Print Page Options Listen to Reading
Previous Prev Day Next DayNext

The Daily Audio Bible

This reading plan is provided by Brian Hardin from Daily Audio Bible.
Duration: 731 days

Today's audio is from the CSB. Switch to the CSB to read along with the audio.

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
دوم سموئیل 19:11-20:13

11 بادشاہ داؤد نے صدوق اور ابی یاتر کاہنوں کو خبر دی۔ داؤد نے کہا ، “یہوداہ کے قائدین سے بات کرو اور کہو ، ’ تم لوگ بادشاہ داؤد کو واپس اس کے محل میں لانے کے لئے آخری خاندانی گروہ کیوں ہو ؟ جو کچھ بھی سارے اسرائیل میں بادشاہ کو واپس لانے کے متعلق کہا جا رہا ہے بادشاہ تک یہ خبر پہنچ چکی ہے۔ 12 تم میرے بھا ئی ہو تم میرا خاندان ہو تو پھر تم آخر خاندانی گروہ بادشاہ کو واپس گھر لانے کے لئے کیوں ہو ؟ 13 اور عماسا سے کہا ، ’ تم میرے خاندان کا ایک حصہ ہو اگر میں تمہیں یوآب کی جگہ فوج کا سپہ سالار نہ بناؤں تو خدا مجھے سزا دے۔ ”

14 داؤد نے یہوداہ کے تمام لوگوں کے دلوں کو جیت لیا۔ اس لئے وہ لوگ ایک ساتھ راضی ہوگئے مانو کہ وہ لوگ ایک ہی آدمی تھے یہوداہ کے لوگوں نے داؤد کو خبر بھیجی۔ انہوں نے کہا ، “تم اور تمہارے سبھی خادم واپس آئے۔ ”

15 تب بادشاہ داؤد دریائے یردن پر آئے۔ یہوداہ کے لوگ بادشاہ سے ملنے اور اس کو دریائے یردن کے پار لے جانے کے لئے جلجال آئے۔

سمعی داؤد سے معافی چاہتا ہے

16 سمعی بنیمین کے خاندان کے گروہ کے جیرا کا بیٹا تھا۔ وہ بحوریم میں رہتا تھا۔سمعی نے بادشاہ داؤد سے ملنے کے لئے جلدی کی۔ سمعی یہودا ہ کے لوگوں کے ساتھ آیا۔ 17 تقریباً ۱۰۰۰ بنیمین کے خاندان کے گروہ کے سمعی کے ساتھ آئے ساؤل کے خاندان کا خادم ضیبا بھی آیا۔ ضیبا اپنے ۱۵ بیٹوں اور ۲۰ خادموں کو اپنے ساتھ لا یا یہ سبھی لوگوں دریا ئے یردن پر بادشا ہ داؤد سے ملنے کے لئے جلدی سے پہنچے۔

18 لوگ دریائے یردن کے پاربادشا ہ کے خاندان کو یہودا ہ واپس لانے میں اور جو کچھ بھی خواہش بادشا ہ کی تھی اسے کرنے میں مدد کر نے کیلئے گئے۔ جب بادشا ہ دریا پار کر رہا تھا جیرا کا بیٹا سمعی اس سے ملنے آگے آیا اس نے بادشا ہ کے سامنے تعظیم سے اپنے سر کو زمین کی طرف جھکا یا۔ 19 سمعی نے بادشا ہ سے کہا ، “میرے آقا ! میں نے جو قصور کیا ہے اس کے متعلق نہ سو چئے۔ میرے آقا و بادشا ہ اُن بُرے کا موں کو یاد نہ کریں جو میں نے اس وقت کیا جب آپ نے مجھے یروشلم میں چھوڑا تھا۔ 20 میں جانتا ہوں کہ میں نے گنا ہ کیا لیکن میں یوسف کے خاندان کا پہلا آدمی ہوں جو آپ سے ملنے آج یہاں آیا ہوں، میرے آقا و بادشاہ۔”

21 لیکن ضرویاہ کے بیٹے ابیشے نے کہا ، “ہمیں سمعی کو مار ڈالنا چا ہئے کیوں کہ اس نے خداوند کے چنے ہو ئے بادشا ہ کے خلاف بُری باتیں کیں۔”

