Print Page Options Listen to Reading
Previous Prev Day Next DayNext

The Daily Audio Bible

This reading plan is provided by Brian Hardin from Daily Audio Bible.
Duration: 731 days

Today's audio is from the NET. Switch to the NET to read along with the audio.

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)
Version
دوم تو اریخ 24-25

یوآس کا دوبارہ ہیکل کی تعمیر کرنا

24 یوآس جب بادشاہ ہوا تو وہ سات سال کا تھا۔ اس نے یروشلم میں چالیس سال تک بادشاہت کی۔ اسکی ماں کا نام ضبیاہ تھا۔ ضبیاہ بیر سبع شہر کی تھی۔ یوآس نے خدا وند کے سامنے اس وقت تک ٹھیک کام کیا جب تک یہو یدع زندہ رہا۔ یہو یدع نے یوآس کے لئے دو بیویاں چُنی۔ یوآس کے بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔

تب بعد میں یوآس نے خداوند کی ہیکل کو دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یو آس نے کاہنوں کو اور لاویوں کو ایک ساتھ بلایا۔ اس نے ان سے کہا ، “یہوداہ کے شہروں کے باہر جاؤ اور اس پیسے کو جمع کرو جو بنی اسرائیل ہر سال ادا کر تے ہیں۔ اس پیسے کو خدا وند کی ہیکل کی مرمّت کر نے میں استعمال کرو۔ ایسا کرنے میں جلدی کرو۔” لیکن لاویوں نے جلدی نہیں کی۔

اس لئے بادشاہ یوآس نے کاہن قائد یہو یدع کو بلایا اور اسے کہا ، “یہو یدع تو نے لاویوں کو یہو داہ اور یروشلم سے محصول کی رقم وصول کر نے کا حکم کیوں نہیں دیا ؟ خدا وند کا خادم موسیٰ اور بنی اسرائیلیوں نے محصول کی رقم کو مقدس خیمہ کے لئے استعمال کیا۔”

ماضی میں عتلیاہ کے بیٹوں نے ہیکل میں گھس کر خدا وند کی ہیکل کی مقدس چیزوں کو اپنے بعل دیوتا کی پرستش کے لئے استعمال کیا تھا۔ عتلیاہ ایک بری عورت تھی۔

بادشاہ یوآس نے ایک صندوق بنا نے اور اسے خدا وند کی ہیکل کے باہر دروازے پر رکھنے کی ہدا یت دی تھی۔ تب انہوں نے یہوداہ اور یروشلم میں اعلان کیا کہ لوگ محصول کی رقم خدا وند کے لئے لائیں۔ خدا وند کے خادم موسیٰ نے بنی اسرائیلیوں سے ریگستان میں رہتے وقت بطور محصول جو رقم مانگی تھی یہ رقم اتنی ہی ہے۔ 10 تمام قائدین اور سب لوگ خوش تھے۔ وہ رقم لے کر آئے اور انہوں نے اس کو صندوق میں ڈا لا۔ وہ اس وقت تک دیتے رہے جب تک صندوق بھر نہ گیا۔

11 تب لاویوں کو صندوق بادشاہ کے عہدیداروں کے سامنے لے جانا پڑا۔ انہوں نے دیکھا کہ صندوق پیسوں سے بھر گیا ہے۔ بادشاہ کا سکریٹری اور خاص کاہن افسر آئے اور رقم کو صندوق سے باہر نکا لا۔ پھر وہ صندوق کو واپس اس کی جگہ پر لے گئے۔ وہ لوگ ایسا ہر دن کئے۔ اور اس طرح سے بہت ساری رقم جمع ہو گئی۔ 12 تب بادشاہ یو آس اور یہو یدع نے وہ دولت ان لوگوں کو دی جو خدا وند کی ہیکل کو بنانے کا کام کر رہے تھے۔ اور خدا وند کی ہیکل میں کام کر نے والوں نے خدا وند کی ہیکل کو دوبارہ بنانے کے لئے تر بیت یافتہ بڑھئی اور لکڑی پر کھدائی کا کام کرنے والوں کو مزدوری پر رکھا۔ انہوں نے خدا وند کی ہیکل کو دوبارہ بنانے کے لئے کانسے اور لوہے کے کام جاننے والوں کو بھی مزدوری پر رکھا۔

13 کام کرنے والوں نے اپنے کام وفا داری سے کئے۔ خدا وند کی ہیکل کو دوبارہ بنانے کا کام کامیاب ہوا۔ انہوں نے ہیکل کو جیسا وہ پہلے تھا ویسا ہی بنایا اور پہلے سے زیادہ مضبوط بنایا۔ 14 جب کاریگروں نے کام ختم کیا تو جو رقم بچی تