی ممکن نہیں ہے کسی سے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہاں سے آئے۔

27 مالدار نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو مہربانی کر کے لعزر کو دنیا میں واقع میرے باپ کے گھر بھیج دے۔ 28 کیونکہ میرے پانچ بھا ئی ہیں۔ لعزر انہیں آگاہ کریگا کہ وہ اس ایذا رسائی اور عذاب کی جگہ پر نہ آئیں۔

29 ابراہیم نے کہا کہ موسٰی کی شریعت اور نبیوں کے صحیفے انکے پاس ہیں انکو پڑھکر انہیں سمجھنے دو۔

30 تب مالدار نے کہا اے میرے باپ ابراہیم تو اس طرح نہ کہہ اگر کو ئی مرے ہوئے آدمیوں میں سے دو بارہ جی اٹھے تو وہ اپنی زندگیوں میں اپنے دلوں میں ایک تبدیلی لا ئیں گے۔

31 پھر ابرا ہیم نے اس سے دو بارہ کہا “نہیں! تمہارے بھا ئی نےموسٰی کی اور نبیوں کی نہیں سنی۔ تو وہ مر دوں میں دو بارہ جی اٹھنے والے کی بات پر کبھی بھی تو بہ نہ کریں گے۔”

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

©2014 Bible League International