Beginning
ایلیاہ اور بعل کے نبی
18 تیسرے سال کے دوران بارش نہیں ہوئی خدا وند نے ایلیاہ سے کہا ، “جاؤ بادشاہ اخی اب سے ملو۔ میں جلد ہی بارش بھیجوں گا۔” 2 اس لئے ایلیاہ اخی اب سے ملنے گیا۔
اس وقت سامر میں کھانا نہیں تھا۔ 3 اس لئے بادشاہ اخی اب نے عبد یاہ سے کہا میرے پاس آؤ۔عبدیاہ بادشاہ کے محل کا نگراں کار تھا۔( عبدیاہ خداوند کا سچا ماننے وا لاتھا۔ 4 ایک بار اِیز بل خداوند کے تمام نبیو ں کو مار رہی تھی اس لئے عبدیاہ نے ۱۰۰ نبیوں کو لیا اور انہیں دو غاروں میں چھپا یا عبدیاہ نے ۵۰ نبیوں کو ایک غار میں اور ۵۰ کو دوسرے غار میں رکھا پھر عبدیاہ ان کے لئے کھانا اور پانی لا یا۔) 5 بادشاہ اخی اب نے عبدیاہ سے کہا ، “میرے ساتھ آؤ ہم ہر چشمے اور نالے پر دیکھیں گے شاید کہ ہمیں کہیں گھاس مل جا ئے تا کہ ہمارے گھو ڑے اور خچّر زندہ رہیں۔ پھر ہمیں اپنے جانورو ں کو نہیں مارنا پڑے گا۔” 6 ہر آدمی نے ملک کا ایک حصہ چُنا جہاں وہ پانی کو ڈھونڈ سکے۔ تب دو آدمی پو رے ملک میں گھو مے۔ اخی اب ایک طرف خود گیا اور عبد یاہ دوسری طرف گیا۔ 7 جب عبدیاہ سفر کر رہا تھا وہ ایلیاہ سے ملا عبدیاہ نے ایلیاہ کو پہچان لیا۔ عبدیاہ ایلیاہ کے سامنے جھک گیا اس نے کہا ، “ایلیاہ ؟ کیا یہ آپ ہیں آقا ؟”
8 ایلیاہ نے جواب دیا ، “ہاں یہ میں ہو ں جاؤ اور اپنے آقا بادشاہ سے کہو کہ میں یہاں ہوں۔”
9 تب عبدیاہ نے کہا ، “اگر میں اخی اب سے کہتا ہوں کہ میں جانتا ہوں تم یہاں ہو تو وہ مجھے مار ڈا لے گا میں نے تمہا رے ساتھ کو ئی بُرا ئی نہیں کی تم مجھے کیو ں مروا دینا چاہتے ہو؟” 10 میں خداوند کی حیات کی قسم کھا تا ہوں بادشاہ تمہیں ہمیشہ تلاش کر رہا ہے۔ اس نے لوگو ں کو تمہیں تلاش کرنے کے لئے ہر ملک میں بھیجا ہے۔ اگر ملک کا حاکم کہتا ہے کہ تم اس کے ملک میں نہیں ہوتو اخی اب حاکم کو قسم کھلواتا ہے یہ کہنے کے لئے کہ تم اس ملک میں نہیں تھے۔ 11-12 اب تم چاہتے ہو کہ میں جا ؤں اور اسے کہوں کہ تم یہاں ہو۔ تب خداوند تمہیں کسی دوسری جگہ لے جا سکتا ہے۔ بادشاہ اخی اب یہاں آئے گا اور وہ تمہیں نہ پا سکے گا۔ اور وہ مجھے مار ڈا لے گا۔ میں جس وقت بچہ تھا تب سے ہی خداوند کا کہا مانتا ہوں۔ 13 میں نے جو کیا تم نے سُنا ایز بل خداوند کے نبیوں کو جا ن سے ما ر رہا تھا۔ اور میں نے ۱۰۰ نبیو ں کو غار میں چھپایا۔ میں نے ۵۰ نبیوں کو ایک غار میں رکھا اور ۵۰ نبیوں کو دوسرے غار میں رکھا۔ میں اُن کے لئے غذا اور پانی لا یا۔ 14 ا ب تم چاہتے ہو کہ میں جا کر بادشاہ سے کہوں کہ تم یہاں ہو۔ بادشاہ مجھے مار ڈا لے گا۔”
15 ایلیاہ نے جواب دیا ، “میں خداوند کی زندگی کی قسم کھا تا ہوں جس کی میں خدمت کرتا ہوں کہ میں بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوں گا۔”
16 اس لئے عبدیاہ بادشاہ اخی ا ب کے پاس گیا اس نے بتا یا کہ ایلیاہ وہاں ہے تو بادشاہ اخی اب ایلیاہ سے ملنے گئے۔
