Print Page Options Listen to Reading
Previous Prev Day Next DayNext

The Daily Audio Bible

This reading plan is provided by Brian Hardin from Daily Audio Bible.
Duration: 731 days

Today's audio is from the EHV. Switch to the EHV to read along with the audio.

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
اوّل سموئیل 20-21

داؤد اور یونتن کا معاہدہ

20 داؤد رامہ کے قریب نیوت سے بھا گ گیا۔ داؤد یونتن کے پاس گیا اور اس کو پو چھا ، “میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ میرا گناہ کیا ہے ؟ تمہا را باپ مجھے کیوں مارڈالنے کی کو شش کر رہا ہے ؟”

یونتن نے جواب دیا ، “یہ سچ نہیں ہو سکتا میرا باپ تمہیں مارڈالنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ وہ مجھ سے کہے بغیر کچھ نہیں کرتا ہے وہ بہت اہم یا چھو ٹی بات ہی کیوں نہ ہو میرا باپ ہمیشہ مجھ سے کہے گا۔ وہ مجھے کیوں نہیں کہے گا کہ وہ تم کو مار ڈالنا چا ہتا ہے۔ نہیں یہ سچ نہیں ہے۔”

لیکن داؤد نے جواب دیا ، “تمہا را باپ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تمہا را دوست ہوں۔ تمہا رے باپ نے اپنے آپ سے کہا ، ’ یونتن کو اس کے متعلق نہیں معلوم ہونا چا ہئے ، اگر وہ یہ جان جا ئے تو وہ پریشان ہو جا ئے گا۔‘ لیکن خداوند کی حیات اور تیری جان کی قسم کہ میرے اور موت کے بیچ صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔”

یونتن نے داؤد سے کہا ، “تم مجھ سے جو کرنے کو کہو گے میں ہر وہ چیز کرونگا۔”

تب داؤد نے کہا ، “دیکھو کل نئے چاند کی تقریب ہے اور مجھے بادشاہ کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ لیکن مجھے جانے دو اور دوسرے دن شام تک کھیت میں چھپے رہنے دو۔ اگر تمہا را باپ غور کرے کہ میں چلا گیا ہوں تو ان سے کہو کہ داؤد نے مجھ سے سنجیدگی سے کہا تھا کہ اسے بیت ا للحم اپنے شہر کو بھاگ جانے دو۔ جیسا کہ ان کا خاندان قربانی کی سالانہ تقریب میں مصروف ہے۔ اگر تمہا را باپ کہتا ہے بہت اچھا تو میں محفوظ ہوں لیکن اگر وہ بہت غصّہ میں آئے تو تم جان لینا کہ وہ مجھے مارنا چا ہتا ہے۔ یونتن میرے ساتھ مہربان رہو تم نے مجھ سے خداوند کے سامنے ایک معاہدہ کیا ہے۔ اگر میں قصوروار ہوں ، تب تم خود مجھے مارڈالنا لیکن تم مجھے اپنے باپ کے پاس مت لے جا ؤ۔”

یونتن نے جواب دیا ، “نہیں میں وہ نہیں کروں گا اگر مجھے معلوم ہوا کہ میرا باپ تمہیں مارنا چا ہتا ہے تو میں یقیناً تمہیں ہو شیار کروں گا۔”

10 داؤد نے کہا ، “اگر تمہا را باپ تمہیں سخت جواب دیتا ہے مجھے کون خبردار کرے گا ؟ ”

11 تب یونتن نے کہا ، “آؤ ہم باہر اس کھیت میں جا ئیں۔” اس لئے یونتن اور داؤد دونوں مل کر کھیت میں گئے۔

12 یونتن نے داؤد سے کہا ، “میں خداوند اسرا ئیل کے خدا کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے باپ کے منصوبے کے بارے میں تین دن کے اندر پتہ لگا ؤں گا۔ اگر ان کا منصوبہ تمہا رے لئے اچھا ہے تو میں فوراً ہی تمہیں معلوم کراؤں گا۔ 13 اگر میرا باپ تمہیں تکلیف دینا چا ہتا ہے تو میں تمہیں واقف کراؤں گا اور میں تم کو یہاں سے حفاظت سے جانے دوں گا اگر میں ایسا نہ کروں تو خداوند مجھے اس کا بدلہ دے۔ خداوند تمہا رے ساتھ رہے جیسے وہ میرے باپ کے ساتھ رہا تھا۔ 14 مجھ پر مہربان رہو جب تک میں رہوں اور میرے مرنے کے بعد بھی۔ 15 میرے خاندان پر مہربانی رکھنا بند مت کر۔ جب خداوند زمین پر تمہا رے سبھی دشمنوں کو تباہ کرنے میں تمہا ری مدد کرتا ہے۔ 16 اسلئے یونتن نے یہ کہتے ہو ئے داؤد کے خاندان کے ساتھ عہد کیا : خداوند داؤد کے دشمنوں کو سزا دے۔”

17 تب یونتن نے داؤد سے اس کی محبت کے معاہدے کو دہرانے کے لئے کہا۔ یونتن نے ایسا اسلئے کیا کیوں کہ وہ داؤد کو اتنا چا ہتا تھا جتنا کہ خود کو۔

18 یونتن نے داؤد سے کہا ، “کل نئے چاند کی تقریب ہے میرا باپ اس طرف غور کرے گا کہ تم چلے گئے ہو کیونکہ تمہا ری نشست خالی ہو گی۔ 19 تیسرے دن اسی جگہ پر جا ؤ جہاں تم پہلے چھپے تھے جب یہ مصیبت شروع ہو ئی تھی اور اس پہا ڑی کے بغل میں انتظار کرو۔ 20 تیسرے دن میں اس پہا ڑی پر ایسے جاؤں گا جیسے میں کسی کو نشانہ بنا رہا ہو ں۔ میں تین تیر چلاؤں گا۔ 21 تب میں لڑکے کو کہوں گا کہ جاکر تیرو ں کو دیکھے۔ اگر ہر چیز ٹھیک ہے، تب میں لڑکے کو صاف طور سے کہوں گا دیکھو تیر تمہا رے آگے ہے۔ جا ؤ اور اسے لے آؤ۔ اگر میں ایسا کہوں توتم چھپنے کی جگہ سے باہر آسکتے ہو کیونکہ کو ئی خطرہ نہیں ہے۔ اور میں خداوند کی حیات کی قسم کھا کر وعدہ کرتا ہوں کہ تم یقیناً محفوظ ہو۔ 22 لیکن اگر مصیبت ہے تو میں لڑکے سے کہوں گا تیر بہت دور ہے جا ؤ انہیں لا ؤ۔ میں ایسا کہوں تو تمہیں وہاں سے نکل جانا چا ہئے خداوند تمہیں دور بھیج رہا ہے۔ 23 اور جہاں تک ہمارے معاہدہ کا تعلق ہے جو ہم لوگوں نے کیا یادرکھو خداوند ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا گواہ ہے۔”

24 تب د اؤد کھیت میں چھُپ گیا۔

تقریب کے موقع پر ساؤل کا برتاؤ

نئے چاند کی تقریب کا وقت آیا اور بادشاہ کھانے کیلئے بیٹھا۔ 25 بادشاہ دیوار کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ یونتن ساؤل کے دوسری طرف بیٹھا۔ ابنیر ساؤ ل کے بعد بیٹھا لیکن داؤد کی جگہ خالی تھی۔ 26 اس دن ساؤل نے کچھ نہ کہا ، “کیونکہ وہ سوچا !داؤد کے ساتھ ضرور کچھ ہوا ہے جس سے وہ ناپاک [a] ہو گیا ہے۔غالباً وہ ناپاک ہے۔”

27 اگلے دن مہینے کے دوسرے دن دوبارہ داؤد کی جگہ خالی تھی۔ تب ساؤل نے اس کے بیٹے یونتن سے کہا ، “یسی کا بیٹا نئے چاند کی تقریب میں کل اور آج کیوں نہیں آیا ؟”

28 یونتن نے جواب دیا ، “داؤد نے سنجیدگی سے مجھ سے بیت اللحم جانے کیلئے میری اجازت مانگی۔ 29 داؤد نے کہا ، “مجھے جانے دو میرا خاندان بیت ا للحم میں قربانی نذر کر رہا ہے اور میرے بھا ئی نے مجھے وہاں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اب اگر میں تمہا را دوست ہوں تو مجھے جانے دو اور بھائیوں سے ملنے دو۔‘ یہی وجہ ہے کہ وہ بادشاہ کی تقریب میں حاضر نہ ہوا۔