22 داؤد نے کہا ، “ضرویاہ کے بیٹو مجھے تمہارے ساتھ کیا کرنا چا ہئے آج تم میرے خلاف ہو۔ کو ئی بھی آدمی اسرائیل میں مارا نہیں جا ئے گا۔ آج میں جانتا ہوں کہ میں اسرائیل کا بادشا ہ ہو ں۔”

23 تب داؤد نے سمعی سے کہا ، “تم نہیں مرو گے۔” بادشا ہ نے سمعی سے وعدہ کیا کہ وہ سمعی کو نہیں مارے گا۔

مفیبوست کا داؤد سے ملنا

24 ساؤل کا پو تا مفیبوست بادشاہ داؤد سے ملنے آیا۔ بادشا ہ کے یروشلم سے نکل کر واپس آنے تک کے عرصے میں مفیبوست نے اپنے پیروں کی پرواہ نہیں کی ، نہ ہی اپنی مونچھیں کتریں نہ ہی اپنے کپڑے دھو ئے۔ 25 جب مفیبوست یروشلم میں بادشا ہ سے ملا بادشا ہ نے کہا ، “مفیبوست ! جب میں یروشلم سے بھاگ گیا تو تم اس وقت میرے ساتھ کیوں نہیں گئے ؟ ”

26 مفیبوست نے جواب دیا ! میرے آقا و بادشا ہ میرے خادم نے مجھے بے وقوف بنایا۔ میں لنگڑا ہوں اس لئے میں نے اپنے خادم ضیبا سے کہا ، ’ جا ؤ گدھے پر زین ڈا لو تا کہ میں سوار ہو کر بادشا ہ کے ساتھ جا ؤں۔‘ 27 لیکن اس نے مجھے فریب دیا صرف وہ آپ کے پاس گیا اور میرے بارے میں بُری باتیں کہیں۔ لیکن میرے بادشاہ و آقا آپ خدا کے فرشتے کی مانند ہیں جو آپ مناسب سمجھیں وہ کریں۔ 28 آپ میرے باپ دادا کے سارے خاندان کو مارڈال سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ آپ نے مجھے ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونے کی اجازت دی جو کہ آپ کے میز پر کھا تے ہیں۔ اس لئے میں یہ حق نہیں رکھتا کہ بادشاہ سے کسی چیز کے متعلق شکایت کروں۔ ”

29 بادشاہ نے مفیبوست سے کہا ، “اپنے مسائل کے بارے میں اور کچھ مت کہو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تم اور ضیبا زمین کو تقسیم کر سکتے ہو۔ ”

30 مفیبوست نے بادشاہ سے کہا ، “میرے آقا و بادشاہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ آپ سلامتی سے گھر واپس آئے۔ ضیبا کو زمین لے لینے دیں۔

داؤد کا برزلی کو اپنے ساتھ یروشلم چلنے کو کہنا

31 جلعاد کا برزلی راجلیم سے آیا وہ بادشاہ داؤد کے ساتھ دریائے یردن کو آیا۔ وہ بادشاہ کے ساتھ اسے دریا کو پار کرانے کو گیا۔ 32 بر زلی بہت بوڑھا آدمی تھا۔ وہ ۸۰ سال کا بوڑھا تھا۔ اس نے بادشاہ کو کھانا اور دوسری چیزیں دیں جب داؤد محنایم میں ٹھہرا تھا۔ بر زلی نے ایسا اس لئے کیا کیوں کہ وہ دولت مند آدمی تھا۔ 33 داؤد نے بر زلی سے کہا ، “دریا کے پار میرے ساتھ آؤ۔ میں آپ کی دیکھ بھال کروں گا۔ آپ اگر میرے ساتھ یروشلم میں رہیں۔

34 لیکن برزلی نے بادشاہ سے کہا ، “کیا آپ جانتے ہیں میں کتنا بوڑھا ہوں ؟” کیا آپ سمجھتے ہیں میں آ پ کےساتھ یروشلم جا سکتا ہوں؟” 35 میں اسّی سال کا بو ڑھا ہوں اِتنا بو ڑھا ہوں کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا میں اتنا بوڑھا ہوں کہ جو کچھ بھی میں کھا تا پیتا ہوں اس کا مزہ نہیں لے سکتا۔ میں اتنا بوڑھا ہوں کہ آدمیوں اور عورتوں کے گانے کی آواز نہیں سن سکتا۔ آپ میرے ساتھ کیوں پریشان ہونا چاہتے ہیں ؟ 36 میں آپکی طرف سے اتنا عمدہ انعام کا مستحق نہیں ہوں۔ میں آپکے ساتھ دریائے یردن کے پار جانا چاہتا ہوں۔ 37 لیکن براہ کرم مجھے گھر واپس جانے دیں تاکہ میں اپنے شہر میں مر سکوں اور اپنے ماں باپ کی قبر کے پاس دفن ہو سکوں۔ لیکن یہاں کمہام آپ کا خادم ہوسکتا ہے۔ اس کو آپ اپنے ساتھ جانے دیں ، میرے آقا و بادشاہ آپ جو چاہیں اس کے ساتھ کریں۔ ”

