Print Page Options Listen to Reading
Previous Prev Day Next DayNext

The Daily Audio Bible

This reading plan is provided by Brian Hardin from Daily Audio Bible.
Duration: 731 days

Today's audio is from the NIV. Switch to the NIV to read along with the audio.

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
ایّوب 31-33

31 “میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ
    کسی کنواری لڑکی پر ہوس کے ساتھ نظر نہ ڈالنے کا معاہدہ کیا ہے۔
خدا قادر مطلق لوگوں کے ساتھ کیا کرتا ہے ؟
    وہ کیسے اپنے بلند آسمان کے گھر سے انکے کاموں کا صِلہ دیتا ہے ؟
شریر لوگوں کے لئے خدا مصیبت اور تباہی بھیجتا ہے ،
    اور جو برا کرتے ہیں انکے لئے آفت بھیجتا ہے۔
میں کچھ جو بھی کرتا ہوں خدا جانتا ہے ،
    اور میرے ہر قدم کو وہ دیکھتا ہے۔

“میں نے نہ جھو ٹ بو لا ہے
    اور نہ ہی لوگوں کو دھو کہ دینے کی کو شش کی ہے۔
اگر خدا صحیح ترا زو استعمال کرے ،
    تب وہ جان جائیگا کہ میں بے قصور ہوں۔
اگر میں صحیح راستہ سے اتر گیا تھا ،
    اگر میری آنکھیں میرے دل کو برائی کی جانب آمادہ کر تی ہیں
    یا میرا ہاتھ گناہوں سے گندہ ہو چکا ہے تو خدا جان جائیگا۔
تو یہ دوسروں کے لئے صحیح ہو گا کہ جو میں بوؤں وہ اسے کھا ئے
    اور جن پودوں کو میں اگاؤں اسے وہ اکھا ڑ دے۔

“اگر میرا دل کسی عورت پر آگیا ہو
    یا یہ میرے پڑوسی کے دروازہ پر اسکی بیوی کے ساتھ برائی کرنے کے لئے بیٹھا ہوا ہو ،
10 تو میری بیوی دوسرے آدمی کا کھا نا تیار کرے
    اور دوسرے آدمی اس کے ساتھ سوئیں۔
11 کیوں کہ جنسی گناہ شرمناک ہے۔
    یہ ايسا گناہ ہے۔ جسکی سزا ملنی چاہئے۔
12 جنسی گناہ ایک آ گ کی طرح ہے جو سبھی چیزوں کو جلا کر راکھ کرتا ہے۔
    وہ ان سبھی کو برباد کر سکتی ہے۔ جسے میں نے کیا ہے۔

13 “اگر میں اپنے نوکروں کے لئے منصف ہونے سے انکار کروں ،
    تب انکی میرے خلاف شکایت ہو۔
14 تب میں کیا کروں گا۔ جب مجھے خدا کے سامنے پیش ہونا ہوگا ؟
    مجھے کیا جواب دینا چاہئے تب وہ میرے کاموں کے بارے میں مجھ سے سوال کرنے لگے گا۔
15 خدا نے مجھے میری ماں کے رحم میں بنا یا۔ اور خدا نے میرے نوکروں کو بھی بنا یا۔
    اس نے ہم سبھی کو ہماری ماؤں کے رحم میں صورت دی۔

16 “میں نے کبھی بھی غریبوں کی مدد کر نے ے انکار نہیں کیا۔
    میں نے بیواؤں کو وہ دیا جنکی اسے ضرورت تھی۔
17 میں اپنے کھا نے کے ساتھ کبھی بھی خود غرض نہیں رہا۔

