Print Page Options Listen to Reading
Previous Prev Day Next DayNext

The Daily Audio Bible

This reading plan is provided by Brian Hardin from Daily Audio Bible.
Duration: 731 days

Today's audio is from the NLT. Switch to the NLT to read along with the audio.

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
ایّوب 28-30

حکمت کي اہميت

28 “وہاں چاندی کي کان ہے جہاں لوگ چاندی پا تے ہیں ،
    وہاں ایسی جگہ ہے جہاں لوگ سونا پگھلا کر اسے خالص بناتے ہیں۔
لو ہا کو زمین سے باہر نکالا گیا ہے۔
    اور تانبوں کو چٹا نوں سے پگھلا یا گیا۔
مزدو ر لوگ گہری غاروں میں روشنی لے جا تے ہیں۔
    گھنے اندھیرے میں معد نیات تلاش کرتے ہیں۔
وہ لوگ معد نی پرت کے پیچھے چلتے ہو ئے کا فی گہرا ئی تک زمین کو کھود تے ہیں۔
    جہاں لوگ رہتے ہیں اس سے بہت دور وہ لوگ گہرا ئی میں جا تے ہیں جہاں کو ئی بھی کبھی نہیں گیا۔
    وہ زمین کے نیچے دوسرے لوگوں سے کا فی دور رسیو ں سے لٹکتے ہیں۔
زمین ، اناج پیدا کر تی ہے۔
    لیکن زمین کی سطح کے نیچے ایسا ہے
    جیسا کہ سبھی چیزیں آ گ سے پگھل گئی ہوں۔
زمین کے اندر نیلم ہے
    اور اس کے دھول میں خالص سونا ہے۔
کو ئی بھی پرندہ زمین کے نیچے کی را ہیں نہیں جانتا ہے۔
    نہ ہی کسی باز نے یہ اندھیرا راستہ دیکھا ہے۔
جنگلی جانور اس راہ پر نہیں چڑھتے
    اور نہ کو ئی شیر اس راستے پر چلا ہے۔
مزدور بے حد سخت چٹانوں کو کھو دتے ہیں
    اور وہ پہاڑو ں کو کھود ڈالتے ہیں اور اسے ننگا کر تے ہیں۔
10 مزدور چٹان کاٹ کر سرنگ بناتے ہیں۔
    وہ چٹان کے سبھی خزانو ں کو دیکھا کر تے ہیں۔
11 مزدور پانی کو روکنے کے لئے باندھ باندھا کر تے ہیں
    اور وہ لوگ چھپی ہو ئی چیزوں کو اوپر روشنی میں لا تے ہیں۔

12 “لیکن حکمت کہاں پائي جا سکتي ہے ؟
    اور ہم لوگ سمجھداری کو پانے کے لئے کہاں جا سکتے ہیں ؟
13 لوگ نہیں جانتے ہیں کہ حکمت کتنی قیمتی ہے۔
    زمین پر رہنے وا لے لوگ حکمت کو زمین میں کھود کر نہیں پا سکتے ہیں۔
14 سمندر کی گہرا ئی کہتی ہے، “مجھ میں حکمت نہیں ہے۔”
    سمندر کہتا ہے میرے ساتھ وہ حکمت نہیں ہے۔
15 حکمت کو سب سے زیادہ قیمتی سونا سے بھی خریدا نہیں جا سکتا ہے
    اور نہ دنیا میں اتنی زیادہ چاندی ہے کہ جس سے حکمت کو خریدا جا سکے۔
16 حکمت اوفیر کے سونے سے یا قیمتی سلیمانی پتھر سے
    یانیلموں سے خریدی نہیں جا سکتی ہے۔
17 حکمت سونا اور نگینہ سے زیادہ قیمتی ہے۔
    قیمتی سونے کے زیورسے حکمت کو خریدا نہیں جا سکتاہے۔
18 حکمت مونگے اور بلّور سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔
    حکمت یا قوت سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔
19 پکھراج اتنا قیمتی نہیں جتنا حکمت۔
    خالص سونے سے حکمت نہیں خریدی جا سکتی ہے۔

