Add parallel Print Page Options

ناتن کا داؤد سے بات چیت کرنا

12 خداوند نے ناتن کو داؤد کے پا س بھیجا۔ ناتن داؤد کے پاس گیا۔ ناتن نے کہا ، “شہر میں دو آدمی تھے۔ ایک مالدار تھا لیکن دوسرا آدمی غریب تھا۔ مالدار آدمی کے پاس بہت سارے مویشی اور بھیڑ تھیں۔ لیکن غریب آدمی کے پاس کچھ نہ تھا سوائے ایک چھو ٹے مادہ میمنے کے جو اس نے خریدا تھا۔ غریب آدمی نے اس میمنے کی پر ورش کی۔ یہ اس کے گھر میں اس کے بچوں کے ساتھ بڑا ہوا اور اس کے کھانے سے کھا یا اور اس کے پیالے سے پیا۔ یہ اس غریب آدمی کے سینہ سے لگ کر سوتا تھا۔ میمنہ غریب آدمی کی بیٹی کی طرح تھا۔

“تب ایک مسافر مالدار آدمی کے پاس ٹھہر نے آیا۔ مالدار آدمی نے مسافر کو کھانا کھلا نا چا ہا لیکن مالدار آدمی اپنی بھیڑوں یا مویشیوں میں سے ایک کو بھی مسافر کے کھانے کے لئے ذبح کرنا نہیں چا ہا۔ بلکہ مالدار آدمی نے غریب آدمی سے میمنہ لیا اور اس میمنہ کو ذبح کیا اور مہمان کے لئے پکا یا۔

داؤد مالدار آدمی کے خلاف بہت ناراض ہوا۔ اس نے ناتن سے کہا ، “خداوند کی حیات کی قسم جس آدمی نے یہ کیا اسے مرنا چا ہئے۔ اس کو میمنہ کی قیمت کا چار گنا ادا کرنا چا ہئے کیوں کہ اس نے بھیانک گناہ کیا ہے اور اس نے کسی بھی طرح کا رحم نہیں دکھا یا۔”

ناتن کا داؤد کو اس کے گناہ کے متعلق کہنا

تب ناتن نے داؤد سے کہا ، “تم وہ مالدار آدمی ہو یہ خداوند اسرا ئیل کا خدا کہتا ہے ، “میں نے تم کو اسرا ئیل کا بادشاہ بننے کے لئے چنا میں نے تم کوساؤل سے بچا یا۔ میں نے تم کو تمہا رے آقا کے گھر کو اور اس کی بیو یوں کو لینے دیا اور میں نے تم کو اسرا ئیل اور یہوداہ کا بادشاہ بنا یا۔ اگر تم زیادہ چاہتے تو میں تم کو اور زیادہ دیتا۔ پھر تم نے خداوند کے حکم کو کیوں نظر انداز کیا ؟ تم نے وہ چیز کیوں کی جس کو وہ بُرا کہتا ہے ؟ تم نے عمونیوں کو اور یاّہ حتیّ کو کیوں مارنے دیا۔ اور تم نے اس کی بیوی کو لے لیا اس طرح تم نے اور یاّہ کو تلوار سے مارڈا لا۔ 10 اس لئے تلوار تمہا رے خاندان کو کبھی نہ چھوڑے گی۔ کیونکہ تم نے مجھے حقیر جانا اور تم نے اور یاّہ حتیّ کی بیوی کولیا اور اپنی بیوی بنا یا۔”

11 “یہ وہ ہے جو خداوند کہتا ہے : ’میں تمہا رے لئے آفتیں لا رہا ہوں۔ یہ مصیبت خود تمہا رے خاندان سے آئے گی۔ میں تمہا ری بیویوں کو تم سے لے لوں گا اور انہیں اس آدمی کو دو ں گا جو تم سے بہت قریب ہو گا۔ یہ آدمی تمہا ری بیویوں کے ساتھ سو ئے گا اور ہر ایک کو معلوم ہو گا۔ 12 تم بت سبع کے ساتھ چھپ کر سوئے لیکن میں تمہیں سزا دوں گا تا کہ سارے بنی اسرا ئیل یہ دیکھ سکیں۔”

13 تب داؤد نے ناتن سے کہا ، “میں نے خداوند کے خلاف گناہ کیا ہے۔

ناتن نے داؤد سے کہا ، “حتیٰ کہ اس گناہ کے لئے بھی خداوند تمہیں معاف کرے گا۔ تم نہیں مرو گے۔ 14 لیکن تم جو چیز یں کیں ہیں اس کی وجہ سے دشمنوں نے خداوند کے لئے اپنی تعظیم کو کھو دیا ہے۔ اس لئے تمہا را نومو لود بیٹا مر جا ئے گا۔”

داؤد اور بت سبع کے نو مولود بچّے کی موت

15 تب ناتن گھر گیا اور خدا وند نے داؤد اوریاہ کی بیوی سے جو بیٹا ہوا تھا اس کو بہت بیمار کردیا۔ 16 داؤد نے بچّے کے لئے خدا سے دعا کی۔ داؤد نے کھا نے اور پینے سے انکار کر دیا وہ اپنے گھر میں گیا اور وہاں ٹھہرا وہ ساری رات فرش پر پڑا رہا۔

17 داؤد کے خاندان کے قائدین آئے اور داؤد کو فرش سے اٹھا نے کی کوشش کئے لیکن داؤد نے اٹھنے سے انکار کیا۔ اس نے قائدین کے ساتھ کھانا کھا نے سے انکار کیا۔ 18 ساتویں دن بچّہ مر گیا۔ داؤد کے خادم اس کو بچّہ کے مرنے کی خبر سنانے سے ڈرے ہو ئے تھے۔ انہوں نے کہا ، “دیکھو ہم نے داؤد سے بات کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ بچہ زندہ تھا لیکن وہ ہماری بات سننے سے انکار کیا تھا۔ اگر ہم داؤد سے کہیں کہ بچّہ مر گیا تو ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو کچھ کر لے۔”

19 لیکن داؤد نے دیکھا اس کے خادم کانا پھو سی کر رہے ہیں تب داؤد سمجھ گیا کہ بچّہ مر گیا۔ اس لئے داؤد نے خادموں سے پو چھا ، “کیا بچّہ مر گیا ؟”

خادموں نے جواب دیا ، “ہاں وہ مر گیا۔”

20 تب داؤد فرش سے اٹھا اور نہا دھو کر کپڑے پہنا تب پھر وہ خدا وند کے گھر میں عبادت کرنے گیا۔ تب وہ گھر گیا اور کچھ کھا نے کے لئے مانگا تو اس کے خادموں نے اسکو کچھ کھا نا دیا اور اس نے کھا یا۔

21 داؤد کے خادموں نے اس کو کہا ، “ آپ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ جب بچّہ زندہ تھا تو آپ نے کھا نے سے انکار کیا آپ روئے۔ لیکن جب بچہ مر گیا تو آپ اٹھے اور کھا نا کھا ئے۔”

22 داؤد نے کہا ، “جس وقت بچہ ابھی زندہ تھا میں کھا نے سے انکار کیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رویا کیوں کہ میں نے سوچا :’ کون جانتا ہے ؟ہو سکتا ہے خدا وند مجھ پر رحم کرے اور وہ بچہ کو زندہ رہنے دے۔‘ 23 لیکن اب بچہ مر گیا اس لئے میں کھانے سے کیوں ؟ انکار کرو ں؟ کیا میں بچہ کو پھر زندہ کر سکتا ہوں ؟ نہیں کسی دن میں اس کے پاس جاؤنگا لیکن وہ میرے پاس نہیں آئے گا۔”

سُلیمان کی پیدائش

24 تب داؤد نے اپنی بیوی بت سبع کو تسلّی دی۔ وہ اس کے ساتھ سویا اور جنسی تعلق کیا بت سبع پھر حاملہ ہو ئی اس کو دوسرا بیٹا ہوا داؤد نے اس لڑ کے کا نام سُلیمان رکھا۔ خدا وند سلیمان کو چاہتا تھا۔ 25 خدا وند نے ناتن نبی کے ذریعہ پیغام بھیجا۔ ناتن نے سلیمان کا نام یدیدیاہ [a] رکھا ناتن نے ایسا خدا وند کے لئے کیا۔

داؤد کا ربّہ پر قبضہ

26 شہر ربّہ عمّونیوں کا پایہ تخت تھا۔ یوآب ربّہ کے خلاف لڑا اور شہر کا وہ حصّہ قبضہ کر لیا جہاں بادشاہ رہتا تھا۔ 27 یوآب نے قاصدوں کو داؤد کے پاس بھیجا اور کہا ، “میں ربّہ کے خلاف لڑا۔ میں نے شہر کا وہ حصہ جو پانی سپلائی کرتا ہے قبضہ کر لیا۔ 28 اب دوسرے لوگوں کو ایک ساتھ لائیں اور اس شہر (ربّہ ) پر حملہ کریں۔ آپ کو یہ شہر قبضہ کرنا چاہئے مجھے نہیں اگر میں اس شہر پر قبضہ کر تا ہوں تو یہ میرے نام سے جانا جائے گا۔”

29 اس لئے داؤد نے تمام لوگوں کو جمع کیا اور ربّہ کو گیا۔ وہ ربّہ کے خلاف لڑا اور شہر پر قبضہ کیا۔ 30 داؤد نے انکے بادشاہ کے سر سے تاج اتار لیا۔ تاج سونے کا تھا اور ۷۵ پاؤنڈ وزنی تھا اس تاج میں قیمتی پتھر تھے۔ انہوں نے تاج کو داؤد کے سر پر رکھا۔ داؤد نے شہر میں سے کئی قیمتی چیزیں لیں۔

31 داؤد نے لوگوں کو بھی شہر کے باہر آنے پر مجبور کیا۔ ان کو آرے ، لوہے کے پھا ؤڑے اور کلہاڑی دیا اور ان سے کام کر وایا۔ اس نے ان پر دباؤ ڈا لا کہ وہ اینٹوں کی چیزیں بھی بنائیں۔ اس نے ایسا ہی سلوک سارے عمّونیو ں کے شہروں میں کیا۔ تب داؤد اور اسکی فوج واپس یروشلم گئی۔

امنون اور تمر

13 داؤد کا ایک بیٹا ابی سلوم تھا۔ ابی سلوم کی بہن کا نام تمر تھا۔ تمر بہت خوبصورت تھی۔ داؤ دکے اور بیٹوں میں سے ایک امنون تھا۔ وہ تمر سے محبت کرتا تھا۔ تمر پاک دامن کنواری تھی۔ امنون اس کو بہت چاہتا تھا۔ امنون اس کے بارے میں اتنا سوچنے لگا کہ وہ بیمار ہو گیا۔ اور ا سکے ساتھ کچھ کرنا اسکو نا ممکن معلوم ہوا۔ [b]

امنون کا یوندب نام کا ایک دوست تھا۔ جو سمعہ کا بیٹا تھا ( سمعہ داؤد کا بھا ئی تھا ) یوندب بہت چالاک آدمی تھا۔ یوندب نے امنون سے کہا ، “ہر روز تم زیادہ سے زیادہ دُبلے دکھا ئی دیتے ہو۔ تم بادشاہ کے بیٹے ہو تمہیں کھانے کے لئے بہت کچھ ہے پھر بھی تم اپنا وزن کیوں کھو تے جا رہے ہو ؟”

امنون نے یوندب سے کہا ، “میں تمر سے محبت کرتا ہوں لیکن وہ میرے سوتیلے بھا ئی ابی سلوم کی بہن ہے۔”

یوندب نے امنون سے کہا ، “اپنے بستر پر جا ؤ اور بیمار ہو نے جیسا بہانہ کرو تب تمہا را باپ تمہیں دیکھنے آئیں گے۔ تم ان سے کہنا براہ کرم میری بہن تمر کو آنے دیجئے اور اسے مجھے کھانے کے لئے دینے دو۔ اس کو میرے سامنے کھانا بنانے دو تب میں اسے دیکھوں گا اور اس کے ہا تھ سے کھا ؤں گا۔”

اس لئے امنون بستر پر لیٹ گیا اور بیمار ہو نے کا بہانہ کیا۔ بادشاہ داؤد امنون کو دیکھنے اندر آیا۔ امنون نے بادشاہ داؤد سے کہا ، “براہ کرم میری بہن تمر کو اندر آنے دیں اس کو میرے لئے دو کیک بنانے دیں۔ میں اسے دیکھو ں گا اور تب میں اس کے ہا تھ سے کھا ؤں گا۔

داؤد نے تمر کے گھر قاصدوں کو بھیجا۔قاصدوں نے تمر سے کہا ، “تم اپنے بھا ئی امنون کے گھر جا ؤ اور اس کے لئے کھانا بنا ؤ۔

تمر کا امنون کے لئے غذا تیار کرنا

اس لئے تمر اس کے بھا ئی امنون کے گھر گئی امنون بستر میں تھا۔ تمر نے کچھ گوندھا ہوا آٹا لیا اور امنون کے سامنے اپنے ہا تھوں سے دباکر کیک پکا ئے۔ تب تمر نے کیک کڑھائی سے نکالیں اور امنون کے لئے رکھی لیکن امنون نے کھانے سے انکار کیا۔ امنون نے اپنے خادموں کو حکم دیا ، “گھر سے باہر چلے جا ئیں میں اکیلا رہنا چا ہتا ہوں” اس لئے وہ سب کمرے چھو ڑ کر نکل گئے۔

امنون کا تمر کی عصمت دری کرنا

10 تب امنون نے تمر سے کہا ، “کھانا اندر والے کمرے میں لے چلو اور مجھے ہا تھ سے کھلا ؤ۔”

اس لئے تمر نے جو کیک پکا ئے تھے وہ لئے اور بھا ئی کے سونے کے کمرے میں گئی۔ 11 اس نے امنون کو کھلانا شروع کیا لیکن اس نے اس کا ہا تھ پکڑ لیا اور اس کو کہا ، “بہن آؤ اور میرے ساتھ سو جا ؤ۔”

12 تمرنے امنون سے کہا ، “نہیں بھائی ! مجھے ایسا کرنے کے لئے زبردستی نہ کرو۔ ایسی بے شر م حرکت نہ کرو ایسی بھیانک باتیں اسرا ئیل میں کبھی نہ ہوں گی۔ 13 میں اپنی شرم کو کبھی نہیں چھو ڑوں گی۔ اور لوگ تمہیں ایک عام مجرم کی مانند سمجھیں گے۔ براہ کرم بادشاہ سے بات کرو۔ وہ تم کو مجھ سے شادی کرنے دے گا۔”

14 لیکن امنو ن نے تمر کی بات سننے سے انکار کیا۔ وہ تمر سے زیادہ طاقتور تھا اس نے اس پر جبر کیا کہ اس سے جنسی تعلقات کرے۔ 15 تب امنو ن نے تمر سے نفرت شروع کی۔ امنو ن نے اس سے اتنی زیادہ نفرت کی کہ جتنا کہ پہلے وہ محبت کرتا تھا۔ امنون نے تمر سے کہا ، “اٹھو اور یہاں سے چلی جا ؤ۔”

16 تمر نے امنو ن سے کہا ، “نہیں مجھے اس طرح نہ بھیجو اگر تم مجھے باہر بھیجے تو تم پہلے گناہ سے بھی زیادہ گناہ کر رہے ہو۔”

لیکن امنو ن نے تمر کی بات سننے سے انکار کیا۔ 17 امنو ن نے اپنے خادم کو بلا یا اور کہا ، “اس لڑکی کو کمرے سے باہر کرو اب اور اس کے جانے کے بعد دروازہ میں تا لا لگا دو۔”

18 اس لئے امنون کے خادم تمر کو کمرے کے باہر لے گیا اور اس کے جانے کے بعد کمرہ میں تا لا لگا دیا۔

تمر ایک لمبا چغہ کئی رنگوں وا لا پہنے تھی۔ بادشا ہ کی کنواری بیٹیاں ایسے ہی چغہ پہنتی تھیں۔ 19 تمر نے اس کئی رنگوں والے چغے کو پھا ڑ دیا اور خاک اپنے سر پر ڈا ل لی تب وہ اپنے ہا تھ اپنے سر پر رکھی اور روتی ہو ئی چلی گئی۔

20 تب تمر کے بھا ئی ا بی سلوم نے اس سے کہا ، “کیا تم اپنے بھا ئی امنون کے ساتھ تھیں ؟ کیا اس نے تمہیں چوٹ پہنچا ئی ؟ اب خاموش ہو جا ؤ میری بہن ! [c] امنون تمہا را بھا ئی ہے ہم لوگ معاملہ کو دیکھیں گے۔ اس کی وجہ سے تم بہت زیادہ پریشان مت ہو۔” تمر جواب نہ دے سکی۔ وہ اپنے بھا ئی ابی سلوم کے گھر میں رہی۔ وہ غمزدہ اور بے کس پڑی رہی۔

21 بادشاہ داؤد نے یہ خبر سنی اور بہت غصّہ ہو ئے۔ 22 ابی سلوم نے امنون سے نفرت شروع کر دی۔ ابی سلوم نے ایک لفظ اچھا یا بُرا امنون کو نہیں کہا۔ ابی سلوم نے امنو ن سے نفرت کی کیو ں کہ امنو ن نے اسکی بہن تمر کی عصمت دری کی تھی۔

ابی سلوم کا بدلہ

23 دوسال بعد ابی سلوم کے پاس بعل حصور اس کی بھیڑوں کے اُون کاٹنے آئے۔ ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو مدعو کیا کہ آئیں اور دیکھیں۔ 24 ابی سلوم بادشا ہ کے پاس گیا اور کہا ، “میرے پاس کچھ آدمی میری بھیڑوں کے اُون کاٹنے آرہے ہیں براہ کرم اپنے خادموں کے ساتھ آئیں اور دیکھیں۔ ”

25 بادشاہ داؤد نے ابی سلوم سے کہا ، “نہیں بیٹے ! ہم سب نہیں جا ئیں گے۔ اس سے تمہیں بہت زیادہ پریشانی ہو گی۔”

ابی سلوم نے داؤد سے جانے کے لئے منّت کی۔ داؤد نہیں گیا لیکن اس نے دعائیں دیں۔

26 ابی سلوم نے کہا ، “اگر آپ نہیں جانا چا ہتے تو میرے بھا ئی امنون کو میرے ساتھ جانے دیجئے۔”

بادشاہ داؤد نے ابی سلوم سے پو چھا ، “اس کو تمہا رے ساتھ کیوں جانا ہو گا ؟”

27 ابی سلوم داؤد سے منّت کرتا رہا آخر کا ر داؤد نے امنو ن اور اپنے تمام بیٹوں کو ابی سلوم کے ساتھ جانے دیا۔

امنون کا قتل کیا جانا

28 تب ابی سلوم نے اپنے خادم کو حکم دیا ، “امنون پر نظر رکھو وہ نشہ میں ہو گا۔ جب ایسا ہو گا تو میں تمہیں حکم دونگا۔ تب تمہیں امنون پرحملہ کرنا اور اسکو مارڈالنا چاہئے۔ تم سزا سے مت ڈرو۔ تم میرے حکم کی تعمیل کروگے اس لئے کوئی تمہیں سزا نہیں دیگا۔ طاقتور اور بہادر بنو ! ”

29 اس لئے ابی سلوم کے لوگوں نے وہی کیا جو اس نے حکم دیا انہوں نے امنون کو مار ڈا لا لیکن داؤد کے دوسرے بیٹے خچر پر سوار ہو کر فرار ہو گئے۔

داؤد کا امنون کی موت کے متعلق سننا

30 بادشاہ کے بیٹے ابھی تک شہر کے راستے پرہی تھے لیکن جو کچھ ہوا تھا وہ بادشاہ داؤد نے سنا۔ خبر یہ تھی “ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو مارڈا لا ایک بیٹا بھی زندہ نہیں بچا۔ ”

31 بادشاہ داؤد نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈا لے اور فرش پر لیٹ گیا۔ داؤد کے تمام افسر اس کے قریب کھڑے تھے وہ بھی اپنے کپڑے پھاڑ لئے۔

32 تب داؤد کے بھائی سمع کا بیٹا یوندب نے کہا ، “یہ مت سوچئے کہ بادشاہ کے تمام بیٹے مار دیئے گئے صرف امنون کو مارا گیا ہے۔ ابی سلوم اس دن سے یہ منصوبہ بنا رہا تھا جس دن امنون نے اس کی بہن تمر کی عصمت دری کی تھی۔ 33 میرے آقا اور بادشاہ یہ مت سوچو کہ تمہارے تمام بیٹے مر گئے۔ صرف امنون مارا گیا ہے۔ ”

34 ابی سلوم بھا گ گیا۔

شہر کے دروازے پر ایک محافظ تھا اس نے دیکھا کئی لوگ پہا ڑی کے دوسری جانب سے شہر کی طرف آرہے ہیں۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اسکے بارے میں بادشاہ سے کہا، “ 35 اس لئے یوندب نے بادشاہ داؤد سے کہا ، “دیکھو ! میں نے صحیح کہا تھا بادشاہ کے بیٹے آرہے ہیں۔ ”

36 بادشاہ کے بیٹے اسی وقت آئے جس وقت یوندب نے کہا تھا۔ وہ بلند آواز سے رو رہے تھے داؤد اور اسکے تمام افسر بھی رونا شروع کئے وہ تمام شدّت سے رو ئے۔ 37 داؤد اپنے بیٹے ( امنون ) کیلئے ہر روز روتا رہا۔