30 ساؤل یونتن پر بہت غصہ کیا اس نے یونتن سے کہا ، “تم ایک لونڈی کے بیٹے جو میرے حکم کی فرمانبرداری سے انکار کرتے ہو اور تم ٹھیک اسی کی طرح ہو۔ میں جانتا ہو کہ تم یسی کا بیٹا داؤد کی طرف ہو۔ تم اپنی ماں اور اپنے لئے ذلّت کا باعث ہو۔ 31 جب تک یسی کا بیٹا زندہ رہے گا تب تم نہ بادشاہ بنوگے اور نہ ہی تمہا ری بادشاہت ہو گی۔ داؤد کو ہمارے پاس لا ؤ کیونکہ اسے ضرور مار ڈالنا چا ہئے !”

32 یونتن نے اپنے باپ سے پو چھا ، “داؤد کو کیوں مارڈالنا چا ہئے ؟ اس نے کیا غلطی کی ہے ؟”

33 لیکن ساؤ ل نے اپنا بھا لا یونتن پر پھینکا اور اس کو مار ڈالنے کی کوشش کی۔ تب یونتن جان گیا کہ اس کا باپ داؤد کو ہر طرح سے مارڈالنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ 34 یونتن بہت غصہ میں آکر کھانے کے میز سے اٹھ گیا۔ نئے چاند کی تقریب کے دوسرے دن وہ کچھ نہیں کھایا۔ وہ غصہ میں تھا کیوں کہ ساؤل نے اسے ذلیل کیا اور کیو نکہ ساؤ ل داؤد کو مارنا چا ہتا تھا۔

داؤد اور یونتن کی جدا ئی

35 دوسری صبح یونتن باہر کھیت کو گیا جیسا انہوں نے طئے کیا تھا۔ یونتن اپنے ساتھ ایک چھو ٹے لڑکے کو لا یا۔ 36 یونتن نے لڑکے سے بولا ، “بھا گو۔ تیروں کو تلاش کرو جو میں نے چلا ئے۔” لڑکے نے اسے کھوجنے کے لئے بھاگنا شروع کیا اور اسی دوران یونتن نے بچے کے سر کے اوپر تیر چلا یا۔ 37 لڑکا بھاگ کر اس جگہ گیا جہاں تیر پڑے تھے۔ لیکن یونتن نے اسے بلا یا اور کہا ، “تیر تو بہت دور ہے۔” 38 تب یونتن چلا یا جلدی کرو جا ؤ اور انہیں لا ؤ یہاں کھڑے مت رہو لڑکا تیر اٹھا یا اور واپس اپنے مالک کے پاس لا یا۔ 39 لڑکے کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کیا ہوا ؟ صرف یونتن اور داؤد ہی جان گئے۔ 40 یونتن نے اپنی کمان اور تیر لڑکے کو دیئے تب یونتن نے لڑکے کو کہا ، “واپس شہر جا ؤ۔”

41 جب لڑکا نکل گیا تو داؤد پتھر کے ڈھیر کے نیچے سے باہر آیا۔ داؤد نے زمین تک اپنے سر کو جھکاتے ہو ئے یونتن کو سلام کیا وہ اس طرح تین بار سلام کیا۔ تب داؤد یونتن گلے ملے اور ایک دوسرے کو چوُما۔ وہ دونوں ایک ساتھ رو ئے لیکن داؤد یونتن سے زیادہ رو یا۔

42 یونتن نے داؤد سے کہا ، “تم سلامتی سے جا سکتے ہو اس لئے کہ میں خداوند کانام لیکر دوستی کا عہد کیا ہوں۔ ہم نے کہا تھا کہ خداوندہمیشہ کے لئے ہما ری اور ہماری نسلوں کے درمیان گواہ ہو گا۔ تب د اؤد چلا گیا اور یونتن واپس شہر آ گیا۔”

داؤد کا اخیملک کا ہن سے ملنا

21 داؤد نوب نامی شہر کو اخیملک کا ہن سے ملنے گیا۔

اخیملک داؤد سے ملنے باہر گیا۔ اخیملک ڈرسے کانپ رہا تھا۔اخیملک نے داؤد سے پو چھا ، “تم اکیلے کیوں ہو ؟ تمہا رے ساتھ کو ئی آدمی کیوں نہیں ہے ؟”