17 جب اخی اب نے ایلیاہ کو دیکھا تو کہا ، “کیا یہ تم ہو ؟ تم وہ آدمی ہو جس نے اسرائیل کو مصیبت میں ڈا لا۔”
18 ایلیاہ نے جوا ب دیا ، “میں اسرا ئیل کی مصیبت کا سبب نہیں ہوں۔ تم اور تمہا را باپ اس مصیبت کا سبب ہو تم مصیبت کا سبب بنے جب تم نے احکام خداوند کی اطاعت رو ک دی اورجھو ٹے خدا ؤں کو ماننا شروع کیا۔ 19 اب تمام اسرائیل سے کہو کہ مجھ سے کرمل کی چوٹی پر ملیں۔ اور اس جگہ پر بعل کے ۴۵۰ نبیوں کو لا ؤ۔ اور جھو ٹی دیوی آشیرہ کے ۴۰۰ نبیو ں کو وہاں لا ؤ جو ملکہ ایز بل کے ٹیبل پر ہر دن کھا تے ہیں۔”
20 اس لئے اخی اب نے تمام اسرائیلیوں اور ان نبیوں کو کرمل کی چوٹی پر بلا یا۔ 21 ایلیاہ ان لوگو ں کے پاس آیا۔ اس نے کہا ، “تم لوگ کب یہ فیصلہ کرو گے کہ تمہیں کس کی اطاعت کرنی چا ہئے ؟ اگر خداوند ہی سچا خدا ہے تو تمہیں اس کی اطاعت کرنی چا ہئے۔ لیکن اگر بعل سچا خدا ہے تو تمہیں اس کی اطاعت کرنی چاہئے۔”
لوگوں نے کچھ نہیں کہا۔ 22 اس لئے ایلیا ہ نے کہا ، “یہاں صرف میں ہی خداوند کا نبی ہو ں لیکن یہاں بعل کے ۴۵۰ نبی ہیں۔ 23 اس لئے دوسانڈ لا ؤ۔ بعل کے نبی ایک سانڈ لیں اور اس کو ذبح کرکے ٹکڑے ٹکڑے کریں پھر گوشت کو لکڑی پر رکھیں۔ لیکن جلنے کیلئے آ گ نہ لگاؤ۔ دوسرے سانڈ کو لے کر میں بھی ایسا ہی کرو ں گا۔ اور میں بھی آ گ نہیں لگاؤ ں گا۔ 24 اے بعل کے نبیو اپنے دیوتاسے دعا کرو۔ اور جس کی بھی لکڑیاں جلنی شروع ہو جا ئیں وہی سچا خدا ہے۔”
تمام لوگو ں نے اس کو قبول کیا کہ یہ ایک اچھا خیال ہے۔
25 تب ایلیاہ نے بعل کے نبیوں سے کہا ، “تم بہت سارے ہو اس لئے تم پہلے جا ؤ سانڈ کو چن کر تیار کرو لیکن آ گ جلانی شروع نہ کرو۔”
26 پھر نبیوں نے ا س سانڈ کو لیا جو انہیں دیا گیا تھا اور اسے تیار کیا۔ پھر وہ لوگ بعل سے دوپہر تک دعا کئے لیکن نہ کو ئی آواز تھی اور نہ ہی کسی نے جواب دیا۔ نبیوں نے اپنی بنائی ہو ئی قربان گاہ کے اطراف ناچ کئے لیکن آ گ نہیں جلی۔
27 دوپہر میں ایلیاہ نے ان کا مذاق اڑا یا۔ ایلیاہ نے کہا ، “اگر بعل حقیقت میں دیوتا ہے تو تب تمہیں بلند آواز سے دعا کرنی ہو گی۔ ہو سکتا ہے وہ سوچ رہا ہو۔ یا پھر وہ مصروف ہو۔ یا ہو سکتا ہے وہ سفر کر رہا ہو۔ وہ سو رہا ہو گا۔ یا ہو سکتا ہے تم بلند آواز سے دعا کرو تو وہ جاگ جا ئے۔” 28 اس لئے نبیوں نے اونچی آواز سے دعائیں کیں وہ لوگ اپنے آپکو تلواروں اور بھالوں سے گھائل کر لئے۔( یہ انکی عبادت کا طریقہ تھا۔) ان لوگوں نے اپنے آپ کو اس قدر گھا ئل کر لیا کہ خون بہنے لگا۔ 29 دوپہر کا وقت گذر گیا لیکن آ گ ابھی تک شروع نہ ہو ئی تھی۔ نبی اس وقت تک جنگلی حرکتیں کرتے رہے۔ جب تک شام کی قربانی کا وقت نہ آ گیا لیکن بعل کی طرف سے کو ئی جواب نہ تھا۔ کو ئی آواز نہ تھی کو ئی بھی نہیں سُن رہا تھا۔