میں نے اپنا کھا نا ہمیشہ یتیموں کو دیا ہے۔

18 “میں اپنی پوری زندگی میں ، ان یتیموں کے لئے ایک باپ کے جیسا رہا ہوں۔
    میں نے اپنی پوری زندگی میں ، بیواؤں کی دیکھ بھال کی ہے۔
19 جب میں نے کسی کو کپڑے کی کمی کی وجہ سے مصیبت اٹھا تے ہوئے دیکھا
    یا میں نے کسی غریب کو بغیر کوٹ کے دیکھا ،
20 تو میں نے ہمیشہ ان لوگوں کو کپڑے دیئے ،
    میں انہیں گرم رکھنے کے لئے اپنے بھیڑوں کے اون کا استعمال کیا ، اور ان لوگوں نے مجھے دعا دی۔
21 اگر میں نے کسی یتیم پر اس وقت اپنا ہاتھ اٹھا یا ہے
    جب میں نے اسے اپنے دروازے پر مدد مانگتے دیکھا ،
22 تو میرا بازو کندھے کے جوڑ سے اکھڑ کر گر جائے۔
23 لیکن میں ایسی چیزیں نہیں کر سکتا
    کیوں کہ میں خدا کی سزا سے ڈرتا ہوں۔ اسکی جاہ و جلال مجھے ڈراتی ہے۔

24 مجھے کبھی بھی اپنے سونے پر اعتماد نہ تھا۔ (میں نے مدد کے لئے ہمیشہ خدا پر اعتبار کیا )
    اور میں نے کبھی خالص سونے سے نہیں کہا کہ “تو میری امید ہے۔”
25 میرے پاس کافی دولت تھی
    لیکن اس دولت نے مجھے مغرور نہیں بنا یا !
میں نے کافی پیسے کمائے تھے۔
    لیکن اس کے سبب سے میں خوش نہیں ہوا۔
26 میں نے کبھی چمکتے سورج کی پرستش نہیں کی
    یا میں نے خوبصورت چاند کی پرستش نہیں کی۔
27 میں نے کبھی سورج اور چاند کی پرستش کر نے کی بے وقوفی نہیں کی۔
28 وہ بھی ایک گناہ ہے جسکے لئے سزا ضرور دی جانی چاہئے۔
    اگر میں نے ان چیزوں کی پرستش کی ہوتی تو ميں نے خدا قادر مطلق کی بے وفائی کی ہوتی۔

29 “جب میرے دشمن فنا ہوئے تو میں خوش نہیں ہوا ،
    جب میرے دشمنوں پر مصیبت پڑی تو ، میں ان پر نہیں ہنسا۔
30 میں نے اپنے منھ کو اپنے دشمن سے برے لفظ بول کر گناہ نہیں کرنے دیا ،
    اور نہ ہی یہ چاہا کہ انہیں موت آجائے۔
31 میرے گھر کے سبھی لوگ جانتے ہیں
    کہ میں نے ہمیشہ اجنبیوں کو کھا نا دیا ہے۔
32 میں نے ہمیشہ اجنبیوں کو اپنے گھر میں دعوت کرکے بلا یا ہے
    تاکہ ان کو گلیوں میں رات گزارنی نہ پڑے۔
33 دوسرے لوگ اپنے گناہ کو چھپا نے کی کو شش کرتے ہیں
    لیکن میں نے اپنا قصور کبھی نہیں چھپا یا ہے۔
34 میں اس بارے میں کبھی نہیں ڈرا تھا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے۔
    اس ڈر نے مجھے باہر جانے سے یا پھر کھل کر بولنے سے نہیں روکا۔
    کیوں کہ میں نے ان لوگوں کی نفرت سے اپنے آپ کو ڈرانے نہیں دیا۔

35 “ کاش میرے پاس کو ئی ہو تا جو میری سنتا۔
    مجھے اپنی بات سمجھا نے دو۔ کاش !
خدا قادر مطلق مجھے جواب دیتا۔ کاش!
    میرا مخالف ان باتوں کو لکھتا جسے وہ سوچتا ہے کہ میں نے غلط کیا تھا۔
36 تب یقیناً میں ان نشانیوں کو اپنے گلے کے چاروں طرف پہن لونگا۔
    اور میں اسے تاج کی طرح سر پر رکھ لوں گا۔
37 اگر خدا نے وہ کیا تو میں ہر چیز کو بیان کرونگا جسے میں نے کیا تھا۔
    میں خدا کے پاس قائد کی مانند اپنا سر اونچا اٹھا کر آؤنگا۔