ابی سلوم کا جسور کو بھا گنا

ابی سلوم جسور کے بادشاہ تلمی جو عمّیہود کا بیٹا تھا اسکے پاس بھاگ گیا۔ 38 ابی سلوم کے جسور کو بھاگنے کے بعد وہ وہاں تین سال رہا۔ 39 بادشاہ داؤد امنون کے مر نے کے بعد تسلّی بخش ہوگیا تھا لیکن اسے ابی سلوم کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔

یوآب کا ایک عقلمند عورت کو داؤد کے پاس بھیجنا

14 یو آب ضرویاہ کے بیٹے نے جانا کہ بادشاہ داؤد ابی سلوم کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔ اس لئے یو آب نے قاصدوں کو تقوع بھیجا کہ وہاں سے ایک عقلمد عورت کو لا ئے۔ یو آب نے اس عقلمند عورت سے کہا ، “برائے کرم بہت زیادہ غمگین ہو نے کا دکھا وا کرو اور سوگ کے کپڑے پہنو۔ اچھا لباس نہ پہنو۔ ایسا دکھا وا کرو جیسے کہ ایک عورت کسی کے مرنے سے کئی دن روتی رہی ہے۔ بادشاہ کے پاس جا ؤ اور اس سے بات کرو ان الفاظ کو استعمال کرو( جو میں تم سے کہتا ہوں)” تب یو آب نے عقلمند عورت سے کہا کہ کیا کہنا ہے۔

تب تقوع کی عورت نے بادشاہ سے بات کی۔ وہ بادشاہ کے آگے آنگن پر منہ کے بل گر پڑی۔ تب اس نے کہا ، “بادشاہ ! براہ کرم میری مدد کرو۔”

بادشاہ داؤد نے اس سے کہا ، “تمہا را کیا مسئلہ ہے ؟”

عورت نے کہا ، “میں ایک بیوہ ہوں میرا شوہر مرچکا ہے۔ میرے دو بیٹے تھے وہ باہر میدان میں لڑ رہے تھے وہاں انہیں روکنے وا لا کو ئی نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بیٹے نے دوسرے بیٹے کو مار ڈا لا۔ اب سا را خاندان میرے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا ، “ہم کو بیٹا لا دو جس کو اس کا بھا ئی مار ڈا لا ہے اور ہم اس کو مار ڈا لیں گے کیوں کہ اس نے اپنے بھا ئی کومار ڈا لا ہے۔‘ میرا بیٹا آ گ کی آخری چمک کی مانند ہے اگر وہ میرے بیٹے کو مار تے ہیں توتب وہ آ گ جل کر ختم ہو جا ئے گی صرف وہی ایک بیٹا اپنے باپ کی جا ئیداد حاصل کرنے کے لئے زندہ بچا ہے اس لئے میرے ( مر حوم ) شوہر کی جائیداد کسی اور کو ملے گی اور اس کا نام زمین سے مٹا دیا جا ئے گا۔”

تب بادشاہ نے عورت سے کہا ، اپنا گھر جاؤ میں تمہارے حق میں فیصلہ کروں گا۔ تقوع کی عورت نے بادشاہ سے کہا، “اے بادشاہ میرے آقا ! قصور مجھ پر آنے دو اور آپ کی بادشاہت معصوم ہے۔”

10 بادشاہ داؤد نے کہا ، “اگر کو ئی تمہیں بُرا کہہ رہا ہے تو اس آدمی کو میرے پاس لا ؤ وہ تمہیں دوبارہ پریشان نہیں کرے گا۔”

11 عورت نے کہا ، “ براہ کرم خداوند اپنے خدا کے نام پر قسم کھا کر کہئے کہ آپ ان لوگوں کو روکیں گے جو میرے بیٹے کو اپنے بھا ئی کے قتل کے لئے سزا دینا چاہتے ہیں۔ قسم کھا ئیں کہ آپ ان لوگوں کو میرے بیٹے کو تباہ نہیں کرنے دیں گے۔”

داؤد نے کہا ، “جب تک خداوند ہے کو ئی بھی تمہا رے بیٹے کو چوٹ نہیں پہنچا سکتا تمہا رے بیٹے کا ایک بال بھی بانکا نہ ہو گا۔”

12 عورت نے کہا ، “میرے آقا اور بادشاہ ! براہ کرم مجھے کچھ اور بھی کہنے دیں۔

بادشاہ نے کہا ، “کہو ”

13 تب عورت نے کہا ، “آپ نے ان چیزوں کا منصوبہ کیوں خدا کے لوگوں کے خلاف بنا یا ہے ؟” ہاں جب آپ یہ باتیں کہتے ہیں تو آپ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ قصوروار ہیں کیوں کہ آپ اپنے بیٹے کو واپس نہیں لا سکتے ہیں جسے آپ نے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ 14 ہم سب لوگ کچھ دن میں مر جا ئیں گے ہم اس پانی کے مانند ہوں گے جو زمین پر پھینکا گیا ہے کو ئی بھی آدمی زمین سے اس پا نی کو جمع نہیں کرسکتا۔ سب جانتے ہیں کہ خدا لوگوں کو معاف کرتا ہے خدا نے انلوگوں کے لئے منصوبہ بنا یا جو سلامتی کے لئے بھا گ گئے۔ خدا لوگو ں کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور نہیں کرتا۔ 15 میرے آقا اور بادشاہ میں آپ سے یہ باتیں کہنے آئی ہوں کیوں! کیوں کہ لوگ مجھے ڈرا دیئے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا کہ میں بادشاہ سے بات کرو ں گی ہو سکتا ہے بادشاہ میری مدد کرے گا۔ 16 بادشاہ میری بات سنے گا اور مجھے اس آدمی سے بچائے گا جو مجھے اور میرے بیٹے کو مارنا چاہتا ہے۔ وہ آدمی بس ہم کو ان چیزوں کو لینے سے روکنا چاہتا ہے جو خدا نے ہمیں دیں ہیں۔ 17 میں جانتی ہوں کہ میرے بادشاہ میرے آقا کا کلام مجھے تسلی دیتا ہے۔ کیوں کہ آپ خدا کے فرشتے کی مانند ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے ؟ اور خدا وند آپکا خدا آپکے ساتھ ہے۔ ”

18 بادشاہ داؤد نے عورت کو جواب دیا ، “جو میں پو چھوں تمہیں جواب دینا چاہئے۔ ”

عورت نے کہا ، “ میرے آقا اور بادشاہ آپ اپنا سوال پو چھیں۔

19 بادشاہ نے کہا ، “کیا یوآب نے تمہیں یہ سب باتیں کہنے کے لئے کہا ہے ؟ ”

عورت نے جواب دیا ، “آپکی زندگی کی قسم میرے آقا و بادشا ہ آپ صحیح ہیں۔ آپ کے افسر یوآب نے یہ مجھ سے ساری باتیں کہنے کے لئے کہا ہے۔ 20 یوآب نے یہ کام کیا تاکہ آپ معاملہ کو الگ طرح سے دیکھیں گے۔ میرے آقا آپ خدا کے فرشتے کی طرح عقلمند ہیں آپ ہر چیز کے بارے میں جانتے ہیں جو زمین پر ہو تی ہے۔ ”

ابی سلوم کی یروشلم کو واپسی

21 بادشاہ نے یوآب سے کہا ، “دیکھو میں نے جو وعدہ کیا ہے وہ پو را کرونگا اب براہ کرم نو جوان ابی سلو م کو واپس لا ؤ۔ ”

22 یو آب نے زمین پر اپنا سر جھکا یا۔ اس نے بادشاہ داؤد کو دعا دی اور کہا ، “آج میں جانتا ہوں کہ آپ مجھ سے خوش ہیں۔ میں جانتا ہوں کیوں کہ میں نے جو مانگا وہ آپ نے کیا۔

23 تب یوآب اٹھا اور جسور گیا اور ابی سلوم کو یروشلم لایا۔ 24 لیکن بادشاہ داؤد نے کہا ، “ابی سلوم اپنے گھر واپس جا سکتا ہے وہ مجھ سے ملنے نہیں آسکتا۔ ” اس لئے ابی سلوم اپنے گھر واپس گیا ابی سلوم بادشاہ سے ملنے نہیں جا سکا۔

25 لوگ اسکے بارے میں کہتے تھے کہ ابی سلوم کتنا خوبرو ہے۔ اسرائیل میں کو ئی بھی آدمی ابی سلوم جیسا خوبصورت نہیں تھا کوئی نقص سر سے پیر تک ابی سلوم میں نہیں تھا۔ 26 ہر سال کے ختم پر ابی سلوم اپنے سر کا بال کاٹتا اور اس کا وزن کر تا اسکے بالوں کا وزن تقریباً پانچ پاؤنڈ ہوتا۔ 27 ابی سلوم کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ اس بیٹی کا نام تمر تھا۔ تمر خوبصورت تھی۔

ابی سلوم کا یوآب کو اپنے سے آنے کے لئے مجبور کرنا

28 ابی سلوم یروشلم میں پورے دو سال کے لئے بادشاہ داؤد سے ملنے کی کوشش کئے بغیر رہا۔ 29 ابی سلوم نے یوآب کے پاس قاصدوں کو بھیجا۔ ان قاصدوں نے یوآب سے کہا کہ ابی سلوم کے پاس آؤ۔ ابی سلوم اس کو کہنا چاہتا تھا کہ اس کے بدلے میں بادشاہ کے آگے جاؤ۔ لیکن یوآب ابی سلوم کے پاس آنے سے انکار کیا۔ ابی سلوم نے دوسری مرتبہ خبر بھیجی لیکن وہ تب بھی وہاں آنے سے انکار کیا۔

30 تب ابی سلوم نے اپنے ساتھیوں سے کہا ، “دیکھو ! یوآب کا کھیت میرے کھیت کے قریب ہے۔ اس کے کھیت میں جو کی فصل ہے جاؤ جو کو جلا دو۔ ”

اس لئے ابی سلوم کے خادم گئے اور یوآب کے کھیت میں آ گ لگا دی۔ 31 یوآب اٹھا اور ابی سلوم کے گھر آیا۔ یوآب نے ابی سلوم سے کہا ، “تمہارے خادموں نے میرا کھیت کیوں جلایا ہے ؟ ”

32 ابی سلوم نے یوآب کو کہا، “میں نے تمہیں پیغام بھیجا میں تم کو یہاں آنے کے لئے بولا۔ میں تمہیں بادشاہ کے پاس بھیجنا چاہتا تھا۔ میں نے چاہا کہ تم اس سے پوچھو کہ اس نے مجھے جُسور سے گھر واپس ہونے کے لئے کیوں کہا۔ اگر میں بادشاہ کو نہیں دیکھ سکتا ہوں تو میرے لئے یروشلم میں رہنا جسور میں رہنے سے بہتر نہیں ہے۔ میں تجھ سے التجاء کر تا ہوں کہ اب مجھے بادشاہ سے ملنے دو اگر میں نے گناہ کیا ہے تب وہ مجھے ہلاک کر سکتا ہے۔ ”

ابی سلوم بادشاہ داؤد سے ملتا ہے

33 تب یوآب بادشاہ کے پاس آیا اور اس کو کہا۔ بادشاہ نے ابی سلوم کو بلایا۔ ابی سلوم بادشاہ کے پاس آیا۔ ابی سلوم بادشاہ کے سامنے زمین پر جھکا اور بادشاہ نے ابی سلوم کو چھوم لیا۔

ابی سلوم کا کئی دوست بنانا

15 اس کے بعد ابی سلوم نے ایک رتھ اور گھو ڑے اپنے لئے لیئے۔ اس کے پا س۵۰ آدمی تھے جو اس کے سامنے دوڑتے تھے جب وہ گا ڑی چلا تے تھے۔ ابی سلوم صبح اٹھا اور دروازہ کے پاس کھڑا ہوا۔ ابی سلوم نے ہر آدمی پر نگاہ رکھی جو اپنے مسائل کے فیصلے کے لئے بادشاہ داؤد کے پاس جا رہے تھے۔ تب ابی سلوم اس آدمی سے پو چھتا کہ تم کس شہر کے ہو۔ آدمی جواب دیتا کہ میں فلاں فلاں خاندانی گروہ اسرا ئیل کا ہوں۔ تب ابی سلوم اس آدمی سے کہتا، “دیکھو تم صحیح ہو لیکن بادشاہ داؤد تمہا ری بات نہیں سنے گا۔”

ابی سلوم یہ بھی کہتا ، “ کاش کو ئی مجھے اس ملک کا منصف بنا تا ! تب میں ہر اس آدمی کی مدد کرتا جو میرے پاس اپنے مسائل لے کر آتے۔ میں اس کے مسائل کا صحیح حل نکالنے کے لئے اس کی مددکرتا۔”

اور اگر آدمی ابی سلوم کے پاس آتا تو وہ آدمی ا سکے سامنے تعظیم سے جھکنا شروع کردیتا۔ ابی سلوم اس کے ساتھ قریبی دوست کی طرح سلوک کرتا۔ ابی سلوم آگے بڑھتا اور اس سے ملکر اس کو چومتا۔ ابی سلوم نے ایسا تمام اسرا ئیلیوں کے ساتھ کیا جو بادشاہ داؤد کے پاس فیصلہ کے لئے آتے تھے۔ اس طرح ابی سلوم نے سبھی بنی اسرا ئیلیوں کا دِل جیت لیا۔

ابی سلوم کا داؤد کی بادشاہت لینے کا منصوبہ

چار سال [d] بعد ابی سلوم نے بادشاہ داؤد سے کہا ، “براہ کرم میرا مخصو ص وعدہ پو را کرنے کے لئے مجھے جانے دو جو میں نے حبرون میں خداوند سے کیا تھا۔ جب میں جسور میں رہتا تھا اس وقت میں نے وعدہ کیا تھا۔ میں نے کہا تھا ، “اگر خدا وند مجھے واپس یروشلم لا ئے تو میں خدا وند کی خدمت کروں گا۔”

بادشاہ داؤد نے کہا ، “سلامتی اور امن سے جاؤ۔

ابی سلوم حبرون گیا۔ 10 لیکن ابی سلوم نے سارے اسرائیلی خاندان کے گروہوں کے ذریعہ جاسوس بھیجے۔ ان جاسوسوں نے لوگوں سے کہا ، “جب تم بگل کی آواز سنو تب کہو ابی سلوم حبرون میں بادشاہ ہوا۔”

11 ابی سلوم نے ۲۰۰ آدمیوں کو اپنے ساتھ چلنے کو مدعو کیا۔ وہ آدمی اسکے ساتھ یروشلم سے نکلے لیکن وہ نہیں جانتے تھے وہ کیا منصوبہ بنا رہا ہے۔ 12 اخیتفُل جلوہ شہر کا تھا اور داؤد کے مشیروں میں سے ایک تھا۔ جس وقت ابی سلوم قربانی کا نذرانہ پیش کر رہا تھا تو اس نے جلوہ شہر سے اخیتفل کو خبر بھیجی۔ اسی دوران ابی سلوم کا منصوبہ کردہ سازش پھیلا اور زور پکڑا۔ اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی حمایت کرنا شروع کئے۔

داؤد کا ابی سلوم کے منصوبوں کو جاننا

13 ایک آدمی داؤد کو خبر دینے اندر آیا۔ اس آدمی نے کہا ، “اسرائیل کے لوگ ابی سلوم کے کہنے کے مطابق چلنا شروع کر رہے ہیں۔

14 تب داؤد نے اپنے تمام افسروں سے کہا ، “جو انکے ساتھ یروشلم میں تھے ” ہمیں فرار ہونا چاہئے اگر ہم فرار نہیں ہوئے تو ابی سلوم ہم کو جانے نہیں دیگا۔ اس سے پہلے کہ ابی سلوم ہمیں پکڑ لے ہمیں جلدی کرنا چاہئے۔ وہ ہم سب کو تباہ کریگا اور وہ یروشلم کے لوگوں کو مارڈا لے گا۔”

15 بادشاہ کے افسروں نے اس سے کہا ، “آپ جو کہیں ہم کریں گے۔”

داؤد اور اسکے لوگوں کی فراری

16 بادشاہ داؤد اپنے گھر کے تمام لوگوں کے ساتھ باہر نکل گئے۔ بادشاہ نے اپنی دس بیویوں کو گھر کی نگرانی کے لئے چھوڑ دیا۔ 17 بادشاہ اپنے تمام لوگوں کو ساتھ لیکر باہر نکلا۔ وہ آخری مکان کے پاس ٹھہر گئے۔ 18 اس کے تمام افسر بادشاہ کے پاس سے گزرے سب کریتی اور فلیتی اور جتی ( ۶۰۰ جات کے آدمی ) بادشاہ کے پاس سے گزرے۔

19 بادشاہ نے جات کے اِتّی سے کہا ، “تم بھی ہمارے ساتھ کیوں جا رہے ہو ؟” واپس پلٹو اور نئے بادشاہ ابی سلوم کے ساتھ ٹھہرو۔ تم غیر ملکی ہو۔ یہ تم لوگوں کا وطن نہیں ہے۔ 20 صرف کل ہی تم آئے اور میرے ساتھ شامل ہوئے۔ کیا تمہیں میرے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا چاہئے ؟ نہیں اپنے بھا ئیوں کو لو اور واپس جاؤ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ تمہیں رحم کرم اور وفاداری دکھا ئی جائے !”

21 لیکن اتی نے بادشاہ کو جواب دیا ، “خدا وند کی حیات کی اور بادشاہ کی زندگی کی قسم میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔ میں تمہارے ساتھ رہو ں گا جینے میں یا مرنے میں۔”

22 داؤد نے اِتی سے کہا ، “چلو نہر قدرون کو پار کریں۔ ”

اس لئے جات کے اتی نے اور اسکے تمام لوگ اور انکے بچے نہر قدرون کو پار کئے۔ 23 تمام لوگ بلند آواز سے رو رہے تھے۔ بادشاہ داؤد نے نہر قدرون کو پار کیا۔ تب تمام لوگ ریگستان کی طرف گئے۔ 24 صدوق اور اسکے ساتھ سارے لا وی خدا کے معاہدہ کے صندوق کو لے جا رہے تھے۔ انہوں نے خدا کے مقدس صندوق کو نیچے رکھا۔ اور ابی یاتر نے جب دعا کی تب تمام لوگ یروشلم سے نکل گئے۔

25 بادشاہ داؤد نے صدوق سے کہا ، “خدا کے مقدس صندوق کو یروشلم واپس لے جاؤ۔ اگر خدا وند مجھ سے خوش ہے تو وہ مجھے واپس لا ئے گا اور مجھے یروشلم اور اپنے گھر کو دیکھنے دیگا۔ 26 اگر خدا وند کہتا ہے کہ وہ مجھ سے خوش نہیں ہے تب میرے ساتھ وہ جو چا ہے کر سکتا ہے۔”

27 بادشاہ نے کاہن صدوق کو کہا ، “کیا تو سیر [e] (نبی ) نہیں ہے ؟ تم اپنے بیٹے اخیمعض اور ابی یاتر کے بیٹے یونتن کے ساتھ سلامتی سے شہر واپس جا ؤ۔ 28 جہاں لوگ ریگستان میں دریا کے پار جاتے ہیں میں وہاں اس کے قریب انتظار کروں گا۔ میں تب تک تمہارا انتظار کروں گا جب تک تمہاری طرف سے کوئی خبر نہیں ملتی۔ ”

29 اس لئے صدوق اور ابی یاتر خدا کے مقدس صندوق کو واپس یروشلم لے گئے اور وہا ں رکے رہے۔

اخیتُفل کے خلاف داؤد کی بد دعا

30 داؤد زیتون پہا ڑی کی چوٹی پر گیا۔ وہ رو رہا تھا اس نے اپنا سر ڈھانک لیا او ر بغیر جوتوں کے گیا۔ داؤد کے ساتھ تمام لوگ بھی اپنا سر ڈھانک لئے وہ داؤد کے ساتھ رو تے ہو ئے گئے۔

31 ایک آدمی نے داؤد سے کہا ، “اخیتُفل ہی ان لوگوں میں سے ایک ہے جس نے ابی سلوم کے ساتھ منصوبہ بنا یا۔” تب داؤد نے دعا کی، “خداوند! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ اخیتُفل کے مشورے کو بیکار کر دے۔” 32 داؤد پہا ڑی کے اوپر آیا۔ وہ جگہ تھی جہاں وہ اکثر خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔ اس وقت حوسی ارکی اس کے پاس آیا۔ حوسی کا کوٹ پھٹاہوا تھا اور اس کے سر پر دھول تھی۔

33 داؤد نے حوسی سے کہا ، “اگر تم میرے ساتھ چلو گے تو تم ہما رے لئے صرف ایک بوجھ ہو گے۔ 34 لیکن اگر تم واپس یروشلم جا ؤ تو تم اخیتُفل کے مشورے کو بیکار کر سکتے ہو۔ ابی سلوم سے کہو ، ’ بادشاہ ! میں تمہا را خادم ہوں میں نے آپ کے باپ کی خدمت کی لیکن اب میں آپ کی خدمت کروں گا۔‘ 35 صدوق اور ابی یاتر کا ہن تمہا رے ساتھ ہو نگے جو کچھ تم بادشاہ کے محل میں سنو ہر چیز تم کو انہیں کہنا چا ہئے۔ 36 صدوق کا بیٹا اخیمعض اور ابی یاتر کا بیٹا یونتن ان کے ساتھ ہونگے۔ جو کچھ تم سنو گے خبر کے طور پر تم میرے پاس بھیجوگے۔”