داؤد نے اخیملک کو جواب دیا بادشاہ نے مجھے خاص حکم دیا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اُس خاص کام کے لئے میں کسی کو معلوم نہ ہو نے دوں۔ کو ئی بھی آدمی کو یہ جو میں نے تمہیں کرنے کو کہا ہے۔ میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ کہاں ملیں۔ اب یہ بتا ؤ کہ تمہا رے پاس کھانے کیلئے کیا ہے ؟ مجھے کھانے کے لئے پانچ روٹی کے ٹکڑے دو یا جوکچھ بھی تمہا رے پاس کھانے کے لئے ہو۔

کا ہن نے داؤد سے کہا ، “میرے پاس معمولی روٹیاں تو نہیں ہیں۔ لیکن میرے پاس تھو ڑی مقدس روٹی ہے۔ تمہا رے افسر یہ کھا سکتے ہیں اگر ان کے جنسی تعلقات کسی عورت سے نہ ہوں۔

داؤد نے کا ہن کوجواب دیا ، “ہم لوگ ان دنوں کسی عورت کے ساتھ نہیں رہے ہیں۔ میرے آدمی اپنے جسموں کو ہر وقت پاک رکھتے ہیں جب ہم باہر لڑنے کے لئے جا تے ہیں ، حتیٰ کہ معمولی کام پر بھی۔ اور آج کے لئے تو خاص طور پر سچ ہے کیوں کہ ہمارا کام بہت خاص ہے۔”

سوائے مقدس روٹی کے اور کو ئی روٹی نہ تھی اس لئے کا ہن نے داؤد کو وہ روٹی دی۔ یہ وہ رو ٹی تھی جو کا ہن مقدس میز پر خداوند کے سامنے رکھتے تھے ہر روز وہ یہ روٹی نکال لیتے اور تاز ی رو ٹی اس کی جگہ رکھتے۔

اس دن ساؤل کے افسروں میں سے ایک وہاں تھا وہ ادومی دوئیگ تھا۔ دوئیگ ساؤ ل کے چرواہوں کا قائد تھا۔ دوئیگ کو وہاں خداوند کے سامنے رکھا گیا تھا۔

داؤد نے ا خیملک سے پو چھا ، “کیا تمہا رے پاس یہاں بھا لا یا تلوار ہے ؟” میرے پاس تلوار یا کو ئی اور ہتھیار لینے کیلئے وقت نہیں تھا کیونکہ بادشاہ کے خاص مقصد کو بہت جلدی کرنا تھا۔”

کا ہن نے جواب دیا ، “یہاں جو تلوار ہے وہ جو لیت کی فلسطینی تلوار ہے یہ وہ تلوار ہے جو تم نے اس سے لی تھی جب تم نے اس کو ایلہ کی وادی میں مار ڈا لا تھا۔ وہ تلوار عبا کے پیچھے ہے کپڑے میں لپیٹی ہو ئی۔ تم اگر چاہو تو یہ لے سکتے ہو۔”

داؤد نے کہا ، “وہ مجھ کو دو کو ئی تلوار جو لیت کی تلوار کی مانند نہیں ہے۔ 10 اس د ن داؤد ساؤل کے ہاں سے بھا گ گیا۔ داؤد جات کے بادشاہ اکیس کے پاس گیا۔”

داؤد کی جات کو روانگی

11 اکیس کے افسروں نے یہ پسند نہیں کیا انہوں نے کہا ، “یہ داؤد ہے اسرا ئیل کی سرزمین کا بادشاہ یہ وہ آدمی ہے جس کے گیت اسرا ئیل گاتے ہیں۔ وہ ناچتے اور یہ گانا گاتے ہیں :

“ساؤ ل نے ہزاروں دشمنوں کو مار ڈا لا۔
    لیکن داؤد نے لا کھوں کو مار ڈا لا۔”

12 ان لوگوں نے جو کہا داؤد کو بہت پریشان کیا۔ وہ جات کے بادشاہ اکیس سے ڈراہوا تھا۔ 13 اس لئے داؤد نے اکیس اور اس کے افسروں کے سامنے اپنے کو دیوانہ دکھا نے کا بہانہ کیا وہ ان کے ساتھ دیوانے آدمی کی طرح رہا وہ پھاٹک کے کواڑوں پر کھرونچ کا نشان بنا دیتا۔ اپنے تھوک کو اپنی داڑھی پر گرنے دیتا تھا۔