38 “میں نے کسی سے زمین نہیں چرائی۔
    کوئی بھی شخص اسے لوٹنے کا مجھ پر الزام نہیں لگا سکتا ہے۔
39 میں نے ہمیشہ اس کھا نے کے لئے جسے کہ میں نے کھیت سے حاصل کیا ہے کسانوں کو ادا کیا ہے۔
    اور میں نے کبھی بھی زمین کو اس کے مالک سے چھین نے کی کو شش نہیں کی۔
40 ہاں ! اگر ان میں سے کوئی بھی برا کام میں نے کیا ہے۔
    تو گیہوں کی جگہ پر کانٹے اور جو کی بجائے کڑوے دانے اُگیں۔”

ایّوب کی باتیں ختم ہوئی۔

الیُہو کی باتیں

32 پھر ایّوب کے تینوں دوستوں نے ایوب کو جواب دینے کی کو شش کرنی چھو ڑ دی ، کیوں کہ ایوب اپنی راستبازی میں بہت ہی پُر یقین تھا۔ لیکن الیہو نام کا ایک جوان شخص تھا جو برا کیل کا بیٹا تھا۔ براکیل بُوزی نام کے ایک شخص کی نسل سے تھا۔ الیہو رام کے خاندان سے تھا۔ الیہو کو ایوب پر بہت غصہ آیا کیوں کہ ایوب کہہ رہا تھا کہ وہ خدا سے زیادہ راستباز ہے۔ الیہو ، ایوب کے تینوں دوستوں سے بھی ناراض تھا کیوں کہ وہ تینوں ایوب کے سوالوں کا جواب نہیں دے پائے تھے اور وہ لوگ یہ ثابت نہیں کر سکے تھے کہ ایوب غلط تھا۔ وہاں جو لوگ موجود تھے ان میں الیہو سب سے چھو ٹا تھا۔ اس لئے وہ تب تک خاموش رہا جب تک سب کوئی اپنی اپنی بات پوری نہیں کر لی۔ تب اس نے سوچا کہ اب وہ بولنا شروع کر سکتا ہے۔ الیُہو نے جب یہ دیکھا کہ ایوب کے تینوں دوستوں کے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے تو اسے بہت غصہ آیا۔ اس لئے الیہو نے اپنی بات کہنی شروع کی وہ بولا :

“میں چھو ٹا ہو ں ، اور تم لوگ مجھ سے بڑے ہو ،
    میں اس لئے تم کو وہ بتانے میں ڈر تا تھا جو میں سوچتا ہوں۔
میں نے دل میں سو چا کہ بزر گوں کو پہلے بولنا چاہئے۔
    وہ لوگ بہت سالوں سے جیتے آرہے ہیں اس لئے وہ لوگ بہت سی باتیں سیکھے ہیں۔
لیکن خدا کی روح آدمی کو عقلمند بنا تی ہے۔
    اور خدا قادر مطلق کی سانس لوگوں کو سمجھداری عطا کرتی ہے۔
صرف عمر رسیدہ ہی عقلمند نہیں ہوتے ہیں
    اور صرف عمر میں بڑے لوگ ہی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کیا صحیح ہے۔

10 “اس لئے برائے مہر بانی میری بات سنو!
    اور مجھے اپنی رائے تم سے کہنے دو۔
11 لیکن جب تک تم بولتے رہے میں صبر سے منتظر رہا ،
    میں نے ان جوابوں کو سنا جنہیں تم ایوب کو دے رہے تھے۔
12 تم نے جو باتیں کہيں ان پر میں نے پوری توجہ دی۔
    لیکن تم میں سے کسی نے بھی ایوب کونہیں سدھا را۔
    اور کسی کے پاس بھی ایوب کے بحث کا جواب نہیں ہے۔
13 تم تین آدمیوں کو کہنا نہیں چاہئے ، “ہم لوگوں نے ایوب کی باتوں میں حکمت پا لی ہے۔
    اس لئے آدمی کو نہیں بلکہ خْدا کو ایوب کے بحث و مباحثہ کا جواب دینے دو۔
14 لیکن ایوب نے اپنی باتوں کو میرے سامنے پیش نہیں کیا۔
    اس لئے میں اس بحث و مباحثہ کا استعمال نہیں کروں گا۔ جسے تم تین آدمیوں نے استعمال کیا۔

15 “ایوب یہ سب آدمی نے بحث و مباحثہ کو کھو دیا ہے۔
    اور انکے پاس کہنے کے لئے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ انکے پاس تیرے لئے اور کوئی جواب نہیں۔
16 ایّوب ، میں نے ان آدمیوں کا تجھے جواب دینے کا انتظار کیا۔
    لیکن اب وہ خاموش ہیں۔ انہوں نے تجھ سے بحث کرنی بند کردی۔
17 اس لئے اب میں تم کو جواب دونگا۔
    تم کو یہ بھی بتاؤنگا کہ میں کیا سوچتا ہوں۔
18 میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے
    جس کا کہ میں بھانڈا پھو ڑنے والا ہوں۔
19 میں اس نئی شراب کی بوتل کی طرح ہوں جو کہ اب تک کھو لی نہیں گئی ہے۔
    میں شراب کے نئے مشک کی مانند ہوں جو کہ پھٹنے کے لئے تیار ہے۔
20 اس لئے یقیناً ہی مجھے بولنا چاہئے ، تبھی مجھے اچھا لگے گا۔
    اپنا منھ مجھے کھولنا چاہئے اور مجھے ایوب کی شکایتوں کا جواب دینا چاہئے۔
21 مجھے ایوب کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے جیسا کہ میں دوسروں کے ساتھ کرتا ہوں۔
    میں اس کو عمدہ باتیں کہنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ میں صرف وہی کہوں گا جو مجھے کہنا چاہئے۔
22 میں ایک شخص کے ساتھ دوسرے شخص سے بہتر سلوک نہیں کر سکتا ہوں !
    اگر میں ویسا ہی کرتا تو خدا مجھے سزا دیتا !

33 “لیکن ایّوب اب میری سن۔
    میری ان باتوں پر دھیان دے جسے میں کہنے جا رہا ہوں۔
میں اپنی بات جلد ہی کہنے وا لا ہوں۔
    میں اپنی بات کہنے کے لئے تیار ہوں۔
میرا دِل سچّا ہے ، اس لئے میں ایمانداری کی باتیں بو لوں گا۔
    ان باتوں کے با رے میں جن کو میں جانتا ہو ں، میں سچا ئی سے بو لوں گا۔
خدا کی رُوح نے مجھے بنا ئی ہے ،
    اور میری زندگی خدا قادر مطلق سے آتی ہے۔
ایّوب ! میری سُن اور مجھے جواب دے اگر تُو دے سکتا ہے۔
    اپنے جوابوں کو تیار رکھ تا کہ تُو مجھ سے بحث کر سکے۔
خدا کے حضور ہم دونوں ایک جیسے ہیں
    اور ہم دو نوں کو اس نے مٹی سے بنایا ہے۔
ایّوب ! تُو مجھ سے مت ڈر۔
    میں تیرے ساتھ سختی نہیں کروں گا۔

لیکن ایوب، تو نے جو کہا وہ ميں نے سنا ہے۔
تو نے کہا ، “میں پاک ہو ں،میں نے کو ئی گناہ نہیں کیا ،
    میں نے کو ئی غلطی نہیں کی ہے ، میں قصوروار نہیں ہوں۔
10 میں نے کو ئی غلطی نہیں کی ، لیکن خدا میرے خلاف ہے۔
    وہ مجھے اپنا دشمن جیسا سمجھتا ہے۔
11 اس لئے خدا میرے پیرو ں میں زنجیر ڈالتا ہے ،
    میں جو کچھ بھی کرتا ہوں اس پر وہ نظر رکھتا ہے۔