37 تب داؤد کا دوست حوسی شہر کے اندر گیا۔ اور ابی سلوم یروشلم کو پہنچا۔

ضیبا کی داؤد سے ملا قات

16 داؤد زیتون کی پہا ڑی کی چوٹی پر کچھ دور گیا اور وہ وہاں مفیبوست کا خادم ضیبا سے ملا۔ ضیبا کے پاس دو زین کسے ہو ئے خچّر تھے۔ خچروں پر دوسو روٹیاں ، سوکشمش کے خوشے ، سوتا بستانی میوے اور مئے بھرا ایک چمڑے کا تھیلا تھا۔ بادشاہ داؤد نے ضیباسے کہا ، “یہ چیزیں کس کے لئے ہیں ؟”

ضیبا نے جواب دیا ، “خچر بادشاہ کے خاندان کے سواروں کے لئے ہیں۔روٹی اور تابستانی میوے خدمت گزار افسروں کے کھانے کے لئے ہیں اور جب کو ئی آدمی ریگستان میں کمزوری محسوس کرے وہ مئے پی سکتا ہے۔

بادشاہ نے پو چھا ، “مفیبوست کہاں ہے ؟”

ضیبا نے بادشاہ کو جواب دیا ، “مفیبوست یروشلم میں ٹھہرا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ آج اسرا ئیلی میرے دادا کی بادشاہت مجھے واپس دیں گے۔”

تب بادشاہ نے ضیباسے کہا ، “اس وجہ سے میں اب ہر چیز جو مفیبوست کی ہے تمہیں دیتا ہوں۔”

ضیبانے کہا ، “ میں آپ کا قدم بوس ہو تا ہوں مجھے امید ہے کہ میں ہمیشہ آپ کو خوش رکھنے کے قابل ہو ں گا۔”

سمعی کا داؤد کو بد دعا دینا

داؤد بحوریم آیا۔ ساؤل کے خاندان کا ایک آدمی بحوریم سے باہر آیا۔ اس آدمی کا نام سمعی تھا جو جیرا کا بیٹا تھا۔ سمعی داؤد کو بُرا کہتا ہوا باہر آیا اور وہ بار بار بُری باتیں کہتا رہا۔

سمعی نے داؤد اور اس کے افسروں پر پتھر پھینکنا شروع کیا۔ لیکن لوگوں اور سپا ہیوں نے داؤد کو گھیرے میں لے لیا اور وہ سب لوگ اس کے اطراف جمع ہو گئے۔ سمعی نے داؤد کو بد دعا دی۔ اس نے کہا ، “باہر جا ؤ تم اچھے نہیں ہو ،قاتل ! خداوند تم کو سزا دے رہا ہے کیوں ؟ کیوں کہ تم نے ساؤل کے خاندان کے لوگوں کو مار ڈا لا تم نے ساؤل کی بادشاہت چرا لی۔ لیکن ا ب وہی بُری چیزیں تمہا رے ساتھ ہو رہی ہیں خداوند نے بادشا ہت تمہا رے بیٹے ابی سلوم کو دی کیوں کہ تم قاتل ہو۔”

ضرویا ہ کے بیٹے ابیشے نے بادشاہ سے کہا ، “میرے آقا میرے بادشاہ یہ مُردہ کتا کیوں تمہیں بد دعادیتا ہے مجھے وہاں پر جانے دو اور اس کا سر کاٹنے دو۔”

10 لیکن بادشا ہ نے جواب دیا ، “میں کیا کر سکتا ہوں ضرویاہ کے بیٹو۔ یقیناً سمعی مجھے بد دعا دے رہا ہے لیکن خداوند نے اس کو کہا ہے کہ مجھے بد دعا دے۔ لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ تم یہ کیوں کر رہے ہو ؟” 11 داؤد نے ابیشے سے بھی کہا اور اسکے خدموں سے بھی ، “دیکھو میرا اپنا بیٹا ( ابی سلوم ) مجھے مار ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ شخص جو بنیمین کے خاندانی گروہ سے ہے مجھے مارڈالنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ اس کو اکیلا رہنے دو۔ اسکو مجھے بری باتیں کہنے دو۔ خدا وند نے اس کو ایسا کرنے کو کہا ہے۔ 12 ہو سکتا ہے آج خدا وند میرے ساتھ بری باتیں پیش آتے دیکھے گا ، تب وہ خود ہی مجھے ان بری باتوں کے بدلے میں جو سمعی آج کہتا ہے اچھی چیزیں دیگا۔”

13 اس لئے داؤد اور اس کے آدمی سڑک پر اپنے راستے پر گئے۔ لیکن سمعی پہاڑی کے کنارے سے ان لوگوں کے مد مقابل متوازی سڑک پر چلتا رہا۔ انکے درمیان ایک وادی تھی سمعی راستے میں داؤد کے بارے میں بری باتیں کرتا رہا۔ اس نے داؤد پر کیچڑ اور پتھر بھی پھینکے۔

14 بادشاہ داؤد اور اس کے تمام لوگ (دریائے یردن) آئے بادشاہ اور اسکے لوگ تھک گئے تھے۔ اس لئے ان لوگوں نے آرام کیا اور وہاں اپنے آپ کو تازہ دم کیا۔

15 ابی سلوم ، اخیتفُل اور سبھی بنی اسرائیل یروشلم کو آئے۔ 16 داؤد کا دوست حوسی ارکی ابی سلوم کے پاس آیا۔ حوسی نے ابی سلوم سے کہا ، “بادشاہ کی عمر دراز ہو۔ بادشاہ کی عمر دراز ہو۔”

17 ابی سلوم نے جواب دیا ، “تم اپنے دوست کے وفادار کیوں نہیں ہو ؟ تم نے اپنے دوستوں کے ساتھ یروشلم کیوں نہیں چھو ڑا ؟”

18 حوسی نے کہا ، “میں اس آدمی کی خدمت کرتا ہوں جسے خدا وند نے چنا ہے۔ ان لوگوں نے اور بنی اسرائیلیوں نے تمہیں چنا ہے۔ میں تمہارے ساتھ رہونگا۔ 19 اس سے پہلے میں نے تمہارے باپ کی خدمت کی۔ فی الحال مجھے اب داؤد کے بیٹے کی خدمت کر نی ہوگی۔ اس لئے میں تمہاری خدمت کروں گا۔”

ابی سلوم کا اخیتفُل سے مشورہ لینا

20 ابی سلوم نے اخیتفل سے کہا ، “براہ کرم ہمیں کہو کہ کیا کرنا ہوگا ؟”

21 اخیتفل نے ابی سلوم سے کہا ، “ تیرے باپ نے یہاں چند بیویوں کو گھر کی دیکھ بھا ل کے لئے چھو ڑا ہے۔جاؤ اور انکے ساتھ جنسی تعلقات کرو۔ تب تمام بنی اسرائیلی سنیں گے کہ تمہارا باپ تم سے نفرت کرتا ہے۔ اور تمہارے سبھی لوگ تمہاری مدد کرنے کے لئے حوصلہ مند ہوجائیں گے۔”

22 تب انہوں نے گھر کی چھت پر ابی سلوم کے لئے خیمہ تانا۔ اور ابی سلوم نے اپنے باپ کی بیویوں سے جنسی تعلقات کئے۔ سبھی اسرائیلیوں نے دیکھا۔ 23 ابی سلوم نے سوچا اس وقت اخیتفل نے جو بھی مشورہ دیا وہ سچا اور اچھا تھا۔ داؤد بھی اس طرح سوچا کرتا تھا۔ داؤد اور ابی سلوم کے لئے یہ اتنا ہی اہم تھا جتنا کہ آدمی کے لئے خدا کی باتیں۔

داؤد کے بارے میں اخیتفل کا مشورہ

17 اخیتفل نے ابی سلوم سے کہا ، “مجھے اب ۰۰۰,۱۲ آدمیوں کو چننے دو تب آج رات میں داؤد کا پیچھا کروں گا۔ جب وہ تھکا ہوا اور کمزور ہوگا تو میں اس کو پکڑونگا۔” میں اس کو ڈراؤنگا اور اس کے تمام لوگ بھا گ جائیں گے۔لیکن میں صرف بادشاہ داؤد کو مارونگا۔ تب میں سب لوگوں کو تمہارے پاس لاؤنگا۔ اگر داؤد مرجائے گا تب سب لوگ امن سے واپس ہونگے۔”

یہ منصوبہ ابی سلوم اور تمام اسرائیلی قائدین کو اچھا معلوم ہوا۔ لیکن ابی سلوم نے کہا ، “ارکی حوسی کو بلا ؤ میں اسکی بات بھی سننا چاہتا ہوں کہ وہ کیا کہتا ہے۔”

حوسی اخیتفل کی رائے کو برباد کرتا ہے

حوسی ابی سلوم کے پاس آیا۔ ابی سلوم نے حوسی سے کہا ، “یہ منصوبہ اخیتفل نے دیا ہے کیا ہم کو اس پر عمل کرنا چاہئے ؟ اگر نہیں تو ہمیں کہو۔ ”

حوسی نے ابی سلوم سے کہا ، “اخیتفل کی رائے اس وقت ٹھیک نہیں ہے۔” حوسی نے مزید کہا ، “تم جانتے ہو کہ تمہارا باپ اور اسکے آدمی طاقتور آدمی ہیں۔ وہ اس جنگلی ریچھ کی طرح خطرناک ہیں جس کے بچوں کو کوئی اٹھا لے گیا ہو۔ تمہارا باپ ایک تربیت یافتہ جانباز ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ (ساری رات )نہیں رکے گا۔ وہ شاید پہلے ہی سے غار یا کسی دوسری جگہ پر چھپا ہے اگر تمہارا باپ پہلے تمہارے آدمیوں پر حملہ کرتا ہے تو لوگ اسکے بارے میں سنیں گے اور وہ سوچیں گے ابی سلوم کے پیرو کارو ں کو ہرایا جا رہا ہے۔ 10 تب وہ لوگ بھی جو شیر ببر کی مانند بہادر ہیں خوفزدہ ہونگے کیوں ؟ کیوں کہ تمام اسرائیلی جانتے ہیں کہ تمہارا باپ طاقتور لڑ نے والا ہے اور اسکے آدمی بہادر ہیں۔

11 “ یہ میری رائے ہے : تمہیں چاہئے کہ تمام اسرائیلیوں کو جو دان اور بیر سبع کے ہیں ایک ساتھ جمع کرو۔ تب کہیں سمندر کی ریت کی مانند بہت سے لوگ ہونگے۔ تب تمہیں خود جنگ میں جانا چاہئے۔ 12 ہم داؤد کو جہاں کہیں بھی چھپا ہے اس جگہ سے پکڑیں گے۔ ہم کئی سپاہیوں کے ساتھ اس پر حملہ کریں گے۔ ہم شبنم کے ان بے شمار قطروں کی طرح ہونگے جو زمین کو ڈھانپ لیتے ہیں۔ ہم داؤد اور اسکے آدمیوں کو مارڈالیں گے۔ کو ئی آدمی زندہ نہیں رہے گا۔ 13 لیکن اگر داؤد شہر میں فرار ہوتا ہے تب تمام اسرائیلی اس شہر میں رسّیاں لائیں گے اور ہم لوگ اس شہر کی دیواروں کو گھسیٹ لیں گے اس شہر کا ایک پتھر بھی نہ چھو ڑا جائے گا۔”

14 ابی سلوم اور تمام اسرائیلیوں نے کہا ، “حوسی ارکی کا مشورہ اخیتفل کے مشورے سے بہتر ہے۔” یہ انہوں نے کہا کیوں کہ یہ خدا وند کا منصوبہ تھا۔خدا وند نے منصوبہ بنایا تھا کہ اخیتفل کے مشورے بے کار ہو جائیں۔ اس طرح خدا وند ابی سلوم کو سزا دے سکتا تھا۔

حُوسی کا داؤد کو انتباہ دینا

15 حوسی نے وہ باتیں کاہن صدوق اور ابی یاتر سے کہیں۔ حوسی نے انہیں ان باتوں کے متعلق کہا جس کا مشورہ اخیتفل نے ابی سلوم اور اسرائیل کے قائدین کو دیا تھا۔ حوسی نے صدوق اور ابی یاتر کو بھی ان باتوں کے متعلق بتایا جو اس نے خود رائے دی تھی۔ حوسی نے کہا۔ 16 “جلدی سے داؤد کو خبر بھیجو اس کو کہو کہ وہ آج رات ان جگہوں پر نہ ٹھہرے جہاں سے لوگ اکثر ریگستان میں داخل ہوتے ہیں۔ اسے اطلاع دو کہ وہ دریائے یردن کو ایک بار میں پار کر جائے۔ اگر وہ دریائے یردن پار کر لے تو بادشاہ اور اسکے لوگ نہیں پکڑے جائیں گے۔”

17 کاہنوں کے بیٹے یونتن اور اخیمعض عین راجل میں انتظار کئے وہ شہر میں جاتے ہوئے کسی کو دکھا ئی نہیں دینا چاہتے تھے۔ ایک خادمہ لڑ کی ان کے پاس آئی ان لوگوں کو پیغام دی۔ تب یونتن اور اخیمعض داؤد کے پاس گئے اور ساری جانکاری دے دی۔

18 لیکن ایک لڑکے نے یونتن اور اخیمعض کو دیکھا لڑ کا دوڑ کر ابی سلوم کو کہنے گیا۔ یونتن اور اخیمعض جلد ہی بھا گے وہ بحوریم میں ایک آدمی کے گھر پہنچے اس آدمی کے گھر کے سامنے میدان میں ایک کنواں تھا۔ یونتن اور اخیمعض اس کنویں میں گئے۔ 19 اس آدمی کی بیوی نے کنویں پر چادر پھیلا دی اور تب اس نے چادر کے اوپر اناج رکھ دی۔ تاکہ کوئی بھی آدمی کنویں میں جھانک کر چھپے ہوئے اخیمعض اور یونتن کو دیکھ نہ سکے۔ 20 ابی سلوم کے خادم عورت کے پاس آئے۔ انہو نے پوچھا ، “اخیمعض اور یونتن کہاں ہیں۔”

عورت نے ابی سلوم کے خادموں سے کہا ، “وہ پہلے ہی نالہ کے پار چلے گئے ہیں۔”

تب ابی سلوم کے خادم یونتن اور اخیمعض کو تلاش کرنے چلے گئے۔ لیکن وہ انہیں نہ پا سکے اس لئے ابی سلوم کے خادم یروشلم واپس ہوئے۔

21 ابی سلوم کے خادموں کے جانے کے بعد یونتن اورا خیمعض کنویں سے باہر اوپر آئے انہوں نے جاکر بادشاہ داؤد سے کہا۔ انہوں نے بادشاہ داؤد کو اطلاع دی ، “جلدی کرو دریاکے پار جاؤ۔ اخیتفل نے یہ باتیں آپ کے خلاف کہی ہیں۔ ”

22 تب داؤد اور اسکے لوگوں نے دریائے یردن کو پار کیا۔ سورج نکلنے سے پہلے داؤد کے تمام لوگ دریائے یردن پار کر چکے تھے۔

اخیتفل کی خود کشی

23 اخیتفل نے دیکھا کہ اسرائیلیوں نے اس کی نصیحت کو قبول نہیں کیا۔ اخیتفل نے اپنے گدھے پر زین ڈا لی اور اپنے وطن واپس چلا گیا۔ اس نے اپنے خاندان کے لوگوں کی حمایت میں ایک وصیت نامہ لکھا اور تب اس نے خود بخود پھا نسی لے لی۔ اس کے مرنے کے بعد لوگوں نے اس کو اسکے باپ کی قبر میں دفن کیا۔

ابی سلوم کا دریائے یردن کو پار کرنا

24 داؤ دمحنایم پہنچا۔ ابی سلوم اور تمام اسرائیلی جو اسکے ساتھ تھے یردن دریا کو پار گئے۔ 25 ابی سلوم نے عماسا کو فوج کا نیا سپہ سالار بنایا۔ عماسا نے یوآب کی جگہ لی۔ عماسا اسمٰعیلی اترا کا بیٹا تھا۔ عماسا کی ماں ابیجیل تھی جو ضرویاہ کی بہن ناحس کی بیٹی تھی۔ ( ضرویاہ یعقوب کی ماں تھی۔ ) 26 ابی سلوم اور اسرائیلیوں نے جلعاد میں اپنا خیمہ قائم کیا۔

سوبی ،مکیر اور برزلی

27 داؤد محنایم پہنچا۔ سوبی ، مکیر اور برزلی اس جگہ پر تھے۔ ( ناحس کا بیٹا سوبی ربّہ کے عمّونی شہر کا رہنے والا تھا۔ مکیر عمی ایل کا بیٹا تھا جو لودبار کا رہنے والا تھا۔ برزلی راجلیم جلعاد کا تھا۔ ) 28-29 ان تینوں آدمیوں نے کہا ، “صحرا میں لوگ بہت تھکے ہوئے ، بھو کے اور پیاسے بھی ہیں۔ ” اس لئے وہ لوگ اور اسکے ساتھ جو لوگ تھے داؤد کے پاس کئی چیزیں لائیں۔ وہ انکے لئے بستر ، کٹورے اور بہت سے کھانے کی چیزیں لے آئے۔ وہ گیہوں ، بارلی ، آٹا ، پکا ہوا کھا نا بھنی ہوئی پھلیاں ، سوکھے بیج ،شہد ، مکھن، بھیڑ اور گائے کے دودھ کا پنیر بھی لے آئے۔

داؤد کی جنگ کے لئے تیاری

18 داؤد نے اپنے آدمیو ں کو گِنا۔ اس نے ہر ایک ہزار اور ہر ایک سو آدمیوں پر سپہ سالا ر چُنا۔ داؤد نے اپنے آدمی کو تین گروہوں میں علٰحدہ کیا۔ تب داؤد نے اپنے آدمیو ں کو لڑنے کے لئے بھیجا۔ یو آب ایک تہا ئی آدمیوں کا سردار تھا۔ یو آب کا بھا ئی او ر ابیشے جو ضرویاہ کا بیٹا تھا۔ وہ دوسرے ایک تہا ئی آدمیوں کا سردار تھا۔ اور جات اتی آخری تہا ئی آدمیو ں کا سردار تھا۔

بادشاہ داؤد نے لوگوں سے کہا ، “میں بھی تمہا رے ساتھ جا ؤں گا۔”

لیکن آدمیوں نے کہا ، “نہیں ! آپ کو ہمارے ساتھ نہیں جانا چا ہئے۔کیوں ؟ کیوں کہ اگر ہم جنگ سے بھاگ جا ئیں تو ابی سلوم کے آدمی توجہ نہ کریں گے اگر ہماری فوج کے آدھے آدمی بھی مار دیئے جا ئیں تو بھی ابی سلوم کے آدمی پرواہ نہ کریں گے لیکن آپ ہمارے لئے ۱۰۰۰۰ لوگوں جیسے قیمتی ہیں۔ آپ کے لئے یہ بہتر ہے کہ شہر ہی میں ٹھہرے رہیں۔ اس لئے کہ اگر ہمیں مدد کی ضرورت ہو گی تب آپ ہما ری مدد کر سکیں گے۔”

بادشاہ نے اپنے لوگوں سے کہا ، “جو تم بہتر سمجھ تے ہو میں وہی کروں گا۔ ” تب بادشاہ پھا ٹک کے قریب کھڑے ہو ئے۔ فوج باہر چلی گئی وہ ۱۰۰۰ اور ۱۰۰ آدمیوں کے گروہوں میں باہر گئے۔

نوجوان ابی سلوم کے ساتھ نر می سے رہو

بادشاہ نے ابیشے ، اِتی اور یو آب کو حکم دیا۔ اس نے کہا ، “یہ میرے لئے کرو اور ابی سلوم کے ساتھ نر می سے رہو۔” سب لوگوں نے بادشاہ کے احکام کو جو ابی سلوم کے متعلق تھا سنا ۔

داؤد کی فوج کا ابی سلوم کی فوج کو شکست دینا

داؤد کی فوج باہر میدان میں آئی اور ابی سلوم کے اسرا ئیلیوں کے خلاف وہ افرائیم کے جنگل میں لڑی۔ داؤد کی فوج نے اسرا ئیلیوں کو شکست دی اس دن ۰۰۰،۲۰ آدمی مارے گئے۔ جنگ پو رے ملک میں پھیل گئی۔ لیکن اس دن تلوار سے مرنے کے بہ نسبت جنگل میں زیادہ آدمی مارے گئے۔

ایسا ہو ا کہ ابی سلوم داؤد کے افسروں سے ملا۔ ابی سلوم اپنے خچر پر سوار ہو کر فرار ہو نے کی کو شش کیا۔ خچّر بڑے بلوط کے درخت کی شاخوں کے نیچے گیا۔ شاخیں بہت گھنی تھیں اور ابی سلو م کا سر درخت میں پھنس گیا اس کا خچر اس کے نیچے سے باہر نکل بھا گا اس لئے ابی سلوم ٹہنیوں میں پھنس کر لٹک رہا تھا۔

10 اس واقعہ کو ایک آدمی نے دیکھا اس نے یو آ ب سے کہا ، “میں نے ابی سلوم کو بلوط کے درخت میں لٹکا دیکھا۔”