30 تب ایلیاہ نے تمام لوگوں سے کہا ، “اب میرے پاس آؤ اس لئے سب لوگ ایلیاہ کے اطراف جمع ہو ئے۔خداوند کی قربان گا ہ اکھاڑ دی گئی تھی۔” اس لئے ایلیاہ نے اس کو ٹھیک کیا۔ 31 ایلیاہ نے بارہ پتھر حاصل کئے۔ ایک پتھر ہر بارہ خاندانی گروہ کے لئے تھا۔ یہ بارہ خاندانی گروہ کانام یعقوب کے بارہ بیٹوں کے نام سے تھے۔ یعقوب وہ آدمی تھا۔ جسے خداوند نے اسرائیل نام دیا تھا۔ 32 ایلیاہ نے قر بان گاہ کو بنا نے کے لئے اور خداوندکی تعظیم کے لئے ان پتھروں کو استعمال کیا۔ ایلیاہ نے ایک چھوٹا خندق قربان گا ہ کے اطراف کھو دا۔ جو اتنا گہرا اور چوڑاتھا کہ اس میں ۷ گیلن پانی سما سکتا تھا۔ 33 تب ایلیاہ نےقربان گا ہ پر لکڑیاں رکھیں اس کے سانڈ کو کاٹ کر ٹکڑے کئے اور ٹکڑوں کو لکڑی پر رکھا۔ 34 تب ایلیاہ نے کہا ، “چار مرتبان پانی بھرو۔ پانی کو گوشت کے ٹکڑو ں اور لکڑی پر ڈا لو۔” پھر ایلیاہ نے کہا ، “دوبارہ کرو۔” پھر اس نے کہا ، “تیسری بار کرو۔” 35 پانی قربان گا ہ سے بہنے لگا اور کھا ئی بھر گئی۔
36 یہ وقت دوپہر کی قربانی کا تھا اس لئے نبی ایلیاہ قربان گا ہ کے قریب گیا اوردعا کی ، “خداوند خدا ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کے خدا میں اب تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو یہ ثابت کر کہ میں تیرا خاد م ہوں۔ ان لوگو ں کو بتاؤ کہ تو نے مجھے یہ سب چیزیں کرنے کے لئے حکم دیا ہے۔ 37 خداوند میری دعا کو سن لے۔ ان لوگو ں کو بتا ؤ کہ تم خداوند خدا ہو تب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ تم انہیں اپنی طرف لا رہے ہو۔ ”
38 اس لئے خداوندنے آ گ بھیجی۔ آ گ نے قربانی کے نذرانے کو ، لکڑی کو ، پتھر کو اور قربان گا ہ کے اطراف کی زمین کو جلا یا۔ آگ نے خندق کے اندر کے پانی کو خشک کردیا۔ 39 تمام لوگو ں نے اس واقعہ کو دیکھا تمام لوگ زمین پر جھک گئے اور یہ کہنا شروع کئے ، “خداوند خدا ہے ! خداوند خدا ہے۔”
40 تب ایلیاہ نے کہا ، “بعل کے نبیو ں کو پکڑو ان میں سے کسی کو بھی فرار ہو نے نہ دو۔ ” اس لئے لوگوں نے تمام نبیوں کو پکڑ لیا۔ تب ایلیاہ نے ان سب کو قیسون کے نالے تک لے گیا ا س جگہ پر اس نے سب نبیوں کو مار ڈا لا۔
دوبارہ بارش کا آنا
41 تب ایلیاہ نے بادشاہ اخی اب سے کہا ، “اب جا ؤ کھا ؤ اور پیو۔ موسلا دھار بارش آرہی ہے۔” 42 اس لئے بادشاہ اخی اب کھانے کے لئے گیا۔ اسی وقت ایلیاہ کرمل کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ چوٹی کے اوپر ایلیاہ جھک گیا اس نے اپنا سر گھٹنو ں میں ڈا ل دیا۔ 43 تب ایلیاہ نے اپنے خادم سے کہا، “سمندر کی طرف دیکھو۔”
خادم اس جگہ پر گیا جہاں سے سمندر دکھا ئی دے سکے پھر خادم واپس آیا اور کہا ، “میں نے کچھ نہیں دیکھا۔” ایلیاہ نے کہا ، “جا ؤ دوبارہ دیکھو۔” ایسا سات مرتبہ ہوا۔ 44 ساتویں بار خادم واپس آیا اور کہا ، “میں نے ایک چھوٹا سا بادل دیکھا جو آدمی کی مٹھی کے برا بر ہے۔سمندر سے آرہا تھا۔ ”
ایلیاہ نے خادم سے کہا ، “بادشاہ اخی اب کے پاس جا ؤ اور اس کو کہو کہ رتھ لے اور اپنے گھر کی طرف چلے جا ئیں۔ اگر ابھی وہ نہیں نکلے گا تو بارش اس کو روک دے گی۔”
45 تھوڑی ہی دیر بعد آسمان کالے بادلوں سے ڈھک گیا تیز ہوائیں چلنے لگیں اور زوردار بارش شروع ہو ئی۔ اخی اب اس کی رتھ میں سوار ہوا اور یزر عیل کی طرف واپس سفر کیا۔ 46 خدا وند کی طاقت ایلیاہ کے اندر آئی۔ ایلیاہ نے اپنے کپڑوں کو اپنے چاروں طرف کس لیا پھر دوڑنے لگا۔ تب ایلیاہ بادشاہ اخی اب سے دور یزر عیل کے راستے پر دوڑا۔
ایلیاہ سینا ئی کی چوٹی پر
19 بادشاہ اخی اب نے ایز بل سے تمام باتیں کیں جو ایلیاہ نے کیں اخی اب نے اس کو کہا کہ کس طرح ایلیاہ نے تمام نبیو ں کو تلوار سے مار ڈا لا۔ 2 اس لئے ایز بل نے قاصد کو ایلیاہ کے پا س بھیجا ایز بل نے کہا ، “میں وعدہ کرتی ہوں کل اس وقت سے پہلے میں تمہیں مار ڈا لو ں گی جس طرح تم نے ان نبیوں کو مار ڈا لا۔ اگر میں کامیاب نہ ہو ئی تو دیوتا مجھ کو مارڈالیں۔”
3 جب ایلیاہ نے یہ سنا وہ ڈر گیا اس لئے اپنی جان بچانے کے لئے بھا گا۔اس نے اپنے خادم کو بھی لے گیا۔وہ بیر سبع یہوداہ کو گئے۔ایلیاہ نے اپنے خادم کو بیر سبع میں چھوڑا۔ 4 پھر ایلیاہ سارا دن صحرا میں چلتا رہا۔ ایلیاہ ایک جھاڑی کے نیچے بیٹھ گیا۔اس نے اپنے لئے موت مانگی۔ایلیاہ نے کہا ، “ میں بہت زندہ رہا مجھے مرنے دو میں اپنے باپ دادا سے اچھا نہیں ہوں۔”
5 تب ایلیاہ درخت کے نیچے لیٹ گیا اور سو گیا۔ ایک فرشتہ ایلیاہ کے پاس آیا اور اس کو چھوا۔ فرشتہ نے کہا ، “اٹھو کھا ؤ۔” 6 ایلیاہ نے دیکھا اس کے بہت قریب کوئلہ پر پکا ہوا کیک اور مرتبان میں پانی ہے۔ ایلیاہ نے کھا یا اور پیا پھر وہ دوبارہ سونے گیا۔
7 بعد میں خدا وند کا فرشتہ دوبارہ اس کے پاس آیا۔اسکو چھوا اور کہا، “اٹھو کھا ؤ ! اگر نہیں کھا ؤ گے تو لمبے سفر کے لئے قوّت نہ رہے گی۔ 8 اس لئے ایلیاہ اٹھا وہ کھا یا اور پیا۔ اس غذا کی قوت سے وہ چالیس دن اور چالیس رات چلا۔ وہ حوریب کی پہاڑی تک گیا جو خدا کی پہاڑی ہے۔ 9 وہاں ایلیاہ ایک غار میں گیا اور ساری رات ٹھہرا رہا۔
تب خدا وند نے ایلیاہ سے کہا ، “ایلیاہ تم یہاں کیوں ہو ؟”
10 ایلیاہ نے جواب دیا ، “اے خدا وند خدا قادر مطلق ، میں نے ہمیشہ تیری خدمت کی ہے۔ میں نے ہر ممکن تیری سب سے اچھی خدمت کی ہے۔ لیکن بنی اسرائیلیوں نے تمہارے ساتھ معاہدہ توڑ دیا۔ انہوں نے تمہاری قربان گاہ کو تباہ کیا انہوں نے نبیوں کو مار ڈا لا۔ صرف میں ہی ایک نبی ہو ں اور اب وہ مجھے مارڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔”
11 تب خدا وند نے ایلیاہ سے کہا ، “جاؤ میرے سامنے پہاڑ پر کھڑے رہو میں تمہارے بغل سے نکلوں گا۔” پھر ایک بہت تیز ہوا چلی اس تیز ہوا نے پہا ڑوں کو توڑا بڑی چٹانوں کو خدا وند کے سامنے توڑ ڈالا۔ لیکن اس ہوا میں خدا وند نہیں تھا۔ اس ہوا کے بعد ایک زلزلہ آیا لیکن اس زلزلہ میں بھی خدا وند نہیں تھا۔ 12 زلزلہ کے بعد آگ آئی تھی لیکن اس آگ میں بھی خدا وند نہیں تھا۔ آ گ کے بعد وہاں خاموشی اور دھیمی آواز تھی۔
13 جب ایلیاہ نے آواز کو سُنا تو اس نے کوٹ سے اپنا چہرہ ڈھانک لیا۔ تب وہ گیا اور غار کے منھ پر کھڑا ہوا۔تب ایک آواز نے اس کو کہا ، “ایلیاہ تم یہاں کیوں ہو ؟”
14 ایلیا ہ نے کہا ، “خداوندخدا قادر مطلق جتنا مجھ سے بہتر ہو سکا میں نے ہمیشہ تیری خدمت کی لیکن بنی اسرائیلیوں نے تیرے ساتھ معاہدہ کو توڑا انہوں نے تیری قر بان گاہوں کو برباد کیا۔ انہوں نے تیرے نبیو ں کو مار ڈا لا صرف میں ایک نبی زندہ رہ گیا ہوں اور اب وہ مجھے مارڈا لنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
15 خداوندنے کہا ، “واپس ا س سڑک پر جا ؤ جو دمشق کے اطراف کے ریگستان کو جا تی ہے۔ دمشق کو جا ؤ اور حزائیل کو ارام کے بادشاہ کی حیثیت سے مسح کرو۔ 16 پھر نمسی کے بیٹے یا ہو کا بحیثیت اسرائیل کے بادشاہ کے مسح کرو۔ پھر ا بیل محولہ کے سافط کے بیٹے الیشع کا مسح کرو وہ نبی ہو گا اور تمہا ری جگہ لے گا۔ 17 حزا ئیل کئی بڑے لوگو ں کو مار ڈا لے گا۔ یا ہو ہر اس آدمی کو مار ڈا لے گا جو حزا ئیل کی تلوار سے بھا گے گا۔ اور الیشع ہر اس آدمی کو مار ڈا لے گا جو یا ہوکی تلوار سے بھا گے گا۔ 18 ( ایلیاہ ! صرف تم ہی اسرائیل میں وفادار آدمی نہیں ہو۔) وہ آدمی کئی آدمیوں کومار ڈا لیں گے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ۷۰۰۰ لوگ اسرائیل میں رہیں گے جو بعل کے آگے نہیں جھکے گی۔ ان ۷۰۰۰ آدمیوں کو زندہ رہنے دوں گا اور ان لوگوں میں کسی نے بھی بعل کو کبھی نہیں چوما۔ ”
ایلیاہ کا نبی ہو نا
19 اس لئے ایلیاہ اس جگہ کو چھو ڑا اور سافط کے بیٹے الیشع کو دیکھنے چلا گیا۔الیشع بارہ جو ڑا بیلوں سے کھیت جوت رہا تھا۔ اور وہ خود بارہواں جو ڑا کو ہانک رہا تھا۔ایلیاہ الیشع کے پاس گیا۔اور اپنا کوٹ الیشع پر رکھا۔ 20 الیشع فوراً اپنے بیلوں کو چھو ڑا اور ایلیاہ کے پیچھے بھا گا الیشع نے کیا کہا ، “مجھے اپنی ماں اور باپ کا وداعی بوسہ لینے دو پھر میں تمہارے ساتھ آؤں گا۔”
ایلیاہ نے جواب دیا “ٹھیک ہے جاؤ ! میں تمہیں روکنا نہیں چاہتا۔”
21 تب الیشع نے خاص کھانا اپنے خاندان کے ساتھ کھا یا۔ الیشع گیا اور اپنے دونوں بیلوں کو ذبح کیا۔ اس نے ہل چلانے کے جوا کو جلانے کے لئے استعمال کی اور گوشت کو اُبالا پھر اس نے لوگوں کو دیا اور انہوں نے گوشت کھا یا۔ پھر الیشع ایلیاہ کے ساتھ جانے لگا۔ الیشع تب ایلیاہ کا مدد گار بن گیا۔
بن ہدد اور اخی اب کا جنگ پر جانا
20 بن ہدد ارام کا بادشاہ تھا۔ اس نے ایک ساتھ اپنی فوج کو جمع کیا اس کے ساتھ ۳۲ بادشاہ تھے۔ ان کے پاس گھوڑے اور رتھ تھے۔ انہوں نے سامر یہ پر حملہ کیا اور اس کے خلاف لڑے۔ 2 بادشاہ نے قاصدوں کو اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کے شہر کو بھیجا۔ 3 پیغام یہ تھا ، “بن ہدد کہتا ہے ، ’ تمہیں اپنا سونا اور چاندی مجھے دینا چاہئے تمہیں اپنی بیویوں اور بچوں کو بھی مجھے دینا چاہئے۔”