12 لیکن ایوب ! تو اس بارے میں غلط ہے۔
    اور میں ثابت کرو ں گا کہ تو غلط ہے۔ کیونکہ خدا ہر شخص سے زیادہ جانتا ہے۔
13 ایّوب ! تو خدا سے بحث کرتا ہے !
    تو نے سو چا کہ خدا کو ساری باتیں تم سے بیان کر نی چا ہئے۔
14 لیکن خدا شاید ہی ہر اس بات کو جس کو وہ کر تا ہے ظاہر کردیتا ہے۔
    خدا شاید اس طریقے سے بولتا ہے جسے لوگ سمجھ نہیں پا تے ہیں۔
15-16 شاید کہ خدا خواب میں یا رو یا میں لوگوں سے بات کر تا ہے
    جب وہ لوگ گہری نیند میں ہو تے ہیں۔ پھر جب کبھی بھی وہ لوگ خدا کی تنبیہ سنتے ہیں تو ڈرجا تے ہیں۔
17 خدا لوگوں کو بُری باتوں کو کرنے سے روکنے کے لئے
    اور انہیں مغرور بننے سے روکنے کے لئے انتباہ کرتا ہے۔
18 خدا لوگوں کو انتباہ کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کو موت کی جگہ جانے سے بچا سکے۔
    خدا لوگو ں کی زندگی کو فنا ہو نے سے بچا نے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

19 “یا کو ئی شخص خدا کی آواز تب سن سکتا ہے جب وہ دُکھ بھرا بستر میں پڑا ہو اور خدا کی سزا جھیلتا ہو۔
    دراصل خدا اس کو درد سے انتباہ کرتا ہے۔ وہ شخص اتنے گہرے درد میں مبتلا ہو تا ہے کہ اس کی ہڈیاں دُکھتی ہیں۔
20 اس لئے ایسا شخص کھانا کھا نہیں سکتا ہے۔
    اس کو بہترین غذا سے بھی نفرت ہو تی ہے۔
21 وہ اپنا وزن اس وقت تک کھو تے رہے گا جب تک کہ وہ دُبلا پتلا نہ ہو جا ئے
    اور اس کی ہڈیاں نہ دکھا ئی دینے لگے۔
22 ایسا شخص موت کے گڑھے کے قریب ہو تا ہے ،
    اور اس کی زندگی بہت جلد موت کو جھیلے گی۔
23 “خدا کے پاس ہزا رو ں ہزار فرشتے ہیں ، اور یہ ممکن ہے کہ ان فرشتوں میں سے ایک اس شخص کے اوپر نظر رکھتا ہے۔
    یہ ممکن ہے کہ وہ فرشتہ اس شخص کے بدلے میں بو لے اور اچھی چیزوں کے بارے میں کہے جسے اس نے کیا ہے۔
24 ہو سکتا ہے وہ فرشتہ اس شخص پر رحم کرے۔ وہ فرشتہ خدا سے کہے گا :
    “اسے موت سے بچا ؤ!
    ا سکے گنا ہ کا بدلہ لینے کے لئے ایک راہ مجھکو مل گئی ہے۔ ”
25 تب اس کا جسم پھر سے جوان اور مضبوط ہو گا۔
    اس شخص کا جسم ایک جوان کی طرح مضبو ط اور طاقتور ہو گا۔
26 وہ شخص خدا سے دعا کرے گا ، اور خدا اس کی دعا کا جواب دے گا۔
    وہ خوشی سے چلا ئے گا اور خدا کی عبادت کرے گا۔ وہ پھر سے ایک اچھی زندگی گذارے گا۔
27 پھر وہ شخص لوگوں کے سامنے اقرار کرے گا۔ اور وہ کہے گا ،
    ’ میں نے گناہ کیا تھا ، میں نے اچھا ئی کو بُرا ئی میں بدل دیا تھا۔
    لیکن خدا نے مجھے سزا نہیں دی جیسا کہ میں مستحق تھا۔
28 خدا نے موت کے گڑھے میں گِرنے سے میری رُو ح کو بچا یا۔
    اب میں ایک بار پھر سے زندگی کا مزہ لو ں گا۔