20 “تو پھر حکمت کہاں سے آتی ہے ؟
    ہم لوگ سمجھداری کو کہاں سے پا سکتے ہیں ؟
21 حکمت ہر ایک جاندار کے آنکھوں سے چھپی ہو ئی ہے۔
    یہاں تک کہ ہوا کے پرندے بھی حکمت کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
22 موت اور ہلاکت کہتی ہے ، “ہم نے حکمت کو نہیں پا یا ہے۔
    صرف اسکی افواہ ہمارے کا نو ں تک پہنچی ہے۔”

23 لیکن صرف خدا ہی حکمت تک پہنچنے کی راہ کو جانتا ہے۔
    صرف خدا ہی جانتا ہے حکمت کہاں رہتی ہے۔
24 خدا زمین کی انتہا تک دیکھ سکتا ہے۔
    اور وہ آسمان کے نیچے سبھی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے۔
25 خدا نے ہوا کو اپنی طاقت دی ہے۔
    اس نے طئے کیا کہ سمندر کو کتنا بڑا ہو نا چا ہئے۔
26 اور خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے کہاں بارش بھیجنا ہے
    اور بجلی کی گرج اور طوفان کو کہاں جانا ہے۔
27 اس وقت خدا نے حکمت کو دیکھا اور اس کے بارے میں سوچا۔
    خدا نے دیکھا حکمت کتنی قیمتی تھی اور اس نے اسے ثابت کیا۔
28 اور خد انے لوگو ں سے کہا، “خداوند کا خوف اور احترام کرو یہی حکمت ہے۔
    بُری باتیں نہ کرو یہی سمجھداری ہے۔”

ايّوب کا اپني بات جاري رکھنا

29 ایّوب نے اپنی کہانی جا ری رکھی اور کہا ،

“ کاش ! میری زندگی ویسی ہی ہو تی جیسے کچھ مہینے پہلے تھی،
    جس وقت خدا نے مجھ پر نظر رکھی تھی اور میرا خیال رکھا تھا۔
اس وقت خدا کی روشنی میرے سر کے اوپر چمکتی تا کہ میں اندھیرے میں چل سکوں۔
    خدا نے مجھے صحیح راستہ دکھا یا۔
میں ان دنوں کی آرزو کر تا ہوں ،جب میری زندگی کامیاب تھی
    اور خدا میرا قریبی دوست تھا۔ وہ دن تھے جب خدا کی خوشنو دی میرے گھر پر تھی۔
ایسے وقت کی میں آرزو کر تا ہوں، جب خدا قادر مطلق میرے ساتھ تھا ،
    اور میرے پاس میرے بچے تھے۔
اس وقت میری زندگی بہت اچھی تھی۔ میں اپنے پیرو ں کو مکھن سے دھو تا تھا
    اور میرے پاس بہت سارے عمدہ تیل تھے۔ [a]