11 یو آب نے اس آدمی سے کہا ، “تم نے اس کو کیوں نہیں مار ڈا لا اور اس کو زمین پر گرنے کیوں نہیں دیا۔ میں تمہیں ایک کمر بند اور چاندی کے دس ٹکڑے دیتا۔”

12 اس آدمی نے یو آب سے کہا ، “اگر آپ ۱۰۰۰ چاندی کے ٹکڑے بھی دیتے تو میں بادشاہ کے بیٹے کو ضرر نہیں پہنچا تا کیوں؟ کیوں کہ ہم نے بادشاہ کے حکم کو جو تمہیں اور ابیشے اور اتی کو دیا گیا تھا وہ سنا تھا۔ بادشاہ نے کہا ، ’ ہو شیار رہو نوجوان ابی سلوم کو نقصان نہ پہنچے۔‘ 13 اگر میں ابی سلوم کو مار ڈالتا تو بادشاہ کو خود ہی معلوم ہوجاتا اور آپ مجھ کو نہیں بچاتے۔”

14 یوآب نے کہا ، “میں تمہارے ساتھ اپنا وقت خراب نہیں کرونگا۔”

ابی سلوم ابھی تک زندہ اور بلوط کے درخت میں لٹک رہا ہے۔ یوآب نے تین بھا لے لیا اور انکو ابی سلوم پر پھینکا۔ بھا لا ابی سلوم کے دل کو چھید تے ہو ئے نکل گیا۔ 15 یوآب کے پاس دس نوجوان سپا ہی تھے جو اسکا زرہ بکتر اور ہتھیار لے جاتے تھے۔ وہ سب آدمی ابی سلوم کے اطراف جمع ہوئے اور اس کو مار ڈا لے۔

16 یوآب نے بگل بجایا اور لوگوں سے کہا ، “ابی سلوم کے اسرائیلیوں کا پیچھا روک دیں۔ 17 تب یوآب کے آدمیوں نے ابی سلوم کے جسم کو اٹھا یا اور جنگل کے بڑے سوراخ میں پھینک دیا اور انہوں نے سوراخ کو کئی پتھروں سے بند کر دیا۔

تمام اسرائیلی جو ابی سلوم کے ساتھ تھے اپنے گھر بھاگ گئے۔

18 جب ابی سلوم زندہ تھا اس نے بادشاہ کی وادی میں ایک ستون کھڑا کیا تھا۔ ابی سلوم نے کہا ، “میرا کوئی بیٹا نہیں جو میرا نام زندہ رکھے۔” اس لئے اس نے اس ستون کو اپنے بعد نام دیا۔ وہ ستون آج بھی “ ابی سلوم کی یاد گار ستون ” کہلاتا ہے۔

یوآب کا داؤد کو خبر بھیجنا

19 صدوق کے بیٹے اخیمعض نے یوآب کو کہا ، “مجھے اب بھا گ کر جانے دو اور بادشاہ داؤد کو خبر دینے دو۔ میں ان سے کہونگا کہ خدا وند نے انکے دشمنوں کو تباہ کردیا ہے۔”

20 یوآب نے اخیمعض کو جواب دیا ، “نہیں ! تم داؤد کو آج خبر نہیں پہونچاؤگے۔ تم کسی دوسرے وقت خبر پہنچانا لیکن آج نہیں کیوں ؟ کیوں کہ بادشاہ کا بیٹا مر گیا ہے۔”

21 تب یوآب نے ایک ایتھوپیا کے آدمی سے کہا ، “جاؤ! بادشاہ سے جو کچھ تم نے دیکھا ہے کہو۔”

اس لئے ایتھو پی یوآب کے سامنے جھکا اور داؤد کو کہنے کے لئے دوڑا۔

22 لیکن صدوق کے بیٹے اخیمعض نے دوبارہ یوآب سے درخواست کی جو کچھ بھی ہو اس کی پر واہ نہیں براہ کرم ایتھو پی کے پیچھے مجھے دوڑ کر جا نے دو۔

یوآب نے کہا ، “بیٹے تم کیوں خبر پہنچانا چاہتے ہو خبرپہنچانے کے لئے تم کوئی انعام نہیں پاؤ گے۔”

23 اخیمعض نے جواب دیا ، “جو کچھ ہو اسکی پرواہ نہیں مجھے داؤد کے پاس جانے دو۔”

یوآب نے اخیمعض سے کہا ، “اچھا ! دوڑو داؤد کے پاس۔” تب اخیمعض یردن کی وادی میں سے دوڑا اور ایتھو پی سے آگے نکل گیا۔

داؤد خبر سُنتا ہے

24 داؤد شہر کے دو پھاٹکو ں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ پہریدار شہر کے دیواروں کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ پہریدار نے دیکھا کہ ایک آدمی تنہا دوڑ رہا ہے۔ 25 پہریدار نے بادشاہ داؤد کو کہنے کے لئے زور سے پکا را۔

بادشاہ داؤد نے کہا ، “اگر آدمی اکیلا ہے تو وہ خبر لا رہا ہے۔”

آدمی شہر سے قریب سے قریب تر ہوا۔ 26 پہریدار نے دیکھا کہ دوسرا آدمی دوڑ رہا ہے۔ پہریدا نے پھاٹک کے چوکیدار کو اطلاع دی ، “وہاں ایک اور دوسرا شخص اکیلا دوڑ رہا ہے۔”

بادشاہ نے کہا ، “وہ بھی خبر لا رہا ہے۔”

27 پہریدار نے کہا ، “پہلا دوڑنے وا لا آدمی صدوق کا بیٹا اخیمعض کے جیسا ہے۔

بادشا نے کہا ، “اخیمعض ایک اچھا آدمی ہے وہ اچھی خبر لا رہا ہو گا۔”

28 اخیمعض نے بادشا ہ کو پُکارا اور کہا ، “ہر چیز ٹھیک ہے۔ اخیمعض نے اپنا سر بادشا ہ کے سامنے فرش کی طرف جھکا یا۔ اخیمعض نے کہا ، “خداوند اپنے خدا کی حمد کرو ! خدا وند نے ان آدمیوں کو شکست دی ، میرے آقا میرے بادشاہ جو آپ کے خلاف تھے۔ ”

29 بادشاہ نے پوچھا ، “کیا ابی سلوم خیر یت سے ہے ؟ ”

اخیمعض نے جواب دیا ، “جب یوآب نے مجھے بھیجا تو میں نے ایک بڑی بھیڑ دیکھی جو مشتعل تھی۔ لیکن میں نے نہیں جانا کہ یہ آخر منجملہ کیا تھا ؟ ”

30 تب بادشاہ نے کہا ، “یہاں ٹھہرو اور انتظار کرو۔ ” اخیمعض وہاں گیا اور کھڑا رہا انتظار کرتا رہا۔

31 ایتھوپی پہنچا اس نے کہا ، “میرے آقا اور بادشاہ کے لئے خبر ہے آج خدا وند نے ان لوگوں کو سزا دی جو آپ کے خلاف تھے۔ ”

32 بادشاہ نے ایتھو پی سے پوچھا ، “کیا نو جوان ابی سلوم خیریت سے ہے ؟”

ایتھو پی نے جواب دیا ، “میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے دشمن اور سب لوگوں کو جو آپ کے خلاف آپ کو چوٹ پہنچانے آئے تھے اس نو جوان آدمی ( ابی سلوم ) کی طرح سزا ملے گی۔ ”

33 تب بادشاہ نے جان لیا کہ ابی سلوم مر گیا ہے۔ بادشاہ بہت پریشان تھا وہ دیواروں کے پھاٹک کے اوپر کمرہ تک گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ جب وہ روتا ہوا چلا تو وہ یہ کہہ رہا تھا ، “اے میرے بیٹے ابی سلوم میرے بیٹے ابی سلوم کاش تیرے بجائے مجھے مرنا چاہئے تھا ، اے ابی سلوم میرے بیٹے ! میرے بیٹے ! ”

یوآب کا داؤد کو پھٹکارنا

19 لوگوں نے یوآب کو خبر دی انہوں نے یوآب کو کہا ، “دیکھو بادشاہ رو رہا ہے اور ابی سلوم کے لئے غمزدہ ہے۔ ” داؤد کی فوج نے اس دن جنگ جیت لی لیکن یہ دن بڑا غمزدہ تھا سب لوگوں کے لئے یہ بہت غم کا دن تھا کیوں کہ لوگوں نے سنا کہ بادشاہ اپنے بیٹے کے لئے بہت غمزدہ ہے۔

لوگ خاموشی سے شہر میں آئے ان لوگوں کی مانند جو جنگ میں شکست کے بعد بھاگ کر آتے ہوں۔ بادشاہ نے اپنا چہرہ ڈھانک لیا وہ بلند آواز سے رو رہا تھا ، “اے میرے بیٹے ابی سلوم اے ابی سلوم میرے بیٹے میرے بیٹے۔ ”

یوآب بادشاہ کے محل میں آیا یوآب نے بادشاہ سے کہا ، “آج آپ اپنے سبھی خادموں کو شرمندہ کئے ہیں۔ دیکھئے ان خادموں نے آج آپ کی جان بچائی ہے اور انہوں نے آپکے بیٹے بیٹیوں اور بیویوں کی خادماؤں کی زندگی بچائی ہے۔ آپ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو آپ سے نفرت کرتے ہیں اور آپ ان سے نفرت کرتے ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ آج آپ نے یہ صاف طور پر بتا دیا کہ آپ کے افسروں اور آپکے آدمیوں کی آپکے پاس کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم بالکل خوش ہوتے اگر آج ابی سلوم زندہ رہتا اور ہم سب مرجاتے۔ اب اٹھیں اور جاکر اپنے خادموں سے کہیں انکی ہمت بڑھائیں میں خدا وند کی قسم سے کہتا ہوں اگر آپ باہر جاکر اسی وقت ایسا نہ کریں گے تو پھر آج رات آپکے ساتھ ایک بھی آدمی نہ ہوگا۔ اور بچپن سے آج تک آپ پر جو بھی مصیبتیں آئی ہیں یہ مصیبت اس سے بڑھ کر ہوگی۔ ”

تب بادشاہ شہر کے دروازہ تک گئے۔ یہ خبر پھیل گئی کہ بادشاہ دروازہ پر ہیں اس لئے تمام لوگ بادشاہ کو دیکھنے آئے۔

داؤد کا دوبارہ بادشاہ بننا

تمام اسرائیلی جو ابی سلوم کے ساتھ تھے بھاگ گئے اور گھر چلے گئے۔ اسرائیل کے سب خاندانی گروہ کے لوگ اپنے بیچ میں بحث و مباحثہ کرنے لگے انہوں نے کہا ، “بادشاہ داؤد نے ہمیں فلسطینیوں اور ہمارے دوسرے دشمنوں سے بچا یا۔ لیکن داؤد ابی سلوم سے بھاگ گیا تھا۔ 10 اس لئے ہم نے ابی سلوم کو چنا تھا کہ وہ ہم پر حکو مت کرے لیکن ابی سلوم مر گیا ہے وہ جنگ میں مارا گیا اس لئے ہمیں داؤد کو دوبارہ بادشاہ بنانا ہوگا۔ ”

11 بادشاہ داؤد نے صدوق اور ابی یاتر کاہنوں کو خبر دی۔ داؤد نے کہا ، “یہوداہ کے قائدین سے بات کرو اور کہو ، ’ تم لوگ بادشاہ داؤد کو واپس اس کے محل میں لانے کے لئے آخری خاندانی گروہ کیوں ہو ؟ جو کچھ بھی سارے اسرائیل میں بادشاہ کو واپس لانے کے متعلق کہا جا رہا ہے بادشاہ تک یہ خبر پہنچ چکی ہے۔ 12 تم میرے بھا ئی ہو تم میرا خاندان ہو تو پھر تم آخر خاندانی گروہ بادشاہ کو واپس گھر لانے کے لئے کیوں ہو ؟ 13 اور عماسا سے کہا ، ’ تم میرے خاندان کا ایک حصہ ہو اگر میں تمہیں یوآب کی جگہ فوج کا سپہ سالار نہ بناؤں تو خدا مجھے سزا دے۔ ”

14 داؤد نے یہوداہ کے تمام لوگوں کے دلوں کو جیت لیا۔ اس لئے وہ لوگ ایک ساتھ راضی ہوگئے مانو کہ وہ لوگ ایک ہی آدمی تھے یہوداہ کے لوگوں نے داؤد کو خبر بھیجی۔ انہوں نے کہا ، “تم اور تمہارے سبھی خادم واپس آئے۔ ”

15 تب بادشاہ داؤد دریائے یردن پر آئے۔ یہوداہ کے لوگ بادشاہ سے ملنے اور اس کو دریائے یردن کے پار لے جانے کے لئے جلجال آئے۔

سمعی داؤد سے معافی چاہتا ہے

16 سمعی بنیمین کے خاندان کے گروہ کے جیرا کا بیٹا تھا۔ وہ بحوریم میں رہتا تھا۔سمعی نے بادشاہ داؤد سے ملنے کے لئے جلدی کی۔ سمعی یہودا ہ کے لوگوں کے ساتھ آیا۔ 17 تقریباً ۱۰۰۰ بنیمین کے خاندان کے گروہ کے سمعی کے ساتھ آئے ساؤل کے خاندان کا خادم ضیبا بھی آیا۔ ضیبا اپنے ۱۵ بیٹوں اور ۲۰ خادموں کو اپنے ساتھ لا یا یہ سبھی لوگوں دریا ئے یردن پر بادشا ہ داؤد سے ملنے کے لئے جلدی سے پہنچے۔

18 لوگ دریائے یردن کے پاربادشا ہ کے خاندان کو یہودا ہ واپس لانے میں اور جو کچھ بھی خواہش بادشا ہ کی تھی اسے کرنے میں مدد کر نے کیلئے گئے۔ جب بادشا ہ دریا پار کر رہا تھا جیرا کا بیٹا سمعی اس سے ملنے آگے آیا اس نے بادشا ہ کے سامنے تعظیم سے اپنے سر کو زمین کی طرف جھکا یا۔ 19 سمعی نے بادشا ہ سے کہا ، “میرے آقا ! میں نے جو قصور کیا ہے اس کے متعلق نہ سو چئے۔ میرے آقا و بادشا ہ اُن بُرے کا موں کو یاد نہ کریں جو میں نے اس وقت کیا جب آپ نے مجھے یروشلم میں چھوڑا تھا۔ 20 میں جانتا ہوں کہ میں نے گنا ہ کیا لیکن میں یوسف کے خاندان کا پہلا آدمی ہوں جو آپ سے ملنے آج یہاں آیا ہوں، میرے آقا و بادشاہ۔”

21 لیکن ضرویاہ کے بیٹے ابیشے نے کہا ، “ہمیں سمعی کو مار ڈالنا چا ہئے کیوں کہ اس نے خداوند کے چنے ہو ئے بادشا ہ کے خلاف بُری باتیں کیں۔”

22 داؤد نے کہا ، “ضرویاہ کے بیٹو مجھے تمہارے ساتھ کیا کرنا چا ہئے آج تم میرے خلاف ہو۔ کو ئی بھی آدمی اسرائیل میں مارا نہیں جا ئے گا۔ آج میں جانتا ہوں کہ میں اسرائیل کا بادشا ہ ہو ں۔”

23 تب داؤد نے سمعی سے کہا ، “تم نہیں مرو گے۔” بادشا ہ نے سمعی سے وعدہ کیا کہ وہ سمعی کو نہیں مارے گا۔

مفیبوست کا داؤد سے ملنا

24 ساؤل کا پو تا مفیبوست بادشاہ داؤد سے ملنے آیا۔ بادشا ہ کے یروشلم سے نکل کر واپس آنے تک کے عرصے میں مفیبوست نے اپنے پیروں کی پرواہ نہیں کی ، نہ ہی اپنی مونچھیں کتریں نہ ہی اپنے کپڑے دھو ئے۔ 25 جب مفیبوست یروشلم میں بادشا ہ سے ملا بادشا ہ نے کہا ، “مفیبوست ! جب میں یروشلم سے بھاگ گیا تو تم اس وقت میرے ساتھ کیوں نہیں گئے ؟ ”

26 مفیبوست نے جواب دیا ! میرے آقا و بادشا ہ میرے خادم نے مجھے بے وقوف بنایا۔ میں لنگڑا ہوں اس لئے میں نے اپنے خادم ضیبا سے کہا ، ’ جا ؤ گدھے پر زین ڈا لو تا کہ میں سوار ہو کر بادشا ہ کے ساتھ جا ؤں۔‘ 27 لیکن اس نے مجھے فریب دیا صرف وہ آپ کے پاس گیا اور میرے بارے میں بُری باتیں کہیں۔ لیکن میرے بادشاہ و آقا آپ خدا کے فرشتے کی مانند ہیں جو آپ مناسب سمجھیں وہ کریں۔ 28 آپ میرے باپ دادا کے سارے خاندان کو مارڈال سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ آپ نے مجھے ان لوگوں کے ساتھ شریک ہونے کی اجازت دی جو کہ آپ کے میز پر کھا تے ہیں۔ اس لئے میں یہ حق نہیں رکھتا کہ بادشاہ سے کسی چیز کے متعلق شکایت کروں۔ ”

29 بادشاہ نے مفیبوست سے کہا ، “اپنے مسائل کے بارے میں اور کچھ مت کہو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تم اور ضیبا زمین کو تقسیم کر سکتے ہو۔ ”

30 مفیبوست نے بادشاہ سے کہا ، “میرے آقا و بادشاہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ آپ سلامتی سے گھر واپس آئے۔ ضیبا کو زمین لے لینے دیں۔

داؤد کا برزلی کو اپنے ساتھ یروشلم چلنے کو کہنا

31 جلعاد کا برزلی راجلیم سے آیا وہ بادشاہ داؤد کے ساتھ دریائے یردن کو آیا۔ وہ بادشاہ کے ساتھ اسے دریا کو پار کرانے کو گیا۔ 32 بر زلی بہت بوڑھا آدمی تھا۔ وہ ۸۰ سال کا بوڑھا تھا۔ اس نے بادشاہ کو کھانا اور دوسری چیزیں دیں جب داؤد محنایم میں ٹھہرا تھا۔ بر زلی نے ایسا اس لئے کیا کیوں کہ وہ دولت مند آدمی تھا۔ 33 داؤد نے بر زلی سے کہا ، “دریا کے پار میرے ساتھ آؤ۔ میں آپ کی دیکھ بھال کروں گا۔ آپ اگر میرے ساتھ یروشلم میں رہیں۔

34 لیکن برزلی نے بادشاہ سے کہا ، “کیا آپ جانتے ہیں میں کتنا بوڑھا ہوں ؟” کیا آپ سمجھتے ہیں میں آ پ کےساتھ یروشلم جا سکتا ہوں؟” 35 میں اسّی سال کا بو ڑھا ہوں اِتنا بو ڑھا ہوں کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا میں اتنا بوڑھا ہوں کہ جو کچھ بھی میں کھا تا پیتا ہوں اس کا مزہ نہیں لے سکتا۔ میں اتنا بوڑھا ہوں کہ آدمیوں اور عورتوں کے گانے کی آواز نہیں سن سکتا۔ آپ میرے ساتھ کیوں پریشان ہونا چاہتے ہیں ؟ 36 میں آپکی طرف سے اتنا عمدہ انعام کا مستحق نہیں ہوں۔ میں آپکے ساتھ دریائے یردن کے پار جانا چاہتا ہوں۔ 37 لیکن براہ کرم مجھے گھر واپس جانے دیں تاکہ میں اپنے شہر میں مر سکوں اور اپنے ماں باپ کی قبر کے پاس دفن ہو سکوں۔ لیکن یہاں کمہام آپ کا خادم ہوسکتا ہے۔ اس کو آپ اپنے ساتھ جانے دیں ، میرے آقا و بادشاہ آپ جو چاہیں اس کے ساتھ کریں۔ ”

38 بادشاہ نے جواب دیا ، “کمہام میرے ساتھ واپس جائے گا۔ میں آپ کے لئے اس کے ساتھ مہربانی کرونگا۔ میں آپ کے لئے کچھ بھی کروں گا۔ میں آپ کے لئے اس کے ساتھ مہربانی کروں گا۔ میں آپ کے لئے کچھ بھی کروں گا۔ ”

داؤد کا گھر واپس ہونا

39 بادشاہ نے بر زلی کو چنا اور دعا دی۔ بر زلی واپس گھر گیا اور بادشاہ اور اسکے تمام لوگ دریا کے پار گئے۔

40 بادشاہ نے دریائے یردن کو پار کیا اور جلجال گیا۔ کمہام اس کے ساتھ گیا۔ یہوداہ کے تمام لوگ اور اسرائیل کے آدھے لوگ داؤد بادشاہ کو دریا کے پار پہونچائے۔

اسرائیلی کی یہوداہ کے لوگوں سے نوک جھونک

41 تمام اسرائیلی بادشاہ کے پاس آئے۔ انہوں نے بادشاہ سے کہا ، “ہمارے بھا ئی یہوداہ کے لوگ آپ کو چرا کر لے گئے اور آپ کو اور آپ کے خاندان کو دریائے یردن کے پار آپ کے آدمیوں کے ساتھ لا ئے۔ کیوں ؟”

42 یہوداہ کے سب لوگوں نے اسرائیلیوں کو جواب دیا ، “کیو ں کہ بادشاہ ہمارا قریبی رشتہ دار ہے۔ تم ہم پر اس بات کے لئے غصہ کیوں کرتے ہو ؟” ہم نے بادشاہ کے خرچ پر کھانا نہیں کھا یا۔ بادشاہ نے ہمیں کوئی تحفے نہیں دیئے۔”

43 اسرا ئیلیوں نے جواب دیا ، “داؤد کے پاس ہمارے دس حصے ہیں۔ اس لئے داؤد پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے لیکن تم نے ہم لوگوں کو نظر انداز کیوں کیا ؟” وہ ہم لوگ تھے جو سب سے پہلے بادشاہ کو واپس لانے کی بات کی تھی۔”

لیکن یہوداہ کے لوگوں نے اسرائیلیوں کو بڑا بیہودہ جواب دیا۔ یہوداہ کے لوگوں کے الفاظ اسرائیلیوں کے الفاظ سے زیادہ سخت تھے۔

سبع کا اسرائیلیوں کو داؤد سے الگ کرنے کی راہ بتانا

20 اس جگہ پر بِکری کا بیٹا سبع نام کا ایک آدمی تھا وہ بُرا آدمی تھا۔ سبع بنیمین خاندان کے گروہ سے تھا۔ سبع نے لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے لئے بِگل بجا یا۔ تب اس نے کہا ،

“ہم لوگوں کاداؤد میں کو ئی حصّہ نہیں ہے۔
    اور نہ ہی ہم لوگوں کی یسّی کے بیٹے میں کو ئی میراث ہے۔
اسرا ئیل ، سب کو ئی اپنے خیموں میں چلے چلو۔”

“اس لئے تمام اسرا ئیلیوں نے داؤد کو چھو ڑا اور بِکری کے بیٹے سبع کے ساتھ ہو ئے۔ لیکن یہوداہ کے لوگ اپنے بادشاہ کے ساتھ دریا ئے یردن سے یروشلم تک سارے راستے رہے۔

داؤد یروشلم اپنے گھر واپس گیا۔ داؤد نے گھر کی دیکھ بھال کے لئے اپنی دس بیویوں کو چھوڑا۔ داؤد نے ان عورتوں کو ایک خاص مکان میں رکھا۔ اس نے مکان کے اطراف پہرہ رکھا۔ عورتیں مرنے تک اس مکان میں تھیں۔ داؤد ان عورتوں کی دیکھ بھال کرتا اور انہیں کھانے کو دیتا تھا۔ لیکن وہ ان سے جنسی تعلقات نہیں کرتا تھا اور وہ عورتیں بیوہ کی طرح مرنے تک رہیں۔

بادشاہ نے عماسا سے کہا ، “یہوداہ کے لوگوں سے کہو کہ وہ تین دن میں مجھ سے ملیں اور تمہیں بھی یہاں رہنا چا ہئے۔”

تب عماسا یہوداہ کے لوگوں کو بلانے کے لئے گیا۔ لیکن بادشاہ نے جو وقت دیا تھا اس سے زیادہ وقت لیا۔

داؤد کا ابیشے کو سبع کو مارنے کے لئے کہنا

داؤد نے ابیشے سے کہا ، “ بِکری کا بیٹا سبع ابی سلوم سے زیادہ ہمارے لئے خطرناک ہے۔ اس لئے میرے خادموں کو لو اور سبع کا پیچھا کرو جلدی کرو اس سے پہلے کہ سبع قلعہ کی دیواروں کے اندر داخل ہو جا ئے۔ اگر سبع محفوظ شہروں میں داخل ہو جا ئے تو ہم اس کو نہ پا سکیں گے۔” اس لئے یو آب اور ابیشے یروشلم سے نکلے کہ بِکری کے بیٹے سبع کا پیچھا کریں۔ یو آب نے خود اپنے آدمیوں کو اور کریتوں اور فلسطینیوں کو اور دوسرے سپا ہیوں کو بھی لا یا تھا۔

یو آب کا عماسا کو مارڈا لنا

جب یوآب اور فوج جبعون کی بڑی چٹان تک آئے تو عماسا ان سے ملنے باہرآیا۔ یو آب اپنی وردی پہنے ہو ئے تھے۔ یو آب کے پاس کمر بند تھا اور اس کی تلوار نیام میں تھی۔ یو آب جب عماسا سے ملنے جا رہا تھا تو یو آب کی تلو ار نیام سے باہر گر گئی۔ یو آب نے تلوار اٹھا ئی اور اس کوہا تھ میں پکڑ لیا۔ یو آ ب نے عماسا سے پو چھا ، “آپ کیسے ہیں بھا ئی ؟” تب یو آب نے اپنے داہنے ہا تھ سے عماسا کی داڑھی پکڑ لیا اور اس کو چومتے ہوئے سلام کرنے جا رہا تھا۔ 10 عماسا نے تلوار کی طرف توجہ نہ کی جویو آب کے ( بائیں ) ہا تھ میں تھی۔ لہذا اسی وقت یو آب نے اپنی تلوار عماسا کے پیٹ میں گھونپ دی۔ عماسا کے اندرونی حصّے یعنی انتڑیاں باہر نکل کر زمین پر پڑے۔یو آب نے عماسا کو دوبارہ نہیں گھونپا۔ وہ ایک ہی وار میں مر چکا تھا۔

داؤد کے آدمی سبع کی تلاش جاری رکھتے ہیں

پھر یو آب اور اس کا بھا ئی ابیشے دوبارہ بِکری کے بیٹے سبع کا پیچھا کر تے ہیں۔ 11 یو آب کے سپا ہیوں میں سے ایک عماسا کے جسم کے پاس کھڑا رہا۔ نوجوان سپا ہی نے کہا ، “تم سبھی لوگ جو یو آب اور داؤد کا ساتھ دیتے ہو آگے بڑھو اور یو آب کا پیچھا کرو۔”

12 عماسا وہاں سڑک کے درمیان اپنے ہی خون میں پڑا ہوا تھا سبھی لوگ جسم کو دیکھ رہے تھے۔ اس لئے نوجوان سپا ہی نے عماسا کے جسم کو سڑک سے ہٹا کر میدان میں رکھ دیا۔ تب اس نے اس پر ایک کپڑاڈال دیا۔ 13 عماسا کی لا ش کو سڑک سے ہٹانے کے بعد تمام لوگ یو آب کے پیچھے ہو لئے اور وہ لوگ بِکر ی کے بیٹے سبع کا پیچھا کرنے کے لئے یو آب کے ساتھ ہو گئے۔

سبع اِبیل بیت معکہ فرار ہو تا ہے

14 بِکری کا بیٹا سبع سب اسرا ئیل کے خاندانی گروہوں سے ہو تا ہوا اِبیل بیت معکہ گیا۔ تمام بِکری لوگ ایک ساتھ آئے اور سبع کے ساتھ ہو گئے۔

15 یو آب اور اس کے آدمی اِبیل بیت معکہ آئے۔ یو آب کی فوج نے شہر کو گھیر لیا۔ انہوں نے شہر کی دیوار کے سہا رے مٹی کے ڈھیر لگا ئے۔ انہوں نے ایسا اس لئے کیا کہ وہ ایسا کرنے کے بعد دیوار پر چڑھ سکتے تھے۔ تب یو آب کے آدمیوں نے دیواروں کے پتھروں کو توڑنا شروع کیا تا کہ وہ گر جا ئے۔

16 لیکن وہاں اس شہر میں ایک عقلمند عورت تھی جو شہر کی طرف سے چلّا ئی اور کہا، “ سنو! یو آب سے کہو یہاں آئے” میں اس سے بات کرنا چا ہتی ہوں۔”

17 یو آب عورت سے بات کرنے گیا۔

عورت نے اس سے پو چھا ، “کیا تم یو آب ہو ؟”

یو آب نے جواب دیا ، “ہاں میں ہو ں” تب عورت نے کہا ، “میری بات سنو !” یو آب نے کہا ، “میں سن رہا ہوں ”

18 تب عورت نے کہا ، “ ماضی کے زمانے میں لوگ کہتے تھے ، ’ اِبیل میں مدد کے لئے پو چھو تو جو تمہیں چا ہئے ملے گا۔‘ 19 میں اس شہر کے کئی پُر امن ، وفادار لوگوں میں سے ایک ہو ں۔” تم اسرا ئیل کے ایک اہم شہر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔” جو چیز کہ خداوند کی ہے تم کیوں اس کو تباہ کرنا چا ہتے ہو؟”

20 یو آب نے جواب دیا ، “نہیں میں کو ئی چیز بھی تباہ کرنا نہیں چا ہتا۔ میں تمہا رے شہر کو برباد کرنا نہیں چا ہتا۔ 21 لیکن تمہا رے شہر میں پہا ڑی ملک افرا ئیم کا ایک آدمی ہے اس کا نام سبع ہے جو بِکری کا بیٹا ہے۔ وہ بادشاہ داؤد کا مخالف ہو گیا ہے۔ اس کو میرے پاس لا ؤ تو میں شہر کو پُر امن چھو ڑدوں گا۔”

عورت نے یو آب سے کہا ، “ ٹھیک ہے اس کا سر دیوار کے اوپر سے تمہا رے لئے پھینک دیا جا ئے گا۔”

22 تب اس عورت نے شہر کے لوگوں کو عقلمندی سے بولی لوگو بِکری کے بیٹے سبع کا سر کاٹ لو۔ تب لوگوں نے سبع کے سر کو شہر کی دیوار کے اوپر سے یو آب کے پاس پھینکا۔

اس لئے یوآب نے بِگل بجا یا اور فوج نے شہر چھو ڑ دیا۔سپا ہی گھر چلے گئے او ر یو آب بادشا ہ کے پاس یروشلم واپس ہوا۔

داؤد کے خادم لوگ

23 یو آب اسرا ئیل کی فوج کا سپہ سالا ر تھا۔ یہو یدع کا بیٹا بنایاہ کریتوں اور فلتیوں کی رہنما ئی کرتا تھا۔ 24 ادونی رام ان لوگوں کی رہنما ئی کرتا تھا جنہیں سخت محنت کرنے کیلئے مجبور کیا جاتا تھا۔ اخیلود کا بیٹا یہوسفط تاریخ دان تھا۔ 25 سِوا معتمد تھا۔ صدوق اور ابی اتر کاہن تھے۔ 26 اور عیرا یائری داؤد کا صدر خادم تھا۔

ساؤل کے خاندان کو سزا

21 داؤد کے زمانے میں قحط سالی پڑا۔ یہ قحط سالی کا زمانہ تین سال تک رہا۔داؤد نے خداوند سے دعا کی اور خداو ندنے جواب دیا۔ خداوند نے کہا ، “ساؤل اور اس کے قاتلو ں کا خاندان اس قحط سالی کا سبب ہے۔ یہ قحط سالی اس لئے آیا کیوں کہ ساؤل نے جبعونیوں کو مار ڈا لا۔” ( جبعونی اسرا ئیلی نہیں تھے۔ وہ اموری گروہ کے تھے۔ اسرا ئیلیوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جبعونیوں کو چوٹ نہیں پہنچا ئیں گے۔ [f] لیکن ساؤل نے جبعونیوں کو مار ڈالنے کی کوشش کی اس نے ایسا اس لئے کیا کہ اس کو اسرا ئیل اور یہوداہ کے لوگو ں سے بے حد لگا ؤ تھا۔)

بادشاہ داؤد نے جبعونیوں کو ایک ساتھ جمع کیا۔ داؤد نے جبعونیوں سے کہا ، “میں تمہا رے لئے کیا کر سکتا ہوں؟ اسرا ئیل کے گنا ہوں کو مٹانے کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟ تا کہ تم خداوندکے لوگوں کو دُعا دے سکو۔”

جبعونیوں نے داؤد سے کہا ، “ساؤل اور اس کے خاندان کے پاس اتنا سونا اور چاندی نہیں ہے کہ وہ اس کام کو جو انہوں نے کیا اس کے بدلے میں دے سکیں۔ لیکن ہم کو اسرا ئیل کے کسی آدمی کو مار نے کا حق نہیں ہے۔”

داؤد نے کہا ، “بہتر ہے میں تمہا رے لئے کیا کر سکتا ہوں؟”

جبعونیوں نے بادشاہ سے کہا ، “ساؤل نے ہمارے خلاف منصوبہ بنا یا۔ اس نے ہمارے لوگو ں کو جو اسرا ئیل میں رہتے تھے تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ہم کو ساؤل کے سات بیٹے دو۔ساؤل خداوندکا چُنا ہوا بادشاہ تھا۔ اس لئے ہم اس کے بیٹوں کو خداوند کے سامنے جبعہ کی پہا ڑی کی چوٹی پر پھانسی پر چڑھا دیں گے۔”

بادشاہ داؤد نے کہا ، “ٹھیک ہے میں تمہیں انکو دوں گا۔” لیکن بادشاہ نے یونتن کے بیٹے مفیبوست کی حفاظت کی۔ یونتن ساؤل کا بیٹا تھا لیکن داؤد نے خداوند کے نام پر یونتن سے وعدہ کیا تھا اس لئے بادشاہ نے مفیبوست کو ان سے نقصان نہ پہنچنےدیا۔ داؤد نے ارمونی اور مفیبوست [g] کو انہیں دیا۔ یہ ساؤل اور اس کی بیوی رِصفہ کے بیٹے تھے۔ ساؤل کی ایک اور بھی بیٹی تھی اس کا نام معراب تھا۔ اس کی شادی عدری ایل نامی شخص سے ہو ئی تھی۔ جو محویلا کے برزلی کا بیٹا تھا۔ اس لئے داؤد نے معراب اور عدری ایل کے پانچ بیٹوں کو لیا۔ داؤد نے ان ساتوں آدمیوں کو جبعونیوں کو دے دیا۔ جبعونی انہیں جبعت پہا ڑ پر لا ئے او ر خداوندکے سامنے پھانسی پر لٹکا دیا۔ وہ ساتوں آدمی ایک ساتھ مر گئے۔ انہیں فصل کٹنے کے شروع کے ایاّم میں ہی پھانسی دے دی گئی۔ یہ موسم بہار تھا جب جو کی فصل کی کٹا ئی شروع ہو رہی تھی۔

داؤد اور رِصفہ

10 ایّاہ کی بیٹی رِصفہ نے سوگ کا کپڑا لیا اور اسے چٹا ن پر رکھ دیا۔ وہ کپڑا چٹان پر فصل کی کٹا ئی شروع ہو نے سے بارش آنے تک پڑا رہا۔ رِصفہ دن رات لا شو ں کو دیکھتی رہی دن میں وہ جنگلی پرندوں کو لاش پر بیٹھنے نہیں دیتی تھی اور رات میں جنگلی جانوروں کو لاشوں پر آنے نہیں دیتی تھی۔

11 لوگوں نے داؤد کو ساؤل کی داشتہ رِصفہ جو کر رہی تھی اس کی اطلاع دی۔ 12 تب داؤد نے جلعاد کے آدمیوں سے ساؤل اور یونتن کی ہڈیاں لیں ( یبیس جلعاد کے آدمیوں نے یہ ہڈیاں جلبوعہ میں ساؤل اور یونتن کے مارے جانے کے بعد لئے تھے۔فلسطینیوں نے بیت شان کی دیوار پر ساؤل اور یونتن کے جسموں کو لٹکا یا تھا۔ لیکن بیت شان کے آدمی وہاں گئے اور وہاں سے لا شوں کو چرا لیا۔ ) 13 داؤدنے ساؤل اور اس کے بیٹے یونتن کی ہڈیوں کی یبیس جلعاد سے لا یا۔ تب داؤد نے سات آدمیوں کی لا شوں کو بھی لیا جو پھانسی پر لٹکا ئے گئے تھے۔ 14 انہوں نے ساؤل اور اس کے بیٹے یونتن کی ہڈیوں کو بنیمین کے علاقے میں دفن کیا۔ انہوں نے ان ہڈیوں کو ساؤل کے باپ قیس کی قبر میں دفن کیا۔ لوگوں نے وہ سب کچھ کیا جو بادشا ہ نے ان لوگوں کو کرنے کو کہا، “ا س لئے خدا نے اس سر زمین کے لوگوں کی دعاؤں کو سنا۔

فلسطینیوں سے جنگ

15 فلسطینیوں نے اسرا ئیل سے دوسری جنگ شروع کی داؤد اور اس کے آدمی فلسطینیوں سے لڑنے کے لئے باہر گئے۔ لیکن داؤد بہت تھک گیا تھا۔ 16 اِشبی بنوب بڑے طاقتور دیوؤں میں سے ایک تھا۔ اِشبی بنوب کے بھا لے کا وزن ۲/ ۷۱ پا ؤنڈ تھا۔ اِشبی بنوب کے پاس ایک نئی تلوار تھی۔ اس نے داؤد کو مارنے کی کوشش کی۔ 17 لیکن ضرویاہ کا بیٹا ابیشے نے فلسطینی کو مار ڈا لا اور داؤد کی زندگی بچا لی۔ تب داؤد کے آدمیوں نے داؤد سے ایک خاص وعدہ کیا۔

انہوں نے اس کو کہا ، “تم ہمارے ساتھ مزید جنگ کے لئے باہر نہیں جا سکتے اگر تم ایسا کرو تو ممکن ہے کہ اسرا ئیل تمہا رے جیسا ایک عظیم قائد کھو دے۔”

18 بعد میں جوب میں فلسطینیوں سے دوسری جنگ ہو ئی۔ سبّکی جو ساتی نے ایک اور سف نامی دیو کو مار ڈا لا۔

19 اس کے بعد جوب میں فلسطینیوں کے خلاف دوسری جنگ ہو ئی۔ یعری ار جیم کا بیٹا اِلحنان جوبیت اللحم کا تھا ۔جات کے جولیت کے بھا ئی لہمی کو مار ڈا لا۔ اس کا بھا لا جو لا ہے کے کر گھا کی چھڑی کے برا بر لمبا تھا۔

20 جات میں ایک اور جنگ ہو ئی۔ ایک لمبا آدمی تھا اس آدمی کے ہر ہا تھ میں چھ چھ انگلیاں اور ہر ایک پیر میں چھ چھ انگلیاں تھیں کل ملا کر اس کی چوبیس انگلیاں تھیں یہ آدمی بھی ایک دیو تھا۔ 21 اس آدمی نے اسرا ئیل کو للکا را تھا اور ان کا مذاق اُڑا یا تھا لیکن یونتن نے ا س آدمی کو مار ڈا لا ( یہ یونتن داؤد کے بھا ئی سمعی کا بیٹا تھا۔)

22 یہ چاروں آدمی جات کے دیو تھے۔ جنہیں داؤد اور اس کے آدمیوں نے مار ڈا لا۔

خداوند کی شان میں داؤد کا نغمہ

22 داؤد نے یہ نغمہ اس وقت گایا جب خداوندنے اس کو ساؤل اور اس کے تمام دشمنوں سے بچا یا۔

خداوند میری چٹان ہے۔میرا قلعہ اور میری سلامتی کی جگہ ہے۔
    وہ میرا خدا ، چٹان میری ہے جس کی طرف میں بچا ؤ کے لئے دوڑتا ہوں
خدا میری ڈھا ل ہے۔ اس کی طاقت مجھے بچا تی ہے۔
    خداوند ہی میرا اونچا قلعہ ہے اور میری محفوظ جگہ ہے۔
میرا محافظ
    مجھے ظالم دشمنو ں سے بچا تا ہے۔
ان لوگوں نے میرا مذاق اُ ڑا یا۔
    لیکن میں نے خداوند کو جو ستائش کے لا ئق ہے مدد کے لئے پکا را
    اور میں اپنے دشمنو ں سے بچ گیا !