14 اکیس نے اپنے افسروں سے کہا ، “تم سب کو یہ صاف معلوم ہو نا چا ہئے کہ یہ آدمی پاگل ہے۔ تب تم اس کو میرے پاس کیوں لا ئے ہو ؟ ” 15 میرے پاس تو ویسے ہی بہت سے دیوانے ہیں۔ میں تم لوگو ں سے یہ نہیں چاہتا کہ تم اس آدمی کو میرے گھر پر دیوانگی کے کام کرنے کو لا ؤ اس آدمی کو میرے گھر میں دوبارہ نہ آنے دینا۔”

یوحنا 9

یسوع کا پیدائشی اندھے کو شفاء دینا

جب یسوع جا رہے تھے تو اس نے ایک اندھے آدمی کو دیکھا جوپیدائشی اندھا تھا۔ یسوع کے شاگردوں نے اس سے پوچھا ، “اے استاد یہ آدمی پیدائشی اندھا ہے لیکن یہ کس کے گناہ کی سزا ہے کہ وہ اندھا پیدا ہوا ہے کیا اس کے اپنے گناہ میں یا پھر اس کے والدین کے گنا ہ میں؟”

یسوع نے جواب دیا ، ، “یہ نہ اس کا گناہ تھا اور نہ ہی اس کے والدین کا یہ اس لئے اندھا پیدا ہوا تھا تا کہ جب میں اس اندھے کو بینا ئی دوں تو لوگ خدا کی طا قت کو جان سکیں۔ اب جبکہ یہ دن کا وقت ہے ہمیں اس کے کام کو جا ری رکھنا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے رات آرہی ہے اور کوئی آدمی رات میں کام نہیں کر سکتا۔ اب جبکہ میں دنیا میں ہوں میں دنیا کا نور ہوں۔”

یسوع نے یہ کہہ کر مٹی پر تھوکا اور اس مٹی کو گوندھا اور اس کو اندھے کی آنکھوں پر لگایا۔ یسوع نے اس آدمی سے کہا، “جا ؤ اور جا کر شیلوخ (یعنی بھیجا ہوا) کے حوض میں دھو لے۔ اس طرح وہ حوض میں گیا۔ اس نے دھو یا اور واپس گیا۔ اب وہ دیکھنے کے قابل ہوا۔

اس سے پہلے لوگوں نے دیکھا تھا کہ وہ اندھا بھیک مانگا کر تا تھا۔یہ لوگ اور اس اندھے کے پڑو سی نے کہا، “دیکھو کیا یہ وہی نہیں جو بھیک مانگا کر تا تھا؟”

بعض نے کہا، “ہاں یہ وہی ہے” لیکن کچھ دوسرے لوگوں نے کہا ، “نہیں یہ وہ اندھا نہیں مگر ایسا دکھا ئی دیتا ہے۔” تب اس اندھے نے خود کہا، “میں وہی اندھا ہوں جو پہلے اندھا تھا۔”

10 لوگوں نے پوچھا، “پھر تیری بینا ئی کیسے واپس آ ئی؟”

11 اس آدمی نے کہا، “وہ آدمی جسے لوگ یسوع کہتے ہیں اس نے مٹی اور لعاب کو ملا یا اور اس کو میری آنکھوں پر لگایا پھر اس نے کہا کہ میں شیلوخ میں جا کر آنکھیں دھولوں میں نے ویسا ہی کیا اور اب میں دیکھ سکتا ہوں۔”

12 لوگوں نے پوچھا، “وہ آدمی کہاں ہے؟” اس آدمی نے جواب دیا ، “میں نہیں جانتا۔”

نابینا شخص جو بینا ہوا اس کا ثبوت

13 تب لوگوں نے اس آدمی کو فریسیوں کے پاس لا یا اور کہا یہی وہ آدمی ہے جو پہلے اندھا تھا۔ 14 یسوع نے مٹی اور لعاب کو ملا کر اس کی آنکھوں پر لگایا اور اس کو بینائی واپس دلا یا جس دن یسوع نے یہ کیا وہ سبت کا دن تھا۔ 15 فریسیوں نے اس آدمی سے پوچھا ، “تمہا ری بینا ئی کس طرح واپس آئی ؟” اس آدمی نے جواب د یا ، “یسوع نے میری آنکھوں پر مٹی لگائی اور آنکھیں دھو نے کو کہا جب میں نے آنکھیں دھو لیں تو مجھے بینا ئی مل گئی۔”