38 بادشاہ نے جواب دیا ، “کمہام میرے ساتھ واپس جائے گا۔ میں آپ کے لئے اس کے ساتھ مہربانی کرونگا۔ میں آپ کے لئے کچھ بھی کروں گا۔ میں آپ کے لئے اس کے ساتھ مہربانی کروں گا۔ میں آپ کے لئے کچھ بھی کروں گا۔ ”

داؤد کا گھر واپس ہونا

39 بادشاہ نے بر زلی کو چنا اور دعا دی۔ بر زلی واپس گھر گیا اور بادشاہ اور اسکے تمام لوگ دریا کے پار گئے۔

40 بادشاہ نے دریائے یردن کو پار کیا اور جلجال گیا۔ کمہام اس کے ساتھ گیا۔ یہوداہ کے تمام لوگ اور اسرائیل کے آدھے لوگ داؤد بادشاہ کو دریا کے پار پہونچائے۔

اسرائیلی کی یہوداہ کے لوگوں سے نوک جھونک

41 تمام اسرائیلی بادشاہ کے پاس آئے۔ انہوں نے بادشاہ سے کہا ، “ہمارے بھا ئی یہوداہ کے لوگ آپ کو چرا کر لے گئے اور آپ کو اور آپ کے خاندان کو دریائے یردن کے پار آپ کے آدمیوں کے ساتھ لا ئے۔ کیوں ؟”

42 یہوداہ کے سب لوگوں نے اسرائیلیوں کو جواب دیا ، “کیو ں کہ بادشاہ ہمارا قریبی رشتہ دار ہے۔ تم ہم پر اس بات کے لئے غصہ کیوں کرتے ہو ؟” ہم نے بادشاہ کے خرچ پر کھانا نہیں کھا یا۔ بادشاہ نے ہمیں کوئی تحفے نہیں دیئے۔”

43 اسرا ئیلیوں نے جواب دیا ، “داؤد کے پاس ہمارے دس حصے ہیں۔ اس لئے داؤد پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے لیکن تم نے ہم لوگوں کو نظر انداز کیوں کیا ؟” وہ ہم لوگ تھے جو سب سے پہلے بادشاہ کو واپس لانے کی بات کی تھی۔”

لیکن یہوداہ کے لوگوں نے اسرائیلیوں کو بڑا بیہودہ جواب دیا۔ یہوداہ کے لوگوں کے الفاظ اسرائیلیوں کے الفاظ سے زیادہ سخت تھے۔

سبع کا اسرائیلیوں کو داؤد سے الگ کرنے کی راہ بتانا

20 اس جگہ پر بِکری کا بیٹا سبع نام کا ایک آدمی تھا وہ بُرا آدمی تھا۔ سبع بنیمین خاندان کے گروہ سے تھا۔ سبع نے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے لئے بِگل بجا یا۔ تب اس نے کہا ،

“ہم لوگوں کاداؤد میں کو ئی حصّہ نہیں ہے۔
    اور نہ ہی ہم لوگوں کی یسّی کے بیٹے میں کو ئی میراث ہے۔
اسرا ئیل ، سب کو ئی اپنے خیموں میں چلے چلو۔”

“اس لئے تمام اسرا ئیلیوں نے داؤد کو چھو ڑا اور بِکری کے بیٹے سبع کے ساتھ ہو ئے۔ لیکن یہوداہ کے لوگ اپنے بادشاہ کے ساتھ دریا ئے یردن سے یروشلم تک سارے راستے رہے۔