میرے دشمن مجھے مار ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
    موت کی لہروں نے مجھے لپیٹ لیا۔ میں سیلاب میں گھر گیا جو مجھے موت کی جگہ لے گیا۔
قبر کی رسیاں میرے چاروں طرف تھیں
    میں موت کے جال میں پھنسا۔
میں جال میں تھا اور میں نے خداوند کو مدد کے لئے پکا را۔
    ہاں میں نے خدا کو پکا را۔
خدا اپنے گھر میں تھا اس نے میری آواز سنی۔
    اسنے مدد کے لئے میری چیخ سنی۔
تب زمین ہل گئی زمین دہل گئی۔
    جنت کی بنیادیں ہل گئیں۔
    کیوں ؟ کیوں کہ خداوند غصّہ میں تھا !
دھواں خدا کی ناک سے نکلا۔
    جلتے ہو ئے شعلے اس کے مُنھ سے آئے۔
    جلتی ہو ئی چنگا ریاں اس سے نکلیں۔
10 خداوند نے آسمان کو پھا ڑ کر کھو لا اور نیچے آیا!
    وہ گھنے اور سیاہ بادل پر کھڑا ہوا !
11 وہ کروبی فرشتوں پر
    اور ہوا پر سوار ہو کر اڑرہا تھا۔
12 خدا وند نے سیاہ بادلوں کو اپنے اطراف خیمہ کی طرح لپیٹا
    اس نے پانی کو گہرے گرجتے بادلوں میں جمع کیا۔
13 اس کے ارد گرد روشنی سے جلتے ہوئے
    کوئلے سے شعلے بھڑک اٹھے۔
14 خدا وند آسمان سے بلند آواز سے گرجا!
    خدا ئے تعالیٰ کی آواز سنائی دی۔
15 خدا وند نے اپنے تیر بر سائے اور دشمنوں کو منتشر کر دیا۔
    خدا وند نے بجلی بھیجی۔ اور لوگ ڈر کے مارے بھا گے۔
16 خدا وند اتنی زور دار آواز سے بولا
    جیسے طاقتور ہوا تیرے منہ سے نکلی۔ اور (پانی پیچھے ڈھکیلا گیا تھا۔)
اور تب ہم سمندر کی تہہ دیکھ سکے
    ہم زمین کی بنیادوں کو دیکھ سکے۔
17 اس طرح خدا وند نے میری مدد کی اور خدا وند اوپر سے نیچے آیا
    خدا وند نے مجھے پکڑ لیا اور گہرے پانی ( مصیبت) سے کھینچ لیا۔
18 میرے دشمن مجھ سے بہت زیادہ طاقتور تھے
    اس لئے خدا نے مجھے بچایا۔
19 میں مصیبت میں تھا اور میرے دشمنوں نے حملہ کیا۔
    لیکن خدا وند نے وہاں میری مدد کی !
20 خدا وند مجھ سے محبت کرتا ہے اس لئے اس نے مجھے بچا یا۔
    وہ مجھے محفوظ جگہ لے آیا۔
21 خدا وند مجھے میرا صلہ انعام میں دیگا کیوں کہ میں نے جو صحیح تھا وہ کیا۔
    میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اس لئے وہ میرے لئے اچھا ئی کریگا۔
22 کیوں ؟ کیوں کہ میں نے خدا وند کی اطاعت کی!
    میں نے خدا کے خلاف گناہ نہیں کیا۔
23 میں ہمیشہ خدا وند کے فیصلوں کو یاد کرتا ہو ں
    اس کے قانون کی فرمانبرداری کرتا ہوں!
24 میں خود کو اسکے سامنے پاک اور معصوم رکھتا ہوں۔
25 اس لئے خدا وند مجھے انعام دے گا! کیوں کہ میں نے جو صحیح ہے وہ کیا !
    وہ جس طریقے سے بھی دیکھتا ہے تو پاتا ہے کہ میں نے کو ئی گناہ نہیں کیا اس لئے وہ میرے ساتھ اچھائی کریگا۔
26 اگر کوئی شخص حقیقت میں تم سے محبت کرتا ہے تو تم بھی اس سے محبت کروگے۔
    اگر کوئی شخص تمہارا وفا دار ہے تو تم بھی اس کا وفادار ہو۔

27 خدا وند تو اچھا اور پاک ہے ان لوگوں کے لئے جو اچھے اور پاک ہیں۔

    لیکن تو ایک بے ایمان شخص سے زیادہ چالاک ہو سکتا ہے۔
28 خدا وند تو بے کس لوگوں کی مدد کرتا ہے۔
    لیکن تو مغرور لوگوں کو شرمندہ کرتا ہے۔
29 خدا وند تو میرا چراغ ہے۔
    خدا وند میرے اطراف تاریکی کو منور کرتا ہے۔
30 اے خدا وند میں تیری مدد سے سپاہیوں کے ساتھ بھاگ سکتا ہوں۔
    خدا کی مدد سے میں دشمنوں کے شہر کی دیواریں پھاند سکتا ہوں۔
31 خدا کی طاقت کامل ہے۔
    خدا جو کہتا ہے اس پر توکل کیا جا سکتا ہے۔
    وہ ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔
32 کوئی خدا نہیں سوائے خدا وند کے۔
    کو ئی چٹان نہیں سوائے خدا کے۔
33 خدا میرا طاقتور قلعہ ہے
    وہ پاک لوگوں کو سیدھا راستہ دیتا ہے۔
34 ہرن کی طرح تیز دوڑ نے کے لئے خدا میری مدد کرتا ہے۔
    وہ مجھے پہاڑی پر صحیح راستہ پر رکھتا ہے!
35 خدا مجھے جنگ کی تربیت دیتا ہے۔
    وہ میرے بازوؤں کو مضبوط بنا تا ہے۔ تب میں ایک سخت کمان کو موڑ نے کے لائق ہوتا ہوں۔
36 خدا تو نے میری حفاظت کی اور جیتنے میں میری مدد کی۔
    تو نے میرے دشمنوں کو شکست دینے میں مدد کی۔
37 تو نے میرے پیر اور ٹخنے کے جوڑ مضبوط بنائے ہیں۔
    اس لئے میں تیزی سے بنا لڑ کھڑا ئے چل سکتا ہوں
38 میں اپنے دشمنوں کا پیچھا کرنا چاہتا ہوں جب تک کہ میں انہیں تباہ نہ کردوں!
جب تک کہ انہیں تباہ نہ کردیا گیا ہو! میں واپس نہیں آؤنگا۔
39 میں نے اپنے دشمنوں کو تباہ کیا
    میں نے انکو شکست دی!
وہ دوبارہ اٹھ نہیں سکتے۔
    ہاں ، میرے دشمن میرے پیروں کے نیچے گر گئے۔
40 خدا تو نے مجھے جنگ میں طاقتور بنایا
    تو نے میرے دشمنوں کو میرے سامنے گرایا۔
41 تو نے میرے دشمنوں کو مجھ سے بھگایا ہے۔
    اور میں نے اپنے مخالف پر حملہ کیا اور تباہ کردیا !

42 میرے دشمن مدد کے لئے تلاش کئے

    لیکن ان کو بچانے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔
حتیٰ کہ انہوں نے خدا وند کو بھی دیکھا
    لیکن اس نے انکو جواب نہیں دیا۔
43 میں نے اپنے دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے
    وہ زمین پر دھول گرد و غبار کی مانند تھے
میں نے اپنے دشمنوں کو پیس ڈالا۔
    اور انکو گلیوں کی کیچڑ کی طرح روند ڈالا۔
44 تو نے مجھے ان لوگوں سے بچایا جو میرے خلاف لڑے۔
    تو نے مجھے اس قوم کا حاکم بنایا۔
    ان لوگوں کو جنہیں میں نہیں جانتا ہوں وہ اب میری خدمت کرتے ہیں !
45 دوسرے ملکوں کے لوگ میری اطاعت کرتے ہیں!
    جب وہ لوگ میرے احکام سنتے ہیں !
46 وہ غیر ملکی لوگ ڈر سے خوفزدہ ہونگے۔
    وہ اپنی چھپنے کی جگہوں سے نکل آئیں گے اور ڈر سے کانپیں گے۔
47 خدا وند زندہ ہے۔
    میں چٹان کی حمد کرتا ہوں!
    خدا بہت عظیم ہے۔ وہ چٹان ہے جو مجھے بچاتا ہے۔
48 خدا ہی وہ ہے جس نے میرے دشمنوں کو سزا دی
    وہ لوگوں کو میری حکومت میں رکھا۔
49     خدا تونے مجھے میرے دشمنوں سے بچایا!

ان لوگوں کو شکست دینے میں میری مدد کی جو میرے خلاف کھڑے ہوئے تھے تو نے مجھے ظالموں سے بچایا!
50 اے خدا وند! اس لئے میں ان قوموں میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں۔
    اسی لئے میں تیرے نام کے بارے میں تعریف کا گیت گاتا ہوں۔
51 خدا وند اپنے بادشاہ کی کئی جنگیں جیتنے کے لئے مدد کرتا ہے!
    خدا وند اپنی سچی محبت اپنے چنے ہوئے بادشاہ کے لئے دکھا تا ہے۔ وہ داؤد اور اسکی نسلوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وفادار رہے گا !

داؤد کے آخری الفاظ

23 یہ داؤد کے آخری الفاظ ہیں :

یہ پیغام یسی کے بیٹے داؤد کی طرف سے ہے۔
    یہ پیغام اس آدمی کی طرف سے ہے جسے خدا نے بڑا بنا یا۔
یعنی جسے یعقوب کے خدا نے بادشاہ چُنا۔
    وہی ایک ہے جس نے اسرا ئیل کے لئے سُریلے گیتوں کو گایا۔
خداوند کی روح نے میرے ذریعہ کہا
    اس کا لفظ میری زبان پر تھا۔
اسرا ئیل کے خدا نے کہا ،
    “اسرا ئیل کی چٹان نے مجھ سے کہا ،
“ جو آدمی لوگو ں پر منصفانہ طریقے سے حکومت کرے
    جو آدمی خدا کی عزّت کے لئے حکومت کرے ،
وہ آدمی بغیر ابر کی صبح سویرے کی
    روشنی کی مانند،
وہ بارش کے بعد آنے وا لی دھوپ کی مانند،
    وہ بارش جو زمین پر گھا س اگاتی ہے اس کی مانند ہو گا۔”
خدا نے میرے خاندان کو طاقتور اور محفوظ بنا یا۔
    اس نے مجھ سے ہمیشہ کے لئے معاہدہ کیا!
خدا نے اس معاہدہ کو یقینی بنا یا
    کہ یہ معاہدہ ہر طرح سے اچھا اور محفوظ تھا۔
اس لئے یقیناً وہ مجھے ہر وہ فتح دے گا۔
    جو میں چاہتا ہوں وہ مجھے دے گا !
لیکن بُرے لوگ کانٹوں کی مانند ہیں
    لوگ کانٹوں کو حاصل نہیں کرتے
    بلکہ انہیں پھینک دیتے ہیں۔
اگر کو ئی آدمی ان کو چھو تا ہے
    تو وہ اس بھا لے کی طرح گھا ئل کرتا ہے جو لکڑی اور لو ہے کی بنی ہو ئی ہے۔
ہاں وہ لوگ کانٹوں کی طرح ہیں۔
    وہ آ گ میں پھینک دیئے جا ئیں گے
    اور وہ لوگ مکمل طور سے جل جا ئیں گے !

تین جانباز

یہ داؤد کے سپا ہیوں کے نام ہیں : یوشیب ، بشیبت تحکمو نی۔ وہ تین جانبازوں کا سپہ سالار تھا۔ وہ ایزنی ادینو بھی کہلا تا تھا۔

یوشیب بشیبت نے ایک وقت میں ۸۰۰ آدمیوں کو بھا لا سے مار ڈا لا تھا۔

دوسرا الیعزر تھا جو اخوہی کے دودے کابیٹا تھا۔الیعزر تین جانبازوں میں سے ایک تھا جو داؤد کے ساتھ تھے۔ جبکہ اس نے فلسطینیوں کو للکارا تھا۔ وہ جنگ کے لئے جمع ہو ئے تھے لیکن اسرا ئیلی سپا ہی بھاگ کھڑے ہو ئے تھے۔ 10 الیعزر فلسطینیوں سے اس وقت تک لڑا جب تک وہ تھک نہ گیا اور وہ اپنی تلوار کو مضبوطی سے پکڑے رہا اور لڑتا رہا۔ خداوند نے اس دن اسرا ئیلیوں کو بڑی فتح دی۔ الیعزر کے جنگ جیتنے کے بعد لوگ واپس آئے لیکن وہ صرف مُردہ سپا ہیوں کی چیزیں لینے آئے۔

11 تیسرا ہرار کے اجی کا بیٹا سمّہ وہاں تھا۔ فلسطینی لڑ نے کیلئے ایک ساتھ آئے۔ وہ مسُور کے کھیت میں لڑے۔ لوگ فلسطین سے بھاگے۔ 12 لیکن سمّہ کھیت کے درمیان کھڑا رہا اور دفع کیا۔ اس نے فلسطینیو ں کو شکست دی۔ خداوند نے اس دن اسرا ئیلیو ں کو بڑی فتح دی۔

13 ایک بار داؤد ادولم کے غار میں تھا۔ اور فلسطینی فوج رفائیم کی وادی میں پہنچے تھے۔ تیس جانبازوں میں سے تین جانباز فلسطینی فوجوں سے ہو تے ہو ئے خفیہ طور پر ادولم کے غار میں پہنچے جب داؤد وہاں تھا۔

14 دوسری بار داؤد قلعہ میں تھا اور فلسطینی سپا ہیوں کا گروہ بیت اللحم میں تھا۔ 15 داؤد پیاسا تھا اس کی خواہش تھی کہ اس کے شہر کا پانی اسے مل سکے۔ داؤد نے کہا ، “میں چا ہتا ہوں کہ کو ئی بیت ا للحم شہر کے دروازے کے قریب کنویں سے تھو ڑا پانی دے۔” داؤد حقیقت میں یہ نہیں چا ہتا تھا۔ 16 لیکن تین جانباز فوجی اپنے راستے میں اس وقت تک لڑے جب تک کہ اس نے فلسطینی سپا ہی کو پار نہ کر لیا۔ ان تین جانبازوں نے بیت ا للحم کے شہر کے دروازے کے قریب واقع کنویں سے تھو ڑا پانی لئے اور داؤد کے لئے لا ئے۔ لیکن داؤد نے پانی پینے سے انکار کیا۔ اس نے پانی کو زمین پر ایسے ڈا لا جیسے وہ خداوند کو نذر پیش کر رہا ہو۔ 17 داؤد نے کہا ، “خداوند میں یہ پانی نہیں پی سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا ان لوگوں کا خون پی رہا ہو ں۔ جنہوں نے میرے لئے اپنی زندگی خطرہ میں ڈا لی۔ اسی لئے داؤد نے پانی پینے سے انکار کیا۔ تین جانبازوں نے ایسے ہی بہادری کے کام کئے۔

دوسرے بہادر سپا ہی

18 ابیشے جو ضرویاہ کے بیٹے یوآب کا بھا ئی تھا۔ وہ تین جانبازوں کا قائد تھا۔ ابیشے نے اپنا بھا لا ۳۰۰ دشمنو ں کے خلاف استعمال کیا تھا اور انہیں مار ڈا لا تھا۔ وہ ان تینوں کی طرح مشہور تھا۔ 19 ابیشے بھی اتنا ہی مشہور تھا جتنے وہ تینوں جانباز ، اس لئے وہ ان کا قائد ہوا ، حالانکہ وہ ان میں سے ایک نہیں تھا۔

20 یہویدع کا بیٹا بنایا ہ تھا وہ ایک طاقتور آدمی تھا وہ قبضیل کا رہنے وا لا تھا۔ اس نے کئی بہادری کے کارنامے انجام دیئے۔ وہ موآب کے اری ا یل کے دو بیٹوں کو مار ڈا لا۔ ایک دن جب برف گر رہی تھی وہ نیچے غار میں جا کر ایک شیر ببر کو مار ڈا لا۔ 21 بنا یاہ نے ایک بڑے مصری سپا ہی کو مار ڈا لا۔ مصری کے ہا تھ میں ایک بھا لا تھا لیکن بنا یا ہ کے پاس صرف ایک لکڑی تھی۔ بنا یا ہ نے مصری کے ہاتھ سے بھا لے کو لے لیا۔ تب بنایاہ نے مصری کو اس کے بھا لے سے ہی مار ڈا لا۔ 22 یہویدع کا بیٹا بنایاہ نے ایسے کئی بہادری کے کام کئے۔ بنایاہ ان تین جا نبازوں کی طرح مشہور تھا۔ 23 بنایاہ ان تیس جانبازوں سے بھی زیادہ مشہور ہوا۔ لیکن وہ تین جانباز آدمیوں کا ممبر نہیں تھا۔ داؤد نے بنایا ہ کو اپنے محافظ دستے کا قائد بنا یا۔

تیس جانباز

24 تیس جانبازوں میں سے

ایک یوآ ب کا بھا ئی عساہیل تھا۔

تیس آدمی کے گروہ میں دوسرا آدمی الحنان تھا جو بیت ا للحم کے دو دو کا بیٹا تھا ،

25 سمّہ حرودی ،

القہ حرودی ،

26 فلطی خِلص،

عیرا جو تقوعی کے عقیس کے بیٹے ،

27 عنتونی کا ابی عزر،

حوساتی مبونی ،

28 اخوحی ضلمون ،

نطوفاتی مہری ،

29 نطوفاتی بعنہ کا بیٹا حلب،

جِبعہ کے بنیمین کے ریبی کا بیٹا اِتی،

30 بِنایا ہ فرعاتونی ،

جعس کے نالوں کا بِدّی،

31 ابی علبُون عرباتی ،

عزماوت برحُومی،

32 یسین کے بیٹے

سعلبونی الیحبہ،

33 یونتن ہراری کے سمّہ کا بیٹا ،

اخیام ہراری کے شرار کا بیٹا ،

34 معکاتی کے احسبی کا بیٹا الیفلط،

اخِیتفُل جلونی کا بیٹا الی عام۔

35 خصر وکر ملی ،

اربی فعری۔

36 ضوباہ کے ناتن کا بیٹا اِجال،

بانی جدی،

37 ضلق عمّونی ،

بیروت کا نحری (ضرویاہ کے بیٹے یوآب کے لئے اسلحہ لے جانے والا ہزائی )،

38 اِتری عیرا ،

جریب اِتری ،

39 اور حتّی اوریّاہ۔

وہ تمام سینتیس (۳۷)تھے۔

داؤد کا اپنی فوج کو گننے کا فیصلہ کرنا

24 خدا وند اسرائیل پر پھر غصّہ ہوا۔ خدا وند نے داؤد کو اسرائیلیوں کے خلاف موڑ دیا۔ اس نے داؤد کو یہ کہکر بھڑ کایا ، “جاؤ یہوداہ اور بنی اسرائیلیوں کی گنتی کرو۔”

بادشاہ داؤد نے فوج کے سپہ سالار یوآب سے کہا ، “اسرائیل کے سبھی خاندانی گروہ میں دان سے بیر سبع تک جاؤ اور لوگوں کو گنو تب مجھے معلوم ہوگا کہ کتنے لوگ ہیں۔”

لیکن یوآب نے بادشاہ سے کہا ، “خدا وند خدا آپکو سو گنا لوگ دے اورآپ کی آنکھیں یہ ہوتا ہوا دیکھیں۔ لیکن آپ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟”

بادشاہ داؤد نے یوآب اور فوج کے سپہ سالاروں کو سختی سے حکم دیا کہ لوگوں کو گنیں۔ اس لئے یوآب اور فوج کے سپہ سالار بادشاہ کے پاس سے باہر گئے تاکہ بنی اسرائیلیوں کو گنیں۔ انہوں نے دریائے یردن کو پار کیا انہوں نے اپنا خیمہ عروعیر میں ڈالا ان کا خیمہ یعزیر کے راستے پر جاد کی وادی میں شہر کے جنوب میں تھا۔

تب وہ جِلعاد کے مشرق میں تحتیم حدسی کے راستے سے ہوتے ہوئے گئے۔ تب وہ شمال میں دان یعن اور صیدون کے اطراف سے ہوتے ہوئے گئے۔ وہ تائیر کے قلعہ کو بھی گئے۔ وہ حوّی اور کنعانیوں کے تمام شہرو ں کو بھی گئے۔ تب وہ جنوب میں یہوداہ کے جنوبی علاقہ بیر سبع بھی گئے۔ وہ لوگ نو مہینے بیس دن میں پورے ملک کا دورہ کئے۔ نو مہینے بیس دن بعد وہ یروشلم واپس ہوئے۔

یوآب نے بادشاہ کو لوگوں کی فہرست دی۔ اسرائیل میں ۰۰۰,۰۰,۸ آدمی تھے جو تلوار چلا سکتے تھے اور یہوداہ میں ۰۰۰,۰۰,۵ آدمی تھے۔

خدا وند کا داؤد کو سزا دینا

10 تب داؤد لوگوں کی گنتی کرنے کے بعد شرمندہ ہوئے۔ داؤد نے خدا وند سے کہا ، “میں نے یہ کام کرکے بہت بڑا گناہ کیا۔ خدا وند میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو میرے گناہوں کو معاف کر میں نے بڑی بے وقوفی کی ہے۔

11 جب داؤد صبح اٹھا تو خدا وند کا پیغا م “سیر” جاد پر نازل ہوا۔ 12 خدا وند نے جاد سے کہا ، “جاؤ اور داؤد سے کہو خدا وند جو کہتا ہے وہ یہ ہے : میں تمہیں تین چیزیں پیش کرتا ہوں ان میں سے ایک کو چنو جسے میں تمہارے لئے کروں گا۔”

13 جاد داؤد کے پاس گیا اور کہا۔ جاد نے داؤد کو کہا ، “ان تین چیزوں میں سے ایک کو چن لو :

۱۔ تمہارے اور تمہارے ملک کے لئے سات سال قحط سالی۔

۲۔ تمہارے دشمن تمہارا پیچھا تین مہینے تک کریں گے

۳۔ تمہارے ملک میں تین دن تک طاعون (

مہلک وبا) پھیلے۔

اس کے متعلق سوچو اور ان میں سے ایک کو چن لو اور میں تمہارے انتحاب کے بارے میں خدا وند کو اطلاع کروں گا۔ خدا وند نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ ”

14 داؤد نے جاد سے کہا ، “میں حقیقت میں مصیبت زدہ ہوں لیکن خدا وند بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اس لئے خدا وند کو ہمیں سزا دینے دو۔ میں خدا وند سے سزا پانے کے لئے تیار ہوں بہ نسبت انسانوں کے۔”

15 اس لئے خدا وند نے اسرائیل میں بیماری بھیجی۔ یہ صبح سے شروع ہوئی اور چنے ہوئے وقت تک جاری رہی۔ دان سے بیر سبع تک ۰۰۰,۷۰ لوگ مر گئے۔ 16 فرشتے نے اپنے بازو یروشلم پر تباہ کرنے کے لئے پھیلا دیئے۔ لیکن لوگوں کی مصیبت کے لئے خدا وند کو بہت افسوس ہوا۔ خدا وند نے اس فرشتے سے جس نے لوگوں کو تباہ کیا تھا کہا ، “اتنا بس ہے اپنے بازو نیچے کرلو۔” خدا وند کا فرشتہ یبوسی اروناہ کے کھلیان کے کنارے تھا۔