“جب میں شہر کے پھاٹکوں کی طرف جا تا تھا
    اور شہر کے امراء کے ساتھ عوامی اجلاس کی جگہ پر بیٹھتا تھا ،
وہاں سبھی لوگ میری عزت کیا کر تے تھے۔ نوجوان لوگ جب مجھے دیکھتے تھے تو میری راہ سے ہٹ جا یا کر تے تھے۔
    اور عُمر رسیدہ لوگ میرے احترام میں کھڑے ہو جا تے تھے۔
لوگو ں کے قائدین بولنا بند کر دیتے تھے۔
    دوسرے لوگوں کو خاموش کرانے کے لئے اپنے ہا تھو ں سے اپنے منہ کو بند کر لیتے تھے۔
10 یہاں تک کہ کئی اہم امراء بھی جب وہ بولتے تھے تو اپنی آواز دھیمی کر لیتے تھے۔
    ہاں ! ایسا معلوم پڑتا تھا کہ ان کی زبانیں ان کے تالو سے چپک گئیں ہوں۔
11 جس کسی نے بھی مجھ کو بولتے سنا ، میرے بارے میں اچھی بات کہی۔
    جس کسی نے بھی مجھ کو دیکھا تھا میری تعریف کی تھی۔
12 کیونکہ میں نے غریب آدمی کی مدد کی جب بھی وہ مدد کے لئے پکارتا۔
    میں نے یتیموں کی مدد کی ، جس کے پاس اس کا خیال رکھنے وا لا کو ئی نہیں تھا۔
13 مجھ کو مرتے ہو ئے شخص کی دُعا ملی۔
    میں نے ان بیواؤں کی مدد کی اور ان کو خوش کیا۔
14 میں نے صداقت کو اپنے لباس کے طو ر پر پہنا۔
    انصاف میرا جبہ اور میرے عمامہ کی طرح تھا۔
15 میں اندھے کے لئے آنکھ تھا۔ میں ان کو وہاں لے گیا جہاں وہ جانا چا ہتا تھا۔
    میں لنگڑے لوگو ں کے لئے پیر تھا۔ میں ان لوگو ں کو وہا ں لے جا تا جہاں کہیں بھی وہ جانا چا ہتے تھے۔
16 غریبوں کے لئے میں باپ کے جیسا تھا۔
    میں اجنبیوں کی عدالت میں معاملات جیتنے میں بھی مدد کرتا تھا۔
17 میں نے شریر لوگو ں کی قوت کو کچل دیا
    اور معصوم لوگو ں کو ان سے بچا یا۔

18 “میں ہمیشہ سوچتا ہوں، میں ایک لمبی زندگی جیؤنگا
    اور اپنے خود کے گھر میں اپنے خاندان کے لوگوں کے بیچ مروں گا۔
19 میں نے سوچا کہ میں ایک ایسا درخت بناؤں گا جس کی جڑیں پانی میں پہنچیں گی
    اور جس کی شاخیں ہمیشہ شبنم سے بھیگیں گی۔
20 میں سوچتا ہوں کہ ہر نیا دن روشن ہو گا
    اور نئی اور پرُ جوش چیزوں سے بھرا ہو ا ہوگا۔ [b]

21 پہلے ، لوگ میری بات سنا کر تے تھے۔
    جب وہ میرے مشورے کے لئے انتظار کر تے تو خاموش رہتے تھے۔
22 میرے بولنے کے بعد ، ان لوگوں کے پاس جو میری بات سنتے تھے کچھ بھی بولنے کے لئے نہیں تھا۔
    میرے الفا ظ ان کے کانوں میں آہستہ آہستہ پڑتے۔
23 لوگ جیسے بارش کے منتظر ہو تے ہیں، ویسے ہی وہ میرے بولنے کے منتظر رہا کر تے تھے۔
    میرے لفظوں کو وہ ایسے پی جا یا کر تے تھے جیسے میرے الفاظ موسم بہار میں بارش ہو ں۔
24 میں ان کے ساتھ ہنستا تھا لیکن وہ لوگ مشکل سے یقین کر تے تھے۔
    میری مسکراہٹ کی وجہ سے ان لوگوں نے بہتر محسوس کیا۔
25 میں ان کا قائد ہو تے ہو ئے بھی ان لو گو ں کے ساتھ رہنا چا ہتا ہوں۔
    میں چھا ؤ نی میں ان کے گروہ کے ساتھ ایک بادشا ہ کی مانند تھا اور اس کو تسلی دیا کر تا تھا جو غمزدہ تھے۔