29 “خدا ان چیزوں کو اس شخص کے لئے بار بار کرتا ہے۔
30 کیوں ؟ اسے آ گاہ کر کے اور اس کی جان کو موت کے گڑھے میں گرنے سے بچا ئے ،
    تا کہ وہ شخص زندگی کی خوشی کو پھر سے حاصل کر سکے۔

31 “اے ایّوب! توجہ سے میری بات سُن ،
    تُو چپ رہ اور مجھے کہنے دے۔
32 لیکن اے ایوب ! اگر تم مجھ سے راضی نہیں ہو تو آؤ اور بو لو۔
    اپنی بحث کو مجھے سننے دو تا کہ میں تیری اصلاح کر سکوں۔
33 لیکن اے ایوب ! اگر تجھے کچھ نہیں کہنا ہے تو تُو چپ رہ اور میری بات سُن۔
    مجھے تجھ کو دانا ئی سکھانے دے۔”

۲ کرنتھیوں 3

خدا کے نئے عہد نامہ کے خادم

کیا ہم اپنی باتوں کی بڑا ئی کر رہے ہیں ؟یا دُوسرے لوگوں کی طرح ہمیں کسی تعارفی خط کی ضرورت ہے یا تم سے بھی۔ تم خود ہمارے خطوط ہو۔ وہ خط ہما رے دلوں میں لکھا ہے جسکو ہم سب نے پڑھا اور پہچا نا ہے - تم سادگی سے بتاؤ کہ تم ہی مسیح کے خط ہو جو ہمارے ذریعہ بھیجے گئے تھے۔ یہ خط کسی روشنائی سے نہیں بلکہ زندہ خدا کی روح سے لکھے گئے ہیں۔ یہ پتھّر کی تختیوں [a] پر نہیں لکھے گئے بلکہ انسا نی دلوں پر لکھے گئے ہیں۔ یہ چیزیں تم کو کہتی ہیں تا کہ ہمیں مسیح کی خا طر خدا کے سامنے ایسا دعویٰ کر نے کا بھرو سہ ہے۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ بذات خود ہم اس قا بل ہیں اپنی طرف سے کچھ بھی کر سکتے ہیں بلکہ ہماری قابلیت خدا ہی کی طرف سے ہے۔ خدا نے ہم کو نئے عہد نامہ کے خا دم ہو نے کے لا ئق کیا۔ یہ نیا عہد نا مہ کو ئی لکھی ہو ئی شریعت نہیں یہ رُوح سے آیا ہواہے ،لکھی ہو ئی شریعت موت لا تی ہے لیکن رُوح زندگی دیتی ہے۔

نیا معاہدے کا عظیم الشان جلال

وہ خدمت جس سے موت آئے وہ حروف پتھر پر لکھے گئے۔اور وہ خدا کے جلال سے آئے تھے۔ موسیٰ کا چہرہ جلال سے چمکدار تھا کیوں کہ بنی اسرائیل اسکے چہرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے اور بعد میں وہ جلال غا ئب ہو گیا۔ اسلئے جو خدمت سے روح آئے اس میں زیادہ جلال ہے۔ یہی میرے کہنے کا مطلب تھا۔وہ خدمت لوگوں کے گناہ کے باعث مجرم ٹھہرا نے والی تھی تو اس میں جلال سے آیا تھا۔ تب یقیناً وہ خدمت لوگوں کو راستباز ٹھہرا تی ہے اور اس میں زیادہ جلال ہو تا ہے۔ 10 قدیم خدمت جلال والی تھی لیکن جب نئی خدمت کا عظیم جلال سے موازنہ کیا گیا تو قدیم خدمت اپنی جلال کھو دیگی۔ 11 اگر وہ خدمت جو جلال والی تھی غا ئب ہو گئی۔تب یہ خدمت جو ابدی ہے زیادہ جلال والی ہے۔