داؤد کا اروناہ کے کھلیان کو خرید نا

17 داؤد نے اس فرشتہ کو دیکھا جس نے لوگوں کو مارا۔ داؤد نے خدا وند سے کہا۔ داؤد نے کہا ، “میں نے گناہ کیا ، میں نے غلطی کی ہے لیکن ان لوگوں نے صرف وہی کیا جو میں نے انکو کرنے کو کہا۔ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ براہ کرم سزا مجھے اور میرے باپ کے خاندان کو دے۔”

18 اس دن جاد داؤد کے پاس آیا۔ جاد نے داؤد سے کہا ، “جاؤ اور نذرانہ قربان گاہ اروناہ یبوسی کے لئے بناؤ۔” 19 اس لئے داؤد نے جاد سے جو کہا ویسا کیا۔ داؤد اروناہ کو دیکھنے گیا۔ 20 اروناہ نے نگاہ اٹھا کر بادشاہ داؤد کو اور اسکے خادموں کو دیکھا کہ اس کے پاس آرہے ہیں۔ اروناہ باہر نکلا اور اپنا سر زمین پر ٹیک کر سلام کیا۔ 21 اروناہ نے کہا ، “میرا آقا و بادشاہ میرے پاس کیوں آیا ہے۔

داؤد نے جواب دیا ، “میں تم سے کھلیان خرید نے آیا ہو ں۔ تب میں خدا وند کے لئے قربان گاہ بنا سکوں گا ، پھر بیماری رک جائے گی۔”

22 اروناہ نے بادشاہ سے کہا ، “اے میرے آقا و بادشاہ جو چیز آپ قربانی کے لئے چاہیں لے سکتے ہیں۔ یہاں کچھ بیلیں جلانے کی قربانی کے لئے ہیں اور جلانے کی لکڑی کے طور پر استعمال کرنے کے لئے اناج مَلنے کا تختہ اور جوا ہے۔ 23 اے بادشاہ میں ہر چیز تم کو دونگا۔” اروناہ نے بادشاہ سے یہ بھی کہا ، “آپ کا خدا وند خدا آپ سے خوش رہے۔

24 لیکن بادشاہ نے اروناہ سے کہا ، “نہیں ! میں تم سے سچ کہتا ہوں میں تم سے زمین کو اسکی قیمت دے کر خر یدوں گا۔ میں خدا وند اپنے خدا کو کوئی ایسی قربانی نہیں چڑھاؤنگا جس کی کوئی قیمت میں نے ادا نہیں کی۔ ”

اس لئے داؤد نے بیل اور کھلیان کو پچاس چاندی کے مثقال سے خریدا۔ 25 تب داؤد نے ایک قربان گاہ وہاں خدا وند کے لئے بنائی۔ داؤد نے جلانے کی قربانی اور سلامتی کا نذرانہ پیش کیا۔

خدا وند نے اسکی دعاؤں کو ملک کے لئے قبول کرلیا خدا وند نے اسرائیل میں بیماری روک دی۔

Footnotes

  1. دوم سموئیل 12:25 ید ید یاہبمعنی خداوند کا چہیتا۔
  2. دوم سموئیل 13:2 اور اس کے … معلوم ہوا وہ ایک پاک دامن کنواری ہے اور آدمیوں سے دور رہتی ہے ، امنون سوچتا ہے کہ اس کے ساتھ تنہا ہو نا ناممکن ہے۔
  3. دوم سموئیل 13:20 اب … میری بہن ابی سلوم نے تمر سے کہا -
  4. دوم سموئیل 15:7 چار سال چند قدیم صحیفوں میں یہ ۴۰ سال ہے۔
  5. دوم سموئیل 15:27 سیرپیغمبر یا نبی کا دوسرا نام -
  6. دوم سموئیل 21:2 اسرائیلیوں … پہنچا ئیں گے یہ واقعہ یشوع کے زمانے میں ہوا تھا جب جبعو نیوں نے اسرائیل سے فریب کیا دیکھو یشوع۹: ۳۔۱۵
  7. دوم سموئیل 21:8 مفیبوست یہ دوسرا آدمی جس کا نام بھی مفیبوست تھا جو یونتن کا بیٹا نہیں۔

Nathan Rebukes David(A)

12 The Lord sent Nathan(B) to David.(C) When he came to him,(D) he said, “There were two men in a certain town, one rich and the other poor. The rich man had a very large number of sheep and cattle, but the poor man had nothing except one little ewe lamb he had bought. He raised it, and it grew up with him and his children. It shared his food, drank from his cup and even slept in his arms. It was like a daughter to him.

“Now a traveler came to the rich man, but the rich man refrained from taking one of his own sheep or cattle to prepare a meal for the traveler who had come to him. Instead, he took the ewe lamb that belonged to the poor man and prepared it for the one who had come to him.”

David(E) burned with anger(F) against the man(G) and said to Nathan, “As surely as the Lord lives,(H) the man who did this must die! He must pay for that lamb four times over,(I) because he did such a thing and had no pity.”

Then Nathan said to David, “You are the man!(J) This is what the Lord, the God of Israel, says: ‘I anointed(K) you(L) king over Israel, and I delivered you from the hand of Saul. I gave your master’s house to you,(M) and your master’s wives into your arms. I gave you all Israel and Judah. And if all this had been too little, I would have given you even more. Why did you despise(N) the word of the Lord by doing what is evil in his eyes? You struck down(O) Uriah(P) the Hittite with the sword and took his wife to be your own. You killed(Q) him with the sword of the Ammonites. 10 Now, therefore, the sword(R) will never depart from your house, because you despised me and took the wife of Uriah the Hittite to be your own.’

11 “This is what the Lord says: ‘Out of your own household(S) I am going to bring calamity on you.(T) Before your very eyes I will take your wives and give them to one who is close to you, and he will sleep with your wives in broad daylight.(U) 12 You did it in secret,(V) but I will do this thing in broad daylight(W) before all Israel.’”

13 Then David said to Nathan, “I have sinned(X) against the Lord.”

Nathan replied, “The Lord has taken away(Y) your sin.(Z) You are not going to die.(AA) 14 But because by doing this you have shown utter contempt for[a] the Lord,(AB) the son born to you will die.”

15 After Nathan had gone home, the Lord struck(AC) the child that Uriah’s wife had borne to David, and he became ill. 16 David pleaded with God for the child. He fasted and spent the nights lying(AD) in sackcloth[b] on the ground. 17 The elders of his household stood beside him to get him up from the ground, but he refused,(AE) and he would not eat any food with them.(AF)

18 On the seventh day the child died. David’s attendants were afraid to tell him that the child was dead, for they thought, “While the child was still living, he wouldn’t listen to us when we spoke to him. How can we now tell him the child is dead? He may do something desperate.”

19 David noticed that his attendants were whispering among themselves, and he realized the child was dead. “Is the child dead?” he asked.

“Yes,” they replied, “he is dead.”

20 Then David got up from the ground. After he had washed,(AG) put on lotions and changed his clothes,(AH) he went into the house of the Lord and worshiped. Then he went to his own house, and at his request they served him food, and he ate.

21 His attendants asked him, “Why are you acting this way? While the child was alive, you fasted and wept,(AI) but now that the child is dead, you get up and eat!”

22 He answered, “While the child was still alive, I fasted and wept. I thought, ‘Who knows?(AJ) The Lord may be gracious to me and let the child live.’(AK) 23 But now that he is dead, why should I go on fasting? Can I bring him back again? I will go to him,(AL) but he will not return to me.”(AM)

24 Then David comforted his wife Bathsheba,(AN) and he went to her and made love to her. She gave birth to a son, and they named him Solomon.(AO) The Lord loved him; 25 and because the Lord loved him, he sent word through Nathan the prophet to name him Jedidiah.[c](AP)

26 Meanwhile Joab fought against Rabbah(AQ) of the Ammonites and captured the royal citadel. 27 Joab then sent messengers to David, saying, “I have fought against Rabbah and taken its water supply. 28 Now muster the rest of the troops and besiege the city and capture it. Otherwise I will take the city, and it will be named after me.”

29 So David mustered the entire army and went to Rabbah, and attacked and captured it. 30 David took the crown(AR) from their king’s[d] head, and it was placed on his own head. It weighed a talent[e] of gold, and it was set with precious stones. David took a great quantity of plunder from the city 31 and brought out the people who were there, consigning them to labor with saws and with iron picks and axes, and he made them work at brickmaking.[f] David did this to all the Ammonite(AS) towns. Then he and his entire army returned to Jerusalem.

Amnon and Tamar

13 In the course of time, Amnon(AT) son of David fell in love with Tamar,(AU) the beautiful sister of Absalom(AV) son of David.

Amnon became so obsessed with his sister Tamar that he made himself ill. She was a virgin, and it seemed impossible for him to do anything to her.

Now Amnon had an adviser named Jonadab son of Shimeah,(AW) David’s brother. Jonadab was a very shrewd man. He asked Amnon, “Why do you, the king’s son, look so haggard morning after morning? Won’t you tell me?”

Amnon said to him, “I’m in love with Tamar, my brother Absalom’s sister.”

“Go to bed and pretend to be ill,” Jonadab said. “When your father comes to see you, say to him, ‘I would like my sister Tamar to come and give me something to eat. Let her prepare the food in my sight so I may watch her and then eat it from her hand.’”

So Amnon lay down and pretended to be ill. When the king came to see him, Amnon said to him, “I would like my sister Tamar to come and make some special bread in my sight, so I may eat from her hand.”

David sent word to Tamar at the palace: “Go to the house of your brother Amnon and prepare some food for him.” So Tamar went to the house of her brother Amnon, who was lying down. She took some dough, kneaded it, made the bread in his sight and baked it. Then she took the pan and served him the bread, but he refused to eat.

“Send everyone out of here,”(AX) Amnon said. So everyone left him. 10 Then Amnon said to Tamar, “Bring the food here into my bedroom so I may eat from your hand.” And Tamar took the bread she had prepared and brought it to her brother Amnon in his bedroom. 11 But when she took it to him to eat, he grabbed(AY) her and said, “Come to bed with me, my sister.”(AZ)

12 “No, my brother!” she said to him. “Don’t force me! Such a thing should not be done in Israel!(BA) Don’t do this wicked thing.(BB) 13 What about me?(BC) Where could I get rid of my disgrace? And what about you? You would be like one of the wicked fools in Israel. Please speak to the king; he will not keep me from being married to you.” 14 But he refused to listen to her, and since he was stronger than she, he raped her.(BD)

15 Then Amnon hated her with intense hatred. In fact, he hated her more than he had loved her. Amnon said to her, “Get up and get out!”

16 “No!” she said to him. “Sending me away would be a greater wrong than what you have already done to me.”

But he refused to listen to her. 17 He called his personal servant and said, “Get this woman out of my sight and bolt the door after her.” 18 So his servant put her out and bolted the door after her. She was wearing an ornate[g] robe,(BE) for this was the kind of garment the virgin daughters of the king wore. 19 Tamar put ashes(BF) on her head and tore the ornate robe she was wearing. She put her hands on her head and went away, weeping aloud as she went.

20 Her brother Absalom said to her, “Has that Amnon, your brother, been with you? Be quiet for now, my sister; he is your brother. Don’t take this thing to heart.” And Tamar lived in her brother Absalom’s house, a desolate woman.

21 When King David heard all this, he was furious.(BG) 22 And Absalom never said a word to Amnon, either good or bad;(BH) he hated(BI) Amnon because he had disgraced his sister Tamar.

Absalom Kills Amnon

23 Two years later, when Absalom’s sheepshearers(BJ) were at Baal Hazor near the border of Ephraim, he invited all the king’s sons to come there. 24 Absalom went to the king and said, “Your servant has had shearers come. Will the king and his attendants please join me?”

25 “No, my son,” the king replied. “All of us should not go; we would only be a burden to you.” Although Absalom urged him, he still refused to go but gave him his blessing.

26 Then Absalom said, “If not, please let my brother Amnon come with us.”

The king asked him, “Why should he go with you?” 27 But Absalom urged him, so he sent with him Amnon and the rest of the king’s sons.

28 Absalom(BK) ordered his men, “Listen! When Amnon is in high(BL) spirits from drinking wine and I say to you, ‘Strike Amnon down,’ then kill him. Don’t be afraid. Haven’t I given you this order? Be strong and brave.(BM) 29 So Absalom’s men did to Amnon what Absalom had ordered. Then all the king’s sons got up, mounted their mules and fled.

30 While they were on their way, the report came to David: “Absalom has struck down all the king’s sons; not one of them is left.” 31 The king stood up, tore(BN) his clothes and lay down on the ground; and all his attendants stood by with their clothes torn.

32 But Jonadab son of Shimeah, David’s brother, said, “My lord should not think that they killed all the princes; only Amnon is dead. This has been Absalom’s express intention ever since the day Amnon raped his sister Tamar. 33 My lord the king should not be concerned about the report that all the king’s sons are dead. Only Amnon is dead.”

34 Meanwhile, Absalom had fled.

Now the man standing watch looked up and saw many people on the road west of him, coming down the side of the hill. The watchman went and told the king, “I see men in the direction of Horonaim, on the side of the hill.”[h]

35 Jonadab said to the king, “See, the king’s sons have come; it has happened just as your servant said.”

36 As he finished speaking, the king’s sons came in, wailing loudly. The king, too, and all his attendants wept very bitterly.

37 Absalom fled and went to Talmai(BO) son of Ammihud, the king of Geshur. But King David mourned many days for his son.

38 After Absalom fled and went to Geshur, he stayed there three years. 39 And King David longed to go to Absalom,(BP) for he was consoled(BQ) concerning Amnon’s death.

Absalom Returns to Jerusalem

14 Joab(BR) son of Zeruiah knew that the king’s heart longed for Absalom. So Joab sent someone to Tekoa(BS) and had a wise woman(BT) brought from there. He said to her, “Pretend you are in mourning. Dress in mourning clothes, and don’t use any cosmetic lotions.(BU) Act like a woman who has spent many days grieving for the dead. Then go to the king and speak these words to him.” And Joab(BV) put the words in her mouth.

When the woman from Tekoa went[i] to the king, she fell with her face to the ground to pay him honor, and she said, “Help me, Your Majesty!”

The king asked her, “What is troubling you?”

She said, “I am a widow; my husband is dead. I your servant had two sons. They got into a fight with each other in the field, and no one was there to separate them. One struck the other and killed him. Now the whole clan has risen up against your servant; they say, ‘Hand over the one who struck his brother down, so that we may put him to death(BW) for the life of his brother whom he killed; then we will get rid of the heir(BX) as well.’ They would put out the only burning coal I have left,(BY) leaving my husband neither name nor descendant on the face of the earth.”

The king said to the woman, “Go home,(BZ) and I will issue an order in your behalf.”

But the woman from Tekoa said to him, “Let my lord the king pardon(CA) me and my family,(CB) and let the king and his throne be without guilt.(CC)

10 The king replied, “If anyone says anything to you, bring them to me, and they will not bother you again.”

11 She said, “Then let the king invoke the Lord his God to prevent the avenger(CD) of blood from adding to the destruction, so that my son will not be destroyed.”

“As surely as the Lord lives,” he said, “not one hair(CE) of your son’s head will fall to the ground.(CF)

12 Then the woman said, “Let your servant speak a word to my lord the king.”

“Speak,” he replied.

13 The woman said, “Why then have you devised a thing like this against the people of God? When the king says this, does he not convict himself,(CG) for the king has not brought back his banished son?(CH) 14 Like water(CI) spilled on the ground, which cannot be recovered, so we must die.(CJ) But that is not what God desires; rather, he devises ways so that a banished person(CK) does not remain banished from him.

15 “And now I have come to say this to my lord the king because the people have made me afraid. Your servant thought, ‘I will speak to the king; perhaps he will grant his servant’s request. 16 Perhaps the king will agree to deliver his servant from the hand of the man who is trying to cut off both me and my son from God’s inheritance.’(CL)

17 “And now your servant says, ‘May the word of my lord the king secure my inheritance, for my lord the king is like an angel(CM) of God in discerning(CN) good and evil. May the Lord your God be with you.’”

18 Then the king said to the woman, “Don’t keep from me the answer to what I am going to ask you.”

“Let my lord the king speak,” the woman said.

19 The king asked, “Isn’t the hand of Joab(CO) with you in all this?”

The woman answered, “As surely as you live, my lord the king, no one can turn to the right or to the left from anything my lord the king says. Yes, it was your servant Joab who instructed me to do this and who put all these words into the mouth of your servant. 20 Your servant Joab did this to change the present situation. My lord has wisdom(CP) like that of an angel of God—he knows everything that happens in the land.(CQ)

21 The king said to Joab, “Very well, I will do it. Go, bring back the young man Absalom.”

22 Joab fell with his face to the ground to pay him honor, and he blessed the king.(CR) Joab said, “Today your servant knows that he has found favor in your eyes, my lord the king, because the king has granted his servant’s request.”

23 Then Joab went to Geshur and brought Absalom back to Jerusalem. 24 But the king said, “He must go to his own house; he must not see my face.” So Absalom went to his own house and did not see the face of the king.

25 In all Israel there was not a man so highly praised for his handsome appearance as Absalom. From the top of his head to the sole of his foot there was no blemish in him. 26 Whenever he cut the hair of his head(CS)—he used to cut his hair once a year because it became too heavy for him—he would weigh it, and its weight was two hundred shekels[j] by the royal standard.

27 Three sons(CT) and a daughter were born to Absalom. His daughter’s name was Tamar,(CU) and she became a beautiful woman.

28 Absalom lived two years in Jerusalem without seeing the king’s face. 29 Then Absalom sent for Joab in order to send him to the king, but Joab refused to come to him. So he sent a second time, but he refused to come. 30 Then he said to his servants, “Look, Joab’s field is next to mine, and he has barley(CV) there. Go and set it on fire.” So Absalom’s servants set the field on fire.

31 Then Joab did go to Absalom’s house, and he said to him, “Why have your servants set my field on fire?(CW)

32 Absalom said to Joab, “Look, I sent word to you and said, ‘Come here so I can send you to the king to ask, “Why have I come from Geshur?(CX) It would be better for me if I were still there!”’ Now then, I want to see the king’s face, and if I am guilty of anything, let him put me to death.”(CY)

33 So Joab went to the king and told him this. Then the king summoned Absalom, and he came in and bowed down with his face to the ground before the king. And the king kissed(CZ) Absalom.

Absalom’s Conspiracy

15 In the course of time,(DA) Absalom provided himself with a chariot(DB) and horses and with fifty men to run ahead of him. He would get up early and stand by the side of the road leading to the city gate.(DC) Whenever anyone came with a complaint to be placed before the king for a decision, Absalom would call out to him, “What town are you from?” He would answer, “Your servant is from one of the tribes of Israel.” Then Absalom would say to him, “Look, your claims are valid and proper, but there is no representative of the king to hear you.”(DD) And Absalom would add, “If only I were appointed judge in the land!(DE) Then everyone who has a complaint or case could come to me and I would see that they receive justice.”

Also, whenever anyone approached him to bow down before him, Absalom would reach out his hand, take hold of him and kiss him. Absalom behaved in this way toward all the Israelites who came to the king asking for justice, and so he stole the hearts(DF) of the people of Israel.

At the end of four[k] years, Absalom said to the king, “Let me go to Hebron and fulfill a vow I made to the Lord. While your servant was living at Geshur(DG) in Aram, I made this vow:(DH) ‘If the Lord takes me back to Jerusalem, I will worship the Lord in Hebron.[l]’”

The king said to him, “Go in peace.” So he went to Hebron.

10 Then Absalom sent secret messengers throughout the tribes of Israel to say, “As soon as you hear the sound of the trumpets,(DI) then say, ‘Absalom is king in Hebron.’” 11 Two hundred men from Jerusalem had accompanied Absalom. They had been invited as guests and went quite innocently, knowing nothing about the matter. 12 While Absalom was offering sacrifices, he also sent for Ahithophel(DJ) the Gilonite, David’s counselor,(DK) to come from Giloh,(DL) his hometown. And so the conspiracy gained strength, and Absalom’s following kept on increasing.(DM)

David Flees

13 A messenger came and told David, “The hearts of the people of Israel are with Absalom.”

14 Then David said to all his officials who were with him in Jerusalem, “Come! We must flee,(DN) or none of us will escape from Absalom.(DO) We must leave immediately, or he will move quickly to overtake us and bring ruin on us and put the city to the sword.”

15 The king’s officials answered him, “Your servants are ready to do whatever our lord the king chooses.”

16 The king set out, with his entire household following him; but he left ten concubines(DP) to take care of the palace. 17 So the king set out, with all the people following him, and they halted at the edge of the city. 18 All his men marched past him, along with all the Kerethites(DQ) and Pelethites; and all the six hundred Gittites who had accompanied him from Gath marched before the king.

19 The king said to Ittai(DR) the Gittite, “Why should you come along with us? Go back and stay with King Absalom. You are a foreigner,(DS) an exile from your homeland. 20 You came only yesterday. And today shall I make you wander(DT) about with us, when I do not know where I am going? Go back, and take your people with you. May the Lord show you kindness and faithfulness.”[m](DU)

21 But Ittai replied to the king, “As surely as the Lord lives, and as my lord the king lives, wherever my lord the king may be, whether it means life or death, there will your servant be.”(DV)

22 David said to Ittai, “Go ahead, march on.” So Ittai the Gittite marched on with all his men and the families that were with him.