30 لیکن اب وہ لوگ جو عمر میں مجھ سے چھو ٹے ہیں میرا مذا ق اُڑا تے ہیں۔
    ان کے آبا ؤ اجداد اتنے نکمّے تھے کہ میں ان لوگو ں کو اپنی بھیڑو ں کی رکھوا لی کرنے وا لے کتّو ں کے ساتھ بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔
ان جوان لوگو ں کے باپ اتنے کمزور ہیں کہ وہ میری مدد نہیں کر سکتے۔
    ان کی طاقت انہیں چھوڑ دی۔
وہ لوگ مرے ہو ئے لوگو ں کی طرح ہیں۔ وہ لوگ بھو کے مر رہے ہیں کیونکہ کھانے کو کچھ نہیں ہے۔
    وہ ریگستان کی طرف بھا گے ، وہ لوگ اپنی غذ ا کے لئے سو کھی جڑوں کو کھو د رہے تھے۔
وہ ریگستان میں نمکین پو دو ں کو اکٹھا کر تے ہیں۔
    اور جھا ڑی دار درختوں کي بے مزہ جڑو ں کو کھا تے ہیں۔
وہ لوگ ، دوسرے لو گوں سے بھگا ئے گئے ہیں۔
    لوگ ان کے پیچھے ایسے چلاتے ہیں،جیسے چور کے پیچھے۔
ان لوگو ں کو خشک ندی کے تل میں ،
    پہاڑی دامن کے غاروں میں اور زمین کے شگا فوں میں رہنے کے لئے مجبور کیا۔
وہ جھاڑیوں کے بیچ غُراتے ہیں
    اور کانٹے دار جھاڑیوں کے نیچے ایک ساتھ اکٹھا ہوجا تے ہیں۔
وہ بیکار کے لوگو ں کا گروہ ہے جن کے نام تک نہیں ہیں۔
    ان کو اپنے ملک سے باہر کر دیا گیا تھا۔

“اب ان لوگو ں کے بیٹے آتے ہیں اور میری ہنسی اُڑانے کے لئے گیت گا تے ہیں۔
    میرا نام ان کے لئے بُرا سا لفظ بن گیا ہے۔
10 وہ سب جوان آدمی مجھ سے نفرت کر تے ہیں اور وہ مجھ سے دور کھڑے رہتے ہیں۔
    وہ سوچتے ہیں کہ وہ مجھ سے بہتر ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آتے ہیں اور میرے منھ پر تھوکتے ہیں۔
11 خدا نے میری کمان سے ڈوری کو لے لیا ہے اور مجھے کمزور بنا دیا ہے۔
    وہ جوان اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھتے ہیں بلکہ اپنے تمام غصّہ کے ساتھ میرے خلاف ہو جا تے ہیں۔
12 وہ میری داہنی طرف سے مجھ پر حملہ کر تے ہیں۔
    وہ میرے پاؤں کے لئے پھندا ڈالتے ہیں۔ میں قبضہ کے اندر آئے ہو ئے شہر کے جیسا محسوس کرتا ہوں۔
    وہ مجھ پر حملہ کرنے اور بر باد کرنے کے لئے میری دیواروں کے بر خلاف مٹی سے ڈھلوان چبوترے بناتے ہیں۔
13 وہ نو جوان میری راہ پر نظر رکھتے ہیں تا کہ میں بچ کر بھاگنے نہ پا ؤں۔
    وہ مجھے تباہ کرنے میں کامیاب ہو جا تے ہیں۔ وہ کسی کی مدد نہیں چاہتے ہیں۔
14 وہ لوگ دیوار میں سوراخ کر تے ہیں۔
    وہ لوگ اس سے بھاگتے ہو ئے آتے ہیں اور ٹوٹتی ہو ئی چٹان مجھ پر گر تی ہے۔
15 مجھ کو خوف جکڑ لیتا ہے۔جیسے ہوا چیزوں کو اُڑا لے جا تی ہے ،
    ویسے ہی وہ نو جوان میری عظمت کو اُڑا دیتے ہیں۔
    جیسے بادل غائب ہو جا تا ہے ویسے ہی میرا تحفظ غا ئب ہو جا تا ہے۔