داؤد یروشلم اپنے گھر واپس گیا۔ داؤد نے گھر کی دیکھ بھال کے لئے اپنی دس بیویوں کو چھوڑا۔ داؤد نے ان عورتوں کو ایک خاص مکان میں رکھا۔ اس نے مکان کے اطراف پہرہ رکھا۔ عورتیں مرنے تک اس مکان میں تھیں۔ داؤد ان عورتوں کی دیکھ بھال کرتا اور انہیں کھانے کو دیتا تھا۔ لیکن وہ ان سے جنسی تعلقات نہیں کرتا تھا اور وہ عورتیں بیوہ کی طرح مرنے تک رہیں۔

بادشاہ نے عماسا سے کہا ، “یہوداہ کے لوگوں سے کہو کہ وہ تین دن میں مجھ سے ملیں اور تمہیں بھی یہاں رہنا چا ہئے۔”

تب عماسا یہوداہ کے لوگوں کو بلانے کے لئے گیا۔ لیکن بادشاہ نے جو وقت دیا تھا اس سے زیادہ وقت لیا۔

داؤد کا ابیشے کو سبع کو مارنے کے لئے کہنا

داؤد نے ابیشے سے کہا ، “ بِکری کا بیٹا سبع ابی سلوم سے زیادہ ہمارے لئے خطرناک ہے۔ اس لئے میرے خادموں کو لو اور سبع کا پیچھا کرو جلدی کرو اس سے پہلے کہ سبع قلعہ کی دیواروں کے اندر داخل ہو جا ئے۔ اگر سبع محفوظ شہروں میں داخل ہو جا ئے تو ہم اس کو نہ پا سکیں گے۔” اس لئے یو آب اور ابیشے یروشلم سے نکلے کہ بِکری کے بیٹے سبع کا پیچھا کریں۔ یو آب نے خود اپنے آدمیوں کو اور کریتوں اور فلسطینیوں کو اور دوسرے سپا ہیوں کو بھی لا یا تھا۔

یو آب کا عماسا کو مارڈا لنا

جب یوآب اور فوج جبعون کی بڑی چٹان تک آئے تو عماسا ان سے ملنے باہرآیا۔ یو آب اپنی وردی پہنے ہو ئے تھے۔ یو آب کے پاس کمر بند تھا اور اس کی تلوار نیام میں تھی۔ یو آب جب عماسا سے ملنے جا رہا تھا تو یو آب کی تلو ار نیام سے باہر گر گئی۔ یو آب نے تلوار اٹھا ئی اور اس کوہا تھ میں پکڑ لیا۔ یو آ ب نے عماسا سے پو چھا ، “آپ کیسے ہیں بھا ئی ؟” تب یو آب نے اپنے داہنے ہا تھ سے عماسا کی داڑھی پکڑ لیا اور اس کو چومتے ہوئے سلام کرنے جا رہا تھا۔ 10 عماسا نے تلوار کی طرف توجہ نہ کی جویو آب کے ( بائیں ) ہا تھ میں تھی۔ لہذا اسی وقت یو آب نے اپنی تلوار عماسا کے پیٹ میں گھونپ دی۔ عماسا کے اندرونی حصّے یعنی انتڑیاں باہر نکل کر زمین پر پڑے۔یو آب نے عماسا کو دوبارہ نہیں گھونپا۔ وہ ایک ہی وار میں مر چکا تھا۔

داؤد کے آدمی سبع کی تلاش جاری رکھتے ہیں

پھر یو آب اور اس کا بھا ئی ابیشے دوبارہ بِکری کے بیٹے سبع کا پیچھا کر تے ہیں۔ 11 یو آب کے سپا ہیوں میں سے ایک عماسا کے جسم کے پاس کھڑا رہا۔ نوجوان سپا ہی نے کہا ، “تم سبھی لوگ جو یو آب اور داؤد کا ساتھ دیتے ہو آگے بڑھو اور یو آب کا پیچھا کرو۔”

12 عماسا وہاں سڑک کے درمیان اپنے ہی خون میں پڑا ہوا تھا سبھی لوگ جسم کو دیکھ رہے تھے۔ اس لئے نوجوان سپا ہی نے عماسا کے جسم کو سڑک سے ہٹا کر میدان میں رکھ دیا۔ تب اس نے اس پر ایک کپڑاڈال دیا۔ 13 عماسا کی لا ش کو سڑک سے ہٹانے کے بعد تمام لوگ یو آب کے پیچھے ہو لئے اور وہ لوگ بِکر ی کے بیٹے سبع کا پیچھا کرنے کے لئے یو آب کے ساتھ ہو گئے۔