16 کچھ فریسیوں نے کہا، “یہ آدمی سبت کے دن کی پابندی کو نہیں مانتا اس لئے وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ دوسروں نے کہا، “لیکن جو آدمی گنہگار ہے وہ معجزہ کیسے کر سکتاہے۔” یہ یہودی آپس میں ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔

17 یہودیوں کے سردار نے اس آدمی سے دوبارہ پوچھا، “اس آدمی نے تمہیں شفاء دی اور تم دیکھ سکتے ہو اس کے با رے میں تم کیا کہتے ہو؟” اس آدمی نے جواب دیا، “وہ نبی ہے۔”

18 یہودی اب بھی یقین نہیں کر رہے تھے کہ واقعی اس آدمی کے ساتھ ایسا کو ئی واقعہ ہوا ہے۔ انہیں یہ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ آدمی پہلے اندھا تھا اور اب بینا ہو گیا۔ 19 اس لئے انہوں نے اسکے والدین کو بلا کر پو چھا ، “کیا تمہا را بیٹا اندھا تھا؟ اور کیا تم کہتے ہو کہ وہ پیدائشی اندھا تھا اور اب کس طرح دیکھ سکتا ہے؟”

20 اس کے والدین نے جواب دیا، “ہاں یہی ہما را بیٹا ہے اور یہ اندھا ہی پیدا ہوا تھا۔ 21 لیکن ہم نہیں جانتے وہ اب کیسے بینا ہو گیا اور اس کو کس نے بینا ئی دی اسی سے پو چھو وہ بالغ ہے وہ اپنے بارے میں کہے گا۔” 22 اس کے والدین نے یہودیوں کے سر دار کے ڈر سے ایسا کہا کیوں کہ یہودیوں نے فیصلہ کر لیا تھا جو بھی یسوع کو مسیح ما نے گا اس کو سزا دیں گے اور یہودی سر دار انہیں اپنی یہودی عبا دت گاہ میں دا خل نہیں ہو نے دیں گے۔ 23 اسی لئے اس کے والدین نے کہا ، “وہ بالغ ہے اسی سے پو چھو۔”

24 چنانچہ یہودی سردار نے دو بارہ اس آدمی کو جو پہلے اندھا تھا بلا یا ، “اور کہا تو خدا کی حمد کر اور سچ بتا ہم تو جانتے ہیں کہ یہ آدمی گنہگار ہے۔”

25 اس آدمی نے جواب دیا ، “میں یہ نہیں جانتا کہ وہ گنہگار ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ میں پہلے اندھا تھا اب دیکھ سکتا ہوں۔”

26 یہودی سردار نے پو چھا ، “اس نے تمہا رے ساتھ کیا کیا اور کس طرح تمہا ری آنکھوں کو شفاء دی۔”

27 اس آدمی نے کہا ، “میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں لیکن تم لوگ سننا نہیں چاہتے پھر دوبارہ کیوں سننا چاہتے ہو ؟ کیا تم اس کے شاگرد ہو نا چاہتے ہو ؟” 28 یہودی سردار اس کا مذاق اڑا تے ہو ئے کہا تم ہی اس کے شاگرد ہو ہم تو موسیٰ کے عقیدت مند ہیں۔ 29 ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے کلا م کیا تھا ہم نہیں جانتے کہ کہاں سے یہ آدمی آیا ہے ؟”

30 تب اس آدمی نے کہا ، “بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے آیا ہے مگر اس نے مجھے بینا ئی دی۔ 31 ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خدا گنہگاروں کی نہیں سنتا لیکن خدا ان کی سنتا ہے جو اس کی عبادت کر تے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں۔ 32 یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے ایسے آدمی کو جو پیدا ئشی اندھا تھا اس کو بینا ئی دی ہے۔ 33 وہ آدمی خدا کی طرف سے آیا ہے اگر وہ خدا کی طرف سے نہیں آیا ہو تا تو وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔”

34 یہودی سردا ر نے کہا، “تو خود گنہگار پیدا ہوا ہے تو ہم کو کیا سکھاتا ہے ؟” اور انہوں نے اسے باہر نکال دیا۔

روحانی اندھا پن

35 یسوع نے سنا کہ یہودی سردار نے اس آدمی کو پھینک دیا اس لئے جب اس نے اسکوپا یا تو پو چھا، “کیا تم ابن آدم پر ایمان رکھتے ہو۔ ؟”