4 اسرائیل کے بادشاہ نے جواب دیا ، “بادشاہ میرے آقا ! میں اور میرا سب کچھ تیرے ماتحت ہے۔” 5 تب قاصد واپس اخی اب کے پاس آئے انہوں نے کہا ، “بن ہدد کہتا ہے میں پہلے ہی تم کو کہہ چکا ہوں کہ تمہیں اپنا سارا چاندی ،سونا بیویوں اور بچوں کو مجھے دینا چاہئے۔ 6 کل میں اپنے آدمیوں کو تیرے مکان اور تیرے افسروں کے مکانوں کی تلاشی کے لئے بھیج رہا ہوں۔ تمہیں میرے آدمیوں کو اپنا تمام قیمتی اثاثہ دینا ہوگا اور وہ سب چیزیں میرے پاس واپس لائیں گے۔”
7 اِسی لئے بادشاہ اخی اب نے اس ملک کے سب بزرگوں ( قائدین ) کی مجلس طلب کی۔ اخی اب نے کہا ، “دیکھو بن ہد دمصیبت لانا چاہتا ہے پہلے اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے اس کو اپنی بیوی اور بچے ،سونا اور چاندی دینا چاہئے میں نے یہ دینا منظور کیا ( اور اب وہ ہر چیز لینا چاہتا ہے۔) ”
8 لیکن بزر گوں (قائدین ) اور تمام لوگوں نے کہا ، “اس کی فرمانبرداری مت کرو جو وہ کہتا ہے مت کرو۔”
9 اس لئے اخی اب نے پیغام بن ہدد کو بھیجا۔ اخی اب نے کہا ، “تم نے پہلے جو کہا وہ میں کروں گا۔ لیکن میں تمہارا دوسرا حکم نہیں مانوں گا۔”
بادشاہ بن ہدد کے آدمیوں نے بادشاہ تک پیغام لے گئے۔
10 پھر وہ بن ہدد کے دوسرے پیغام کے ساتھ واپس آئے پیغام میں کہا تھا ، “میں سامریہ کو بالکل تباہ کردونگا میں قسم کھاتا ہو کہ اس شہر میں کوئی چیز نہیں بچے گی۔ اگر میرے ہر ایک آدمی سامریہ کا مٹھی بھر دھول بھی لے تو ان سبھوں کے لئے یہ کافی نہ ہوگا۔ اگر یہ سچ نہ ہوتو میرے دیوتا مجھے تباہ کر دے۔”
11 بادشاہ اخی اب نے جواب دیا ، “بن ہدد سے کہو کہ سپاہی جنگ کے بعد شیخی بگھارتے ہیں نہ کہ جنگ سے پہلے۔”
12 بادشاہ بن ہدد دوسرے حاکموں کے ساتھ اپنے خیمہ میں پی رہا تھا۔ اس وقت قاصد آئے اور بادشاہ اخی اب کا پیغام دیا۔ بادشاہ بن ہدد نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ شہر پر حملہ کی تیاری کریں۔ اس لئے سب آدمی اپنی جگہوں سے جنگ کے لئے آگے بڑھے۔
13 اسی وقت ایک نبی بادشاہ اخی اب کے پاس گیا۔ نبی نے کہا ، “بادشاہ اخی اب خدا وند تم کو کہتا ہے کیا تم بڑی فوج کو دیکھتے ہو؟” میں خدا وند تم کو اجازت دیتا ہوں کہ آج تم اس فوج کو شکست دو تب تمہیں معلوم ہوگا کہ میں خدا وند ہوں۔”
14 اخی اب نے پوچھا ، “انہیں شکست دینے تم کس کو استعمال کرو گے ؟”
نبی نے جواب دیا ، “خدا وند کہتا ہے حکومت کے عہدیدار کے نوجوان عہدیداروں کو۔” تب بادشاہ نے پو چھا ، “پہلے حملہ کون کریگا ؟”
نبی نے جواب دیا ، “تم کروگے۔”
15 اس لئے اخی اب نے نوجوان حکومت کے عہدیداروں کو جمع کیا وہ ۲۳۲ نو جوان تھے پھر بادشاہ نے ایک ساتھ اسرائیل کی فوج کو بلایا جملہ تعداد ۰۰۰ ۷ تھی۔
16 دوپہر کو بادشاہ بن ہدد اور ۳۲ بادشاہ جو اس کی مدد کے لئے تھے اپنے خیموں میں پی کر مد ہوش تھے۔ اس وقت بادشاہ اخی اب کا حملہ شروع ہوا۔ 17 نو جوان مدد گاروں نے پہلے حملہ کیا۔ بادشاہ بن ہدد کے آدمیوں نے اس کو کہا کہ سپاہی سامر یہ کے باہر آئے ہیں۔ 18 پھر بن ہدد نے کہا ، “شاید وہ لڑ نے کے لئے آرہے ہیں یا پھر شاید صلح کرنے کے لئے آرہے ہیں لیکن انہیں کسی بھی حالت میں پکڑ لو۔