12 چونکہ ہمیں یہ امید ہے اسی لئے ہم دلیری سے کہتے ہیں۔ 13 ہم موسیٰ کی طرح نہیں وہ ہمیشہ چہرہ پر نقاب ڈا لے رہتا تھا کہ بنی اسرائیل غا ئب ہو نے والے جلال کو نہ دیکھ سکیں اور موسیٰ نے چا ہا کہ اسکے ختم ہو نے کو وہ نہ دیکھ سکیں۔ 14 لیکن انکے ذہن بند تھے۔ حتیٰ کہ آج بھی پرا نے عہد نامہ کو پڑ ھتے وقت وہی پر دہ پڑا رہتا ہے وہ پر دہ نہیں نکا لا جاتا اور وہ مسیح کے ذریعہ اٹھ جا ئیگا۔ 15 لیکن آج تک جب کبھی موسیٰ کی کتاب لوگوں کے لئے پڑھی جا تی ہے تو وہ پردہ سننے والوں کے دما غوں پر پڑا رہتا ہے۔ 16 اگر کسی شخص کا دل خدا وند کی طرف مڑ تاہے تو وہ پر دہ ہٹا دیا جا تا ہے۔ 17 خدا وند رُوح ہے۔اور جہاں خدا وند کی رُوح ہے وہاں آزادی ہے۔ 18 لیکن ہم لوگوں کے چہرے بے نقاب ہیں آئینہ میں دیکھنے کے قا بل ہیں اور خدا کے جلال کو دیکھ سکتے ہیں اس خدا وند کے ہی جیسے تبدیل ہو تے جا رہے ہیں اور یہ تبدیلی ہمکو ہمیشہ کا عظیم سے عظیم جلال دلا تا ہے یہ جلال خدا وند کے ذریعہ ہی سے آیا ہے وہ رُوح ہے۔

زبُور 43

43 اے خدا ! ایک شخص ہے جو تیرا وفادار نہیں ہے۔ وہ شریر ہے اور جھو ٹ بولتا ہے۔
    اے خدا، میری وکا لت کر انصاف کر اور ثابت کر کہ میں حق پر ہوں۔
    مجھے اس شخص سے بچا لے۔
اے خدا ، توہی میری محفوظ جگہ ہے !
    توُ مجھے کیوں چھو ڑ بیٹھا ہے ؟
توُ نے مجھ کو یہ کیوں نہیں دکھایا
    کہ میں اپنے دشمنوں سے کیسے بچ نکلوں
اے خدا؟تُو اپنے نور اور اپنے سچ کو مجھ پر روشن ہو نے دے۔
    سچّائی اور تیرا نور مجھ کو راہ دکھا ئیں گے۔ وہ مجھے تیرے کوہ مقدّس پر تیرے مقدس گھر کو لے چلیں گے۔
میں تو خدا کی قربان گاہ کے پاس جا ؤں گا۔
    میں خدا کے پاس آؤں گا جو مجھے بہت شادماں کرتا ہے۔
اے خدا، اے میرے خدا!
    میں ستار بجا کر تیری ستائش کروں گا۔

میں اتنا دُکھی کیوں ہوں؟
    میں کیوں اتنا بے چین ہوں۔
مجھے خدا کے سہا رے کا انتظار کر نا چاہئے۔
    مجھے اب بھی اُس کی ستائش کا موقع ملے گا۔
    وہ مجھے بچا ئے گا۔

امثال 22:8-9

جو شخص دکھوں کا بیج بو تا ہے وہ مصیبت کی فصل کاٹے گا اور آخر میں جو دکھ اس نے دوسروں کو دیئے اسکی وجہ سے تباہ ہو جائے گا۔

ایک سخی شخص با فضل ہو گا کیوں کہ وہ اپنے کھا نے میں غریبوں کو شامل کرتا ہے۔

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

2007 by World Bible Translation Center