یوحنا 21

یسوع کا سات شاگردوں پر ظا ہر ہو نا

21 اس کے بعد یسوع نے پھر اپنے آپ کو تبر یاس کی جھیل کے پاس اپنے شاگردوں پر ظا ہر کیا وہ اس طرح کیا۔ چند شاگرد وہا ں جمع تھے جن میں شمعون پطرس، تو ما ،نتن ایل،جو قانا گلیل کا تھا اور زبدی کے دو بیٹے اور دوسرے دو شاگردتھے۔ شمعون پطرس نے کہا ، “میں مچھلی کے شکا ر پر جا رہا ہوں” دوسروں نے کہا، “ہم بھی تمہا رے ساتھ چلیں گے” پھر سب ملکر کشتی پر سوار ہوئے۔ اس رات انہوں نے کچھ بھی شکار نہ کیا۔

صبح یسوع کنا رے پر آکر کھڑے ہو گئے مگر شاگردوں نے پہچا نا نہیں کہ یہ یسوع ہے۔ تب یسوع نے شاگردوں سے کہا ، “دوستو کیا تم نے مچھلی کا شکا ر کیا؟” شاگردوں نے جواب دیا ، “نہیں”

یسوع نے کہا ، “اپنے جال کشتی کے دائیں جانب پھینکو اس طرف تمہیں مچھلیاں ملیں گی” چنانچہ شاگردوں نے ویسا ہی کیا پھر شاگردوں نے جال میں اتنی مچھلیا ں پائیں کہ اس جال کو کھینچ نہ سکے۔

تب اس شاگرد نے جو یسوع کو عزیز تھا پطرس سے کہا ، “یہ تو خداوند ہے” اور پطرس نے اس سے یہ کہتے ہو ئے سن کر کہ “وہ آدمی خدا وند ہے” اپنا کرتا کمر سے باندھ کر (پطرس کام کر نے کے لئے اپنے کپڑے اتار چکے تھے ) پانی میں کود پڑا دوسرے شاگرد کشتی میں سوار مچھلیوں کا جال کھینچتے ہو ئے آئے کیوں کہ وہ کنارے سے زیادہ دور نہ تھے صرف لگ بھگ سو گز کی دوری پر تھے۔ جب شاگرد کشتی سے باہر آئے تو انہوں نے کوئلوں کی آ گ دیکھی جس پر مچھلی اور روٹی رکھی ہو ئی تھی۔ 10 تب یسوع نے کہا ، “کچھ مچھلیاں جو تم ابھی پکڑے ہو لے آؤ۔”

11 شمعون پطرس کشتی میں جاکر مچھلیوں کے جال کو کنارے پر لے آیا جو بہت سی بڑی مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا جس میں تقریباً ۱۵۳ مچھلیاں تھیں اس کے با وجود وہ نہ پھٹا۔ 12 یسوع نے ان سے کہا ، “آؤ کھا نا کھا ؤ لیکن کو ئی بھی شاگرد نہ پو چھ سکا کہ وہ کون ہے ؟” وہ جان گئے کہ وہ خداوند ہے۔ 13 یسوع نے آکر انہیں روٹی اور مچھلی دی۔

14 یہ تیسرا موقع تھا جب یسوع مر کر جی اٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کے سامنے ظا ہر ہوا۔

یسوع کا پطرس سے گفتگو کر نا

15 جب وہ کھا نا کھا چکے تو یسوع نے شمعون پطرس سے کہا ، “اے یو حناّ کے بیٹے شمعون! کیا تو ان لوگوں سے زیا دہ مجھ سے محبت کر تا ہے ؟”پطرس نے جواب دیا ، “ہاں! اے خداوند تم جانتے ہو کہ آپ مجھے کتنے عزیز ہیں۔” تب یسوع نے پطرس سے کہا ، “میرے میمنوں کی دیکھ بھال کر۔”

16 دوبارہ یسوع نے پطرس سے کہا ، “اے یو حناّ کے بیٹے شمعون! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو ؟” پطرس نے جواب دیا ، “ہاں اے خدا وند تم جانتے ہو کہ میں تمہیں عزیز رکھتا ہوں۔” تب یسوع نے پھر پطرس سے کہا، “میری بھیڑوں [a] کی نگہبا نی کر۔”