19 بادشاہ اخی اب کے نو جوان اسرائیلی فوجوں کے ساتھ ان لوگوں کے پیچھے حملہ کی رہنمائی کر رہے تھے۔ 20 لیکن اسرائیل کے ہر آدمی نے اس آدمی کو مارڈا لا جو اس کے خلاف سامنے آیا۔ اس لئے ارام کے آدمیوں نے بھاگنا شروع کیا۔ اسرائیل کی فوج نے ان کا پیچھا کیا۔ بادشاہ بن ہدد رتھ کے گھوڑے پر سوار ہوکر فرار ہو گیا۔ 21 بادشاہ اخی اب فوج کو لے کر آگے بڑھا اور تما م گھوڑوں اور رتھوں کو ارام کی فوج سے لے لیا۔ اس طرح بادشاہ اخی اب نے ارامی فوج کو زبردست شکست دی۔
22 تب نبی بادشاہ اخی اب کے پاس گیا اور کہا ، “ارام کا بادشاہ بن ہدد بسنت میں آپ کے خلاف لڑ نے دوبارہ آئیگا۔ اس لئے اب آپ کو گھر جانا ہوگا اور اپنی فوج کو طاقتور بنا نا ہوگا اور ہوشیاری سے اس کے خلاف دفاعی منصوبہ بنانا ہوگا۔ ”
بن ہدد کا دوبارہ حملہ
23 بادشا ہ بن ہد دکے افسروں نے اس کو کہا ، “اسرائیل کا دیوتا پہاڑوں کا دیوتا ہے۔ ہم پہاڑی علاقوں میں لڑے تھے۔ ا س لئے بنی اسرائیل جیت گئے۔ اس لئے ہم کو ان سے کھلی زمین پر لڑنے دو پھر ہم جیتیں گے۔ 24 تمہیں یہی کرنا چا ہئے۔۳۲ بادشاہوں کو حکم دینے کی اجازت نہ دو۔سپہ سالار کو ان کی فوجوں کوحکم دینے دو۔ 25 “اب تم تباہ شدہ فوج کی طرح فوج جمع کرو۔ اس فوج کی طرح گھوڑو ں اور رتھوں کو جمع کرو۔ پھر ہمیں اسرائیلیوں سے کھلی زمین پر لڑنے دو تب ہم جیتیں گے۔” بن ہدد ان کے مشوروں پر عمل کیا۔ اس نے وہی کیا جو انہوں نے کہا۔
26 اس لئے بہار کے موسم میں بن ہدد نے ارام کے لوگوں کو جمع کیا وہ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے افیق گیا۔
27 اسرائیلی بھی جنگ کے لئے تیار تھے۔ بنی اسرا ئیل ارامی فوج سے لڑنے گئے۔انہوں نے اپنا خیمہ ارامی خیمہ کے مقابل لگا یا۔ دشمنو ں کے موازنہ کرنے پر اسرائیل دوچھو ٹے بھیڑوں کے ریوڑ کی مانند دکھا ئی دیئے لیکن ارامی سپاہیوں نے سارا علاقہ گھیر لیا تھا۔
28 اسرائیل کے بادشاہ کے پاس ایک خدا کا آدمی اس پیغام کے ساتھ آیا : “خداوند نے کہا ، ’ ارامی لوگو ں نے کہا ، “میں خداوند، پہاڑیوں کا خدا ہو ں۔وہ سمجھتے ہیں کہ میں وادیوں کا خدا نہیں ہوں اس لئے میں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔ اس بڑی فوج کو شکست دو تب تم جان جا ؤ گے کہ میں خداوندہوں ( ہرجگہ میں )۔”
29 فوجو ں نے ایک دوسرے کے خلاف سات دن تک خیمے ڈا لے رہے۔ ساتویں دن جنگ شروع ہو ئی۔اسرائیلیوں نے ۰۰۰,۱۰۰ ارامی سپاہیوں کو ایک دن میں مار ڈا لا۔ 30 زندہ بچے ہو ئے افیق شہر کی طرف بھاگ گئے۔شہر کی فصیل ان ۲۷۰۰۰ سپا ہیوں پر گری۔ بن ہدد بھی شہر کو بھاگا وہ ایک کمرہ میں چھپ گیا۔ 31 اس کے خادموں نے اس کو کہا ، “ہم نے سنا کہ اسرائیل کے بادشاہ رحم دل ہیں اگر ہم لوگ ٹاٹ کے کپڑے پہنیں اور اپنے سرو ں پر رسیاں باندھ کر اسرائیل کے بادشاہ کے پاس چلیں تو ممکن ہے وہ ہمیں زندہ رہنے دیں۔”