36 اس آدمی نے پو چھا ، “ابن آدم کو ن ہے مجھے بتائیے تا کہ میں اس پر ایمان لاؤں-”

37 یسوع نے کہا ، “تم اسکو دیکھ چکے ہو اور جو تجھ سے باتیں کرتا رہا وہی ابن آدم ہے۔”

38 اس آدمی نے جواب دیا، “اے خدا وند ہاں میں ایمان لایا” تب وہ آدمی جھک گیا اور یسوع کی عبادت کر نے لگا۔

39 یسوع نے کہا ، “میں اس دنیا میں فیصلہ کے لئے آیا ہوں۔میں آیا ہوں تا کہ اندھوں کو بینائی ملے اور جو دیکھ کر بھی نہ سمجھے وہ اندھے رہینگے۔”

40 چند فریسی جو یسوع کے قریب تھے سن کر کہا ، “کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم اندھے ہیں ؟”

41 یسوع نے کہا، “اگر تم حقیقت میں اندھے ہو تے تو گنہگار نہ ہو تے مگر اب یہ کہتے ہو کہ تم دیکھ سکتے ہو تو تم گنہگار ہو۔”

زبُور 113-114

113 اے خدا کے بندو ! خدا کی حمد کرو !
    اُس کی ستائش کرو۔ خدا وند کے نام کی مدح سرائی کرو۔
خدا وند کے نام کی ستائش اب اور ابد تک ہو ،
    یہ میری آرزو ہے۔
آفتاب کے طلوع سے غُروب تک خدا وند کے نام کی ستائش ہو !
    یہ میری آرزو ہے
خدا وند سبھی قوموں سے اونچا ہے۔
    اُس کا جلال آسمانوں تک اٹھتا ہے۔
ہمارے خدا وند کی مانند کو ئی بھی شخص نہیں ہے۔
    خدا عالمِ بالا پر تخت نشیں ہے۔
تا کہ خدا آسمان اور نیچے زمین کو دیکھ پا ئے۔
خدا غریبوں کو غبار سے اٹھا تا ہے ،
    اور فقیروں کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے اٹھا تا ہے۔
خدا انہیں اہم بنا تا ہے۔
    خدا ان لوگوں کو بہت اہم رہنما بناتا ہے۔
وہ بانجھ بیوی کو بچّے دیتا ہے
    اور شادماں رہنے دیتا ہے۔

خدا وند کی ستائش کرو۔

114 اِسرائیل نے مصر کو چھو ڑا۔
    یعقوب نے اُس غیر ملک کو چھو ڑا۔
تب یہوداہ خدا کا خاص لوگ بنا ،
    اسرائیل اُس کی مملکت بن گئی۔
اسے بحر قُلزم نے دیکھا ، وہ بھاگ کھڑا ہوا۔
    یر دن ندی الٹ کر بہہ چلی۔
پہاڑ مینڈھے کی مانند ناچ اُٹھے۔
    پہاڑیاں بھیڑ کی مانند ناچیں۔
اے بحرِ قلزم تُو کیوں بھاگ اٹھا ؟
    اے یردن ندی تُو کیوں الٹی بہی ؟
پہاڑو ! کیوں تم مینڈھے کی طرح ناچے ؟
    پہاڑیاں تم کیوں بھیڑ کی طرح ناچیں۔

یعقوب کا خدا وند خدا ،
    آقا کے سامنے زمین کانپ اٹھی۔
خدا نے ہی چٹا نوں کو چیرا اور پا نی کو باہر بہنے دیا۔
    خدا نے پکّی چٹان سے پا نی کا چشمہ بہایا۔

امثال 15:15-17

15 غریب آدمی کی زندگی کے سارے دن تکلیف زدہ ہیں۔ لیکن ایک خوش طبع دماغ لگاتار چلنے والا ایک جشن کی مانند ہے۔

16 دولتمند رہ کر تکلیفیں اٹھا نے سے بہتر یہ ہے کہ آدمی غریب رہ کر خدا وند سے خوف کرے۔

17 نفرت کے ساتھ مزیدار کھا نا کھا نے سے محبت کے ساتھ سادگی کا کھا نا کھا نا بہتر ہے۔

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

2007 by World Bible Translation Center