16 “اب میری زندگی لگ بھگ ختم ہو چکی ، اور میں بہت جلد مر جا ؤں گا۔
    مصیبتوں کے دنو ں نے مجھے جکڑلیا ہے۔
17 میری تمام ہڈیاں رات کو دُکھتی ہیں
    اور وہ درد مجھے چِبانے سے کبھی نہیں رکتا ہے۔
18 میرے گریبان کو خدا بڑی قوّت سے پکڑ تا ہے ،
    وہ میرے کپڑو ں کا حُلیہ بگاڑ دیتا ہے۔
19 خدا نے مجھے کیچڑ میں پھینک دیا
    اور میں دھول و راکھ کی طرح ہو گیا۔

20 “اے خدا ! میں نے مدد کے لئے تجھ کو پکا را۔
    لیکن تُو کبھی جواب نہیں دیتا ہے۔
    میں کھڑا ہو تا ہوں اور دُعا کرتا ہوں مگر تُو مجھ پر توجہ نہیں دیتا۔
21 اے خدا ، تو میرے تیئں بہت بے رحم ہے
    تو اپنی طاقت میرے خلاف استعمال کر تا ہے۔
22 اے خدا ! تو مجھے تیز آندھی کے ساتھ اُڑا دیتا ہے۔
    تو مجھے طوفان کے بیچ پھینک دیتا ہے۔
23 میں جانتا ہو ں کہ تو مجھے میری موت کے پاس بھیج رہا ہے ،
    اس جگہ جو سبھی زندہ شخص کے لئے مقرر ہے۔

24 “لیکن یقیناً کو ئی بھی اس شخص کو جو تباہ ہو چکا ہے
    اور مدد کے لئے پکا رہا ہے۔ نقصان نہیں پہنچا ئے گا۔
25 اے خدا ! تُو تو یہ جانتا ہے کہ میں ان کے لئے رو یا جو مصیبت میں پڑے ہیں۔
    تُو تو یہ جانتا ہے کہ میرا دِل غریب لوگو ں کے لئے دُکھی رہتا تھا۔
26 لیکن جب میں اچھا ئی کا منتظر تھا تو اس کے بدلے میں بُری چیزیں آئيں۔
    جب میں روشنی کے لئے ٹھہرا تھا تو تاریکی آئی۔
27 میں اندرونی بے چینی میں مبتلا ہوں۔ میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں۔
    مصیبتیں کبھی رکتی ہی نہیں ہیں۔ اور مصیبت کے دن بس ابھی ہی شروع ہو ئے ہیں۔
28 میں بغیر کسی تسکین کے ہر وقت غمزدہ اور تکلیف میں ہو ں۔
    میں مجمع میں کھڑا ہو کر مدد کے لئے دُہا ئی دیتا ہوں۔
29 میں اکیلا ہی جنگلی کتّے
    اور ریگستان میں شُتر مرغ جیسا ہوں۔
30 میرا چمڑا کا لا ہو رہا ہے اور جھڑ رہا ہے۔
    میرا جسم بخار سے جل رہا ہے۔
31 اسی لئے میرے سِتارسے ماتم
    اور میری بانسری سے رونے کی آواز نکلتی ہے۔

۲ کرنتھیوں 2:12-17

پولس کی تروآس میں بے آرا می

12 میں ترآوس میں مسیح کی خوشخبری پہونچا نے گیا۔ خدا وند نے مجھے ایک سنہرا موقع دیا۔ 13 کیوں کہ میں اپنے بھا ئی ططس کو وہاں نہیں پا یا میرا دل بہت بے چین ہو گیا اس لئے میں لوگوں کو چھو ڑ کر مکدنیہ چلا گیا۔