32 انہوں نے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور سروں پر رسیاں باندھیں۔ وہ اسرائیل کے بادشاہ کے پاس آئے اور کہا ، “آپ کا خادم بن ہدد کہتا ہے براہ کرم مجھے جینے دو۔”
اخی اب نے کہا ، “ کیا وہ اب تک زندہ ہے ؟ وہ میرا بھا ئی ہے۔”
33 بن ہدد کے آدمی چا ہتے تھے کہ بادشاہ اخی اب کچھ کہے یہ ظاہر ہو نے کے لئے کہ وہ بادشاہ بن ہدد کو جا ن سے نہیں مارے گا۔ جب اخی اب نے بن ہدد کو اپنا بھا ئی کہا اس کے مشیرو ں نے فوراً کہا ، “ہاں بن ہدد آپ کا بھا ئی ہے۔”
اخی اب نے کہا ، “اس کو میرے پاس لا ؤ اس لئے بن ہدد بادشاہ اخی اب کے پاس آیا۔ بادشاہ اخی اب نے اس سے کہا کہ وہ ا سکے ساتھ رتھ میں آجا ئے۔
34 بن ہدد نے اس کو کہا ، “اخی اب ! میں تمہیں وہ شہر دو ں گا جو میرے باپ نے تمہا رے با پ سے لئے تھے۔ اور تم دمشق میں ویسے ہی دکانیں رکھ سکتے ہو جیسے کہ میرے باپ نے سامریہ میں کیا تھا۔”
اخی اب نے جواب دیا ، “اگر تمہیں یہ منظور ہوتو میں تمہیں جانے کی آزادی دیتا ہوں۔” اس طرح دوبارہ بادشاہوں نے ایک امن کا معاہدہ کیا تب بادشاہ اخی اب نے بادشاہ بن ہدد کو آزادی سے جانے دیا۔
ایک نبی کا اخی اب کے خلاف کہنا
35 نبیوں میں سے ایک نے دوسرے نبی سے کہا ، “ مجھے مار !” اس نے کہا کیوں کہ خدا وند نے حکم دیا تھا لیکن دوسرے نبی نے اس کو مارنے سے انکار کیا۔ 36 اس لئے پہلے نبی نے کہا ، “تم نے خدا وند کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اس لئے ایک شیر ببر جب تم یہ جگہ چھو ڑوگے تم کو مار ڈالے گا۔” دوسرے نبی نے وہ جگہ چھو ڑی اور ایک شیر ببر نے اس کو مار ڈالا۔
37 پہلا نبی دوسرے آدمی کے پاس گیا اور کہا ، “مجھے مار !”
اس آدمی نے اس کو مارا اور نبی کو چوٹ پہنچائی۔ 38 اس لئے نبی نے اپنے چہرے کو کپڑے سے لپیٹا۔ اس طرح کوئی بھی نہ دیکھ سکا کہ وہ کون تھا۔ نبی گیا اور سڑک پر بادشاہ کا انتظار کیا۔ 39 بادشاہ وہاں آیا اور نبی نے اسکو کہا ، “میں جنگ میں لڑ نے گیا ہم میں سے ایک آدمی ایک دشمن سپاہی کو میرے پاس لایا۔ آدمی نے کہا ، “اس آدمی کی نگرانی کرو۔ اگر یہ بھاگ گیا تو اس کی جگہ تم کو اپنی زندگی دینی ہوگی یا تمہیں ۷۵ پاؤنڈ چاندی جر مانہ دینا ہوگا۔” 40 لیکن میں دوسری چیزوں میں مصروف ہوگیا اس لئے وہ آدمی بھاگ گیا ،
“اِسرائیل کے بادشاہ نےجواب دیا ، “تم نے کہا ہے کہ تم سپا ہی کے فرار ہونے کے قصور وار ہو اس لئے تم جواب جانتے ہو تم کو وہی کرنا چاہئے جو آدمی نے کہا، “
41 تب نبی نے کپڑا اپنے منہ پر سے ہٹایا۔ اسرائیل کے بادشاہ نے اس کو دیکھا تو یہ جانا کہ وہ نبیوں میں سے ایک ہے۔ 42 پھر نبی نے بادشاہ سے کہا ، “خدا وند تم کو کہتا ہے تم نے اس آدمی کو آزاد چھو ڑ دیا جسے میں نے کہا تھا کہ اسے مرنا ہوگا۔ اس لئے تم اس کی جگہ لوگے۔ تم مرو گے۔ اور تمہارے لوگ دشمنوں کی جگہ لیں گے۔ تمہارے لوگ مریں گے۔
43 پھر بادشاہ سامر یہ اپنے گھر واپس گیا وہ پریشان اور فکر مند تھا۔
©2014 Bible League International