17 تیسری مرتبہ یسوع نے پطرس سے پوچھا ، “اے یوحناّ کے بیٹے شمعون! کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو؟” “پطرس بہت رنجیدہ ہوا کیو ں کہ یسوع نے تین بار یہ پوچھا ، “کیا تم مجھے عزیز رکھتے ہو؟”پطرس نے کہا ، “اے خدا وندتم ہر بات جانتے ہو تم یہ بھی جاتے ہو کہ میں تمہیں عزیزرکھتا ہو ں۔ یسوع نے پطرس سے کہا ، “تو میری بھیڑوں کی نگہبانی کر۔ 18 میں تم سے سچ کہتا ہو ں جب تم جوان تھے اپنی کمر کس کر جہاں چاہتے جاتے تھے مگر جب تو بوڑھا ہو گا تو دوسرا آدمی تیری کمر کسے گا اور جہا ں تو نہ جا سکے گا وہا ں لے جائے گا۔” 19 یسوع نے ان باتو ں کے ذریعہ بتایا کہ پطرس کی کس قسم کی موت سے خدا کا جلا ل ظاہر ہوگا “اتنا کہہ کر اس نے کہا ، “میرے پیچھے آ۔”

20 پطرس نے پلٹ کر اس شاگرد کو پیچھے آتا ہوا دیکھا جس کو یسوع عزیز رکھتے تھے اور اس نے شام کے کھانے کے وقت اس کے سینہ پر سر رکھ کر پوچھا تھا! “خداوند آپ کا مخا لف کون ہوگا ؟” 21 جب پطرس نے دیکھا کہ وہ شاگرد پیچھے ہے تب یسوع سے پوچھا، “خداوند اس کا کیا حال ہوگا ؟”

22 یسوع نے جواب دیا، “ہو سکتا ہے میں آنے تک اسے رہنے دو ں لیکن تجھے اس سے کیا تو میرے پیچھے آ۔”

23 پس دوسرے بھا ئیوں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ یہ شاگرد جسے یسوع عزیز رکھتا ہے نہیں مریگا۔ لیکن یسوع نے ایسا نہیں کہا کہ وہ نہیں مریگا اس نے صرف یہی کہا ، “ہو سکتا ہے میرے آنے تک اسے رہنے دوں لیکن تجھے اس سے کیا۔”

24 یہ وہی شاگرد ہے جو ان باتوں کو کہتا ہے اور جس نے اسکو لکھا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اسکا کہنا سّچا ہے۔

25 اور کئی کام ہیں جو یسوع نے کئے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر بات کو لکھا جائے تو ساری دنیا بھی ان ساری کتابوں کے لئے جسے لکھی جا ئے نا کا فی ہو گی۔

زبُور 120

ہیکل کو جا تے وقت گانے کانغمہ

120 میں مُصیبت میں پڑا تھا،
    سہا را پا نے کے لئے میں نے خداوند کو پُکا را اور اُس نے مجھے بچا لیا۔
اے خداوند ! مجھے تُو اُن لوگوں سے بچا لے
    جنہوں نے میرے با رے میں جھُوٹ بولا ہے۔

دروغ گو! کیا تم جانتے ہو کہ تم کیا پا ؤگے ؟
    تمہا رے جھوُ ٹ سے تمہیں کیا حا صل ہو گا ؟
تمہیں سزا دینے کے لئے خدا ، سپا ہی کے تیز تیر
    اور دہکتے ہو ئے انگا رے کام میں لا ئے گا۔

اے دروغ گو! تمہا رے قریب رہنا۔ یہ ایسا ہے جیسے کہ مسک کے ملک میں رہنا۔
    یہ ایسا ہے جیسے قیدار کے خیموں میں رہنا ہے۔
جو امن کے دُشمن ہیں
    ایسے لوگوں کے ساتھ میں بہت دن رہا ہوں۔
میں نے یہ کہا تھا ، مجھے امن چاہئے
    کیوں کہ وہ لوگ جنگ چاہتے ہیں۔

امثال 16:16-17

16 دانائی سونے سے زیادہ قیمتی ہے اور سمجھداری چاندی سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔

17 ایمان دار لوگ برائی سے دور رہکر زندگی بسر کر تے ہیں۔ اور وہ شخص جو اپنی راہ کی نگہبانی کرتا ہے گو یا اپنی زندگی کی نگہبانی کرتا ہے۔

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

2007 by World Bible Translation Center