مسیح کے ذریعے فتح

14 لیکن میں خدا کا شکر گزار ہوں کیوں کہ وہ ہمیشہ مسیح کے ذریعہ عظیم فتح دیتا ہے۔ خدا اپنے علم کو خوشبو کی طرح ہر جگہ ہمارے ذریعہ پھیلا تا ہے۔ 15 ہماری پیشکش خدا کے لئے ایسی ہے کہ ہم ان لوگوں کے درمیان مسیح کی خوشبو کی طرح ہیں جنہیں نجات ملی ہے اور ہلاک ہو گئے ہیں۔ 16 جو ہلاک ہو گئے ہیں ان کے لئے ہم موت کی بو ہیں۔ اور جو موت لا تی ہے اور جو نجات پا رہے ہیں ان کے لئے ہم زندگی کی خوشبو ہیں جو زندگی لا تی ہے۔لیکن اس طرح کے کام کر نے میں کون لا ئق ہے ؟ 17 ہم خدا کے خدا وند کو کسی فائدہ کے لئے کبھی فروخت نہیں کر تے جیسا کہ کئی لوگ کر تے ہیں لیکن ہم مسیح میں خدا کے سامنے خلوص سے کہتے ہیں۔ ان آدمیوں کی طرح کہتے ہیں جنہیں خدا نے بھیجا ہے۔

زبُور 42

دوسری کتاب

زبور 42-72

موسیقی کے ہدایت کا ر کے لئے مشکیل بنی قورح کے لئے

42 جیسے ہرنی پیاس سے پا نی کے جھرنوں کے لئے ترستی ہے۔
    ویسے ہی اے خدا ! میری روح تیرے لئے ترستی ہے۔
زندہ خدا کے لئے میری روح پیاسی ہے۔
    میں اس سے ملنے کے لئے کب تک آسکتا ہوں۔
دن رات میرے آنسو ہی میری خوراک ہيں۔
    ہر وقت میرے دشمن کہتے ہیں، “ تیرا خدا کہاں ہے ؟”
میرا دل اُگل دیتا ہے جب میں ان چیزوں کو یاد کرتا ہوں۔
    مجھے یاد ہے میں خدا کے گھر میں ہجو م کی رہنما ئی کرتا تھا۔
    ان لوگوں کے ساتھ خوشیوں بھرے ستائش کے نغمہ گا نا اور تقریب کا منانا مجھے یاد ہے۔

میں اتنا دُکھی کیوں ہوں؟
    میں اتنا پریشان کیوں ہوں؟
میں خدا کی مدد کا منتظر ہوں۔
    مجھے ا ب بھی اس کی حمد کا موقع ملے گا۔ وہ مجھے بچا ئے گا۔
اے میرے خدا ! میں بہت دُکھی ہوں۔
    اس لئے میں نے تجھے یردن کی وادی سے حرمون کی پہا ڑی سے اور مصفار کے کوہ سے پکا را۔
تیرے آبشا روں کی آوا ز سے گہراؤ گہراؤ ، کو پکا رتا ہے۔
    تیری سب موجیں اور لہریں مجھ پر سے گذر گئیں۔
اگر ہردن خداوند سچّی محبت دکھا ئے گا تو پھر میں رات میں اس کا گیت گا پا ؤں گا۔ میں اپنے زندہ خدا کی دعاء کر سکوں گا۔
میں اپنے خدا ، اپنی چٹان سے باتیں کر تا ہوں۔
    میں کہا کر تا ہوں، “ اے خداوند! تو نے مجھ کو کیوں بھلا دیا؟
    اے خدا ! تو نے مجھ کو یہ کیوں نہیں دکھا یا کہ میں اپنے دشمنوں سے کیسے بچ نکلوں۔”
10 میرے دشمن ہمیشہ میری توہین کر تے ہیں۔ اور مہلک گھونسے ما رتے ہیں جب وہ یہ پو چھتے ہیں، “ تیرا خدا کہاں ہے ؟”

11 میں اتنا دُکھی کیوں ہوں؟
    میں اتنا پریشان کیوں ہوں؟
میں خدا کے سہا رے کا منتظر رہوں گا۔
    مجھے اب بھی اُ س کی ستائش کر نے کا موقع ملے گا۔ وہ مجھے بچا ئے گا۔

امثال 22:7

امیر لوگ غریب لوگوں پر حکو مت کرتے ہیں۔ اور وہ شخص جو قرض لیتے ہیں وہ قرض دینے والے شخص کے خادم ہیں۔

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

2007 by World Bible Translation Center