23 The whole countryside wept aloud(DW) as all the people passed by. The king also crossed the Kidron Valley,(DX) and all the people moved on toward the wilderness.

24 Zadok(DY) was there, too, and all the Levites who were with him were carrying the ark(DZ) of the covenant of God. They set down the ark of God, and Abiathar(EA) offered sacrifices until all the people had finished leaving the city.

25 Then the king said to Zadok, “Take the ark of God back into the city. If I find favor in the Lord’s eyes, he will bring me back and let me see it and his dwelling place(EB) again. 26 But if he says, ‘I am not pleased with you,’ then I am ready; let him do to me whatever seems good to him.(EC)

27 The king also said to Zadok the priest, “Do you understand?(ED) Go back to the city with my blessing. Take your son Ahimaaz with you, and also Abiathar’s son Jonathan.(EE) You and Abiathar return with your two sons. 28 I will wait at the fords(EF) in the wilderness until word comes from you to inform me.” 29 So Zadok and Abiathar took the ark of God back to Jerusalem and stayed there.

30 But David continued up the Mount of Olives, weeping(EG) as he went; his head(EH) was covered and he was barefoot. All the people with him covered their heads too and were weeping as they went up. 31 Now David had been told, “Ahithophel(EI) is among the conspirators with Absalom.” So David prayed, “Lord, turn Ahithophel’s counsel into foolishness.”

32 When David arrived at the summit, where people used to worship God, Hushai(EJ) the Arkite(EK) was there to meet him, his robe torn and dust(EL) on his head. 33 David said to him, “If you go with me, you will be a burden(EM) to me. 34 But if you return to the city and say to Absalom, ‘Your Majesty, I will be your servant; I was your father’s servant in the past, but now I will be your servant,’(EN) then you can help me by frustrating(EO) Ahithophel’s advice. 35 Won’t the priests Zadok and Abiathar be there with you? Tell them anything you hear in the king’s palace.(EP) 36 Their two sons, Ahimaaz(EQ) son of Zadok and Jonathan(ER) son of Abiathar, are there with them. Send them to me with anything you hear.”

37 So Hushai,(ES) David’s confidant, arrived at Jerusalem as Absalom(ET) was entering the city.

David and Ziba

16 When David had gone a short distance beyond the summit, there was Ziba,(EU) the steward of Mephibosheth, waiting to meet him. He had a string of donkeys saddled and loaded with two hundred loaves of bread, a hundred cakes of raisins, a hundred cakes of figs and a skin of wine.(EV)

The king asked Ziba, “Why have you brought these?”

Ziba answered, “The donkeys are for the king’s household to ride on, the bread and fruit are for the men to eat, and the wine is to refresh(EW) those who become exhausted in the wilderness.”

The king then asked, “Where is your master’s grandson?”(EX)

Ziba(EY) said to him, “He is staying in Jerusalem, because he thinks, ‘Today the Israelites will restore to me my grandfather’s kingdom.’”

Then the king said to Ziba, “All that belonged to Mephibosheth(EZ) is now yours.”

“I humbly bow,” Ziba said. “May I find favor in your eyes, my lord the king.”

Shimei Curses David

As King David approached Bahurim,(FA) a man from the same clan as Saul’s family came out from there. His name was Shimei(FB) son of Gera, and he cursed(FC) as he came out. He pelted David and all the king’s officials with stones, though all the troops and the special guard were on David’s right and left. As he cursed, Shimei said, “Get out, get out, you murderer, you scoundrel! The Lord has repaid you for all the blood you shed in the household of Saul, in whose place you have reigned.(FD) The Lord has given the kingdom into the hands of your son Absalom. You have come to ruin because you are a murderer!”(FE)

Then Abishai(FF) son of Zeruiah said to the king, “Why should this dead dog(FG) curse my lord the king? Let me go over and cut off his head.”(FH)

10 But the king said, “What does this have to do with you, you sons of Zeruiah?(FI) If he is cursing because the Lord said to him, ‘Curse David,’ who can ask, ‘Why do you do this?’”(FJ)

11 David then said to Abishai and all his officials, “My son,(FK) my own flesh and blood, is trying to kill me. How much more, then, this Benjamite! Leave him alone; let him curse, for the Lord has told him to.(FL) 12 It may be that the Lord will look upon my misery(FM) and restore to me his covenant blessing(FN) instead of his curse today.(FO)

13 So David and his men continued along the road while Shimei was going along the hillside opposite him, cursing as he went and throwing stones at him and showering him with dirt. 14 The king and all the people with him arrived at their destination exhausted.(FP) And there he refreshed himself.

The Advice of Ahithophel and Hushai

15 Meanwhile, Absalom(FQ) and all the men of Israel came to Jerusalem, and Ahithophel(FR) was with him. 16 Then Hushai(FS) the Arkite, David’s confidant, went to Absalom and said to him, “Long live the king! Long live the king!”

17 Absalom said to Hushai, “So this is the love you show your friend? If he’s your friend, why didn’t you go with him?”(FT)

18 Hushai said to Absalom, “No, the one chosen by the Lord, by these people, and by all the men of Israel—his I will be, and I will remain with him. 19 Furthermore, whom should I serve? Should I not serve the son? Just as I served your father, so I will serve you.”(FU)

20 Absalom said to Ahithophel, “Give us your advice. What should we do?”

21 Ahithophel answered, “Sleep with your father’s concubines whom he left to take care of the palace. Then all Israel will hear that you have made yourself obnoxious to your father, and the hands of everyone with you will be more resolute.” 22 So they pitched a tent for Absalom on the roof, and he slept with his father’s concubines in the sight of all Israel.(FV)

23 Now in those days the advice(FW) Ahithophel gave was like that of one who inquires of God. That was how both David(FX) and Absalom regarded all of Ahithophel’s advice.

17 Ahithophel said to Absalom, “I would[n] choose twelve thousand men and set out tonight in pursuit of David. I would attack him while he is weary and weak.(FY) I would strike him with terror, and then all the people with him will flee. I would strike down only the king(FZ) and bring all the people back to you. The death of the man you seek will mean the return of all; all the people will be unharmed.” This plan seemed good to Absalom and to all the elders of Israel.

But Absalom said, “Summon also Hushai(GA) the Arkite, so we can hear what he has to say as well.” When Hushai came to him, Absalom said, “Ahithophel has given this advice. Should we do what he says? If not, give us your opinion.”

Hushai replied to Absalom, “The advice Ahithophel has given is not good this time. You know your father and his men; they are fighters, and as fierce as a wild bear robbed of her cubs.(GB) Besides, your father is an experienced fighter;(GC) he will not spend the night with the troops. Even now, he is hidden in a cave or some other place.(GD) If he should attack your troops first,[o] whoever hears about it will say, ‘There has been a slaughter among the troops who follow Absalom.’ 10 Then even the bravest soldier, whose heart is like the heart of a lion,(GE) will melt(GF) with fear, for all Israel knows that your father is a fighter and that those with him are brave.(GG)

11 “So I advise you: Let all Israel, from Dan to Beersheba(GH)—as numerous as the sand(GI) on the seashore—be gathered to you, with you yourself leading them into battle. 12 Then we will attack him wherever he may be found, and we will fall on him as dew settles on the ground. Neither he nor any of his men will be left alive. 13 If he withdraws into a city, then all Israel will bring ropes to that city, and we will drag it down to the valley(GJ) until not so much as a pebble is left.”

14 Absalom and all the men of Israel said, “The advice(GK) of Hushai the Arkite is better than that of Ahithophel.”(GL) For the Lord had determined to frustrate(GM) the good advice of Ahithophel in order to bring disaster(GN) on Absalom.(GO)

15 Hushai told Zadok and Abiathar, the priests, “Ahithophel has advised Absalom and the elders of Israel to do such and such, but I have advised them to do so and so. 16 Now send a message at once and tell David, ‘Do not spend the night at the fords in the wilderness;(GP) cross over without fail, or the king and all the people with him will be swallowed up.(GQ)’”

17 Jonathan(GR) and Ahimaaz were staying at En Rogel.(GS) A female servant was to go and inform them, and they were to go and tell King David, for they could not risk being seen entering the city. 18 But a young man saw them and told Absalom. So the two of them left at once and went to the house of a man in Bahurim.(GT) He had a well in his courtyard, and they climbed down into it. 19 His wife took a covering and spread it out over the opening of the well and scattered grain over it. No one knew anything about it.(GU)

20 When Absalom’s men came to the woman(GV) at the house, they asked, “Where are Ahimaaz and Jonathan?”

The woman answered them, “They crossed over the brook.”[p] The men searched but found no one, so they returned to Jerusalem.

21 After they had gone, the two climbed out of the well and went to inform King David. They said to him, “Set out and cross the river at once; Ahithophel has advised such and such against you.” 22 So David and all the people with him set out and crossed the Jordan. By daybreak, no one was left who had not crossed the Jordan.

23 When Ahithophel saw that his advice(GW) had not been followed, he saddled his donkey and set out for his house in his hometown. He put his house in order(GX) and then hanged himself. So he died and was buried in his father’s tomb.

Absalom’s Death

24 David went to Mahanaim,(GY) and Absalom crossed the Jordan with all the men of Israel. 25 Absalom had appointed Amasa(GZ) over the army in place of Joab. Amasa was the son of Jether,[q](HA) an Ishmaelite[r] who had married Abigail,[s] the daughter of Nahash and sister of Zeruiah the mother of Joab. 26 The Israelites and Absalom camped in the land of Gilead.

27 When David came to Mahanaim, Shobi son of Nahash(HB) from Rabbah(HC) of the Ammonites, and Makir(HD) son of Ammiel from Lo Debar, and Barzillai(HE) the Gileadite(HF) from Rogelim 28 brought bedding and bowls and articles of pottery. They also brought wheat and barley, flour and roasted grain, beans and lentils,[t] 29 honey and curds, sheep, and cheese from cows’ milk for David and his people to eat.(HG) For they said, “The people have become exhausted and hungry and thirsty in the wilderness.(HH)

18 David mustered the men who were with him and appointed over them commanders of thousands and commanders of hundreds. David sent out his troops,(HI) a third under the command of Joab, a third under Joab’s brother Abishai(HJ) son of Zeruiah, and a third under Ittai(HK) the Gittite. The king told the troops, “I myself will surely march out with you.”

But the men said, “You must not go out; if we are forced to flee, they won’t care about us. Even if half of us die, they won’t care; but you are worth ten(HL) thousand of us.[u] It would be better now for you to give us support from the city.”(HM)

The king answered, “I will do whatever seems best to you.”

So the king stood beside the gate while all his men marched out in units of hundreds and of thousands. The king commanded Joab, Abishai and Ittai, “Be gentle with the young man Absalom for my sake.” And all the troops heard the king giving orders concerning Absalom to each of the commanders.

David’s army marched out of the city to fight Israel, and the battle took place in the forest(HN) of Ephraim. There Israel’s troops were routed by David’s men, and the casualties that day were great—twenty thousand men. The battle spread out over the whole countryside, and the forest swallowed up more men that day than the sword.

Now Absalom happened to meet David’s men. He was riding his mule, and as the mule went under the thick branches of a large oak, Absalom’s hair(HO) got caught in the tree. He was left hanging in midair, while the mule he was riding kept on going.

10 When one of the men saw what had happened, he told Joab, “I just saw Absalom hanging in an oak tree.”

11 Joab said to the man who had told him this, “What! You saw him? Why didn’t you strike(HP) him to the ground right there? Then I would have had to give you ten shekels[v] of silver and a warrior’s belt.(HQ)

12 But the man replied, “Even if a thousand shekels[w] were weighed out into my hands, I would not lay a hand on the king’s son. In our hearing the king commanded you and Abishai and Ittai, ‘Protect the young man Absalom for my sake.[x] 13 And if I had put my life in jeopardy[y]—and nothing is hidden from the king(HR)—you would have kept your distance from me.”

14 Joab(HS) said, “I’m not going to wait like this for you.” So he took three javelins in his hand and plunged them into Absalom’s heart while Absalom was still alive in the oak tree. 15 And ten of Joab’s armor-bearers surrounded Absalom, struck him and killed him.(HT)

16 Then Joab(HU) sounded the trumpet, and the troops stopped pursuing Israel, for Joab halted them. 17 They took Absalom, threw him into a big pit in the forest and piled up(HV) a large heap of rocks(HW) over him. Meanwhile, all the Israelites fled to their homes.

18 During his lifetime Absalom had taken a pillar and erected it in the King’s Valley(HX) as a monument(HY) to himself, for he thought, “I have no son(HZ) to carry on the memory of my name.” He named the pillar after himself, and it is called Absalom’s Monument to this day.

David Mourns

19 Now Ahimaaz(IA) son of Zadok said, “Let me run and take the news to the king that the Lord has vindicated him by delivering him from the hand of his enemies.(IB)

20 “You are not the one to take the news today,” Joab told him. “You may take the news another time, but you must not do so today, because the king’s son is dead.”

21 Then Joab said to a Cushite, “Go, tell the king what you have seen.” The Cushite bowed down before Joab and ran off.

22 Ahimaaz son of Zadok again said to Joab, “Come what may, please let me run behind the Cushite.”

But Joab replied, “My son, why do you want to go? You don’t have any news that will bring you a reward.”

23 He said, “Come what may, I want to run.”

So Joab said, “Run!” Then Ahimaaz ran by way of the plain[z] and outran the Cushite.

24 While David was sitting between the inner and outer gates, the watchman(IC) went up to the roof of the gateway by the wall. As he looked out, he saw a man running alone. 25 The watchman called out to the king and reported it.

The king said, “If he is alone, he must have good news.” And the runner came closer and closer.

26 Then the watchman saw another runner, and he called down to the gatekeeper, “Look, another man running alone!”

The king said, “He must be bringing good news,(ID) too.”

27 The watchman said, “It seems to me that the first one runs like(IE) Ahimaaz son of Zadok.”

“He’s a good man,” the king said. “He comes with good news.”

28 Then Ahimaaz called out to the king, “All is well!” He bowed down before the king with his face to the ground and said, “Praise be to the Lord your God! He has delivered up those who lifted their hands against my lord the king.”

29 The king asked, “Is the young man Absalom safe?”

Ahimaaz answered, “I saw great confusion just as Joab was about to send the king’s servant and me, your servant, but I don’t know what it was.”

30 The king said, “Stand aside and wait here.” So he stepped aside and stood there.

31 Then the Cushite arrived and said, “My lord the king, hear the good news! The Lord has vindicated you today by delivering you from the hand of all who rose up against you.”

32 The king asked the Cushite, “Is the young man Absalom safe?”

The Cushite replied, “May the enemies of my lord the king and all who rise up to harm you be like that young man.”(IF)

33 The king was shaken. He went up to the room over the gateway and wept. As he went, he said: “O my son Absalom! My son, my son Absalom! If only I had died(IG) instead of you—O Absalom, my son, my son!”[aa](IH)

19 [ab]Joab was told, “The king is weeping and mourning for Absalom.” And for the whole army the victory that day was turned into mourning, because on that day the troops heard it said, “The king is grieving for his son.” The men stole into the city that day as men steal in who are ashamed when they flee from battle. The king covered his face and cried aloud, “O my son Absalom! O Absalom, my son, my son!”

Then Joab went into the house to the king and said, “Today you have humiliated all your men, who have just saved your life and the lives of your sons and daughters and the lives of your wives and concubines. You love those who hate you and hate those who love you. You have made it clear today that the commanders and their men mean nothing to you. I see that you would be pleased if Absalom were alive today and all of us were dead. Now go out and encourage your men. I swear by the Lord that if you don’t go out, not a man will be left with you by nightfall. This will be worse for you than all the calamities that have come on you from your youth till now.”(II)

So the king got up and took his seat in the gateway. When the men were told, “The king is sitting in the gateway,(IJ)” they all came before him.

Meanwhile, the Israelites had fled to their homes.

David Returns to Jerusalem

Throughout the tribes of Israel, all the people were arguing among themselves, saying, “The king delivered us from the hand of our enemies; he is the one who rescued us from the hand of the Philistines.(IK) But now he has fled the country to escape from Absalom;(IL) 10 and Absalom, whom we anointed to rule over us, has died in battle. So why do you say nothing about bringing the king back?”

11 King David sent this message to Zadok(IM) and Abiathar, the priests: “Ask the elders of Judah, ‘Why should you be the last to bring the king back to his palace, since what is being said throughout Israel has reached the king at his quarters? 12 You are my relatives, my own flesh and blood. So why should you be the last to bring back the king?’ 13 And say to Amasa,(IN) ‘Are you not my own flesh and blood?(IO) May God deal with me, be it ever so severely,(IP) if you are not the commander of my army for life in place of Joab.(IQ)’”

14 He won over the hearts of the men of Judah so that they were all of one mind. They sent word to the king, “Return, you and all your men.” 15 Then the king returned and went as far as the Jordan.

Now the men of Judah had come to Gilgal(IR) to go out and meet the king and bring him across the Jordan. 16 Shimei(IS) son of Gera, the Benjamite from Bahurim, hurried down with the men of Judah to meet King David. 17 With him were a thousand Benjamites, along with Ziba,(IT) the steward of Saul’s household,(IU) and his fifteen sons and twenty servants. They rushed to the Jordan, where the king was. 18 They crossed at the ford to take the king’s household over and to do whatever he wished.

When Shimei son of Gera crossed the Jordan, he fell prostrate before the king 19 and said to him, “May my lord not hold me guilty. Do not remember how your servant did wrong on the day my lord the king left Jerusalem.(IV) May the king put it out of his mind. 20 For I your servant know that I have sinned, but today I have come here as the first from the tribes of Joseph to come down and meet my lord the king.”

21 Then Abishai(IW) son of Zeruiah said, “Shouldn’t Shimei be put to death for this? He cursed(IX) the Lord’s anointed.”(IY)

22 David replied, “What does this have to do with you, you sons of Zeruiah?(IZ) What right do you have to interfere? Should anyone be put to death in Israel today?(JA) Don’t I know that today I am king over Israel?” 23 So the king said to Shimei, “You shall not die.” And the king promised him on oath.(JB)

24 Mephibosheth,(JC) Saul’s grandson, also went down to meet the king. He had not taken care of his feet or trimmed his mustache or washed his clothes from the day the king left until the day he returned safely. 25 When he came from Jerusalem to meet the king, the king asked him, “Why didn’t you go with me,(JD) Mephibosheth?”

Footnotes

  1. 2 Samuel 12:14 An ancient Hebrew scribal tradition; Masoretic Text for the enemies of
  2. 2 Samuel 12:16 Dead Sea Scrolls and Septuagint; Masoretic Text does not have in sackcloth.
  3. 2 Samuel 12:25 Jedidiah means loved by the Lord.
  4. 2 Samuel 12:30 Or from Milkom’s (that is, Molek’s)
  5. 2 Samuel 12:30 That is, about 75 pounds or about 34 kilograms
  6. 2 Samuel 12:31 The meaning of the Hebrew for this clause is uncertain.
  7. 2 Samuel 13:18 The meaning of the Hebrew for this word is uncertain; also in verse 19.
  8. 2 Samuel 13:34 Septuagint; Hebrew does not have this sentence.
  9. 2 Samuel 14:4 Many Hebrew manuscripts, Septuagint, Vulgate and Syriac; most Hebrew manuscripts spoke
  10. 2 Samuel 14:26 That is, about 5 pounds or about 2.3 kilograms
  11. 2 Samuel 15:7 Some Septuagint manuscripts, Syriac and Josephus; Hebrew forty
  12. 2 Samuel 15:8 Some Septuagint manuscripts; Hebrew does not have in Hebron.
  13. 2 Samuel 15:20 Septuagint; Hebrew May kindness and faithfulness be with you
  14. 2 Samuel 17:1 Or Let me
  15. 2 Samuel 17:9 Or When some of the men fall at the first attack
  16. 2 Samuel 17:20 Or “They passed by the sheep pen toward the water.”
  17. 2 Samuel 17:25 Hebrew Ithra, a variant of Jether
  18. 2 Samuel 17:25 Some Septuagint manuscripts (see also 1 Chron. 2:17); Hebrew and other Septuagint manuscripts Israelite
  19. 2 Samuel 17:25 Hebrew Abigal, a variant of Abigail
  20. 2 Samuel 17:28 Most Septuagint manuscripts and Syriac; Hebrew lentils, and roasted grain
  21. 2 Samuel 18:3 Two Hebrew manuscripts, some Septuagint manuscripts and Vulgate; most Hebrew manuscripts care; for now there are ten thousand like us
  22. 2 Samuel 18:11 That is, about 4 ounces or about 115 grams
  23. 2 Samuel 18:12 That is, about 25 pounds or about 12 kilograms
  24. 2 Samuel 18:12 A few Hebrew manuscripts, Septuagint, Vulgate and Syriac; most Hebrew manuscripts may be translated Absalom, whoever you may be.
  25. 2 Samuel 18:13 Or Otherwise, if I had acted treacherously toward him
  26. 2 Samuel 18:23 That is, the plain of the Jordan
  27. 2 Samuel 18:33 In Hebrew texts this verse (18:33) is numbered 19:1.
  28. 2 Samuel 19:1 In Hebrew texts 19:1-43 is numbered 19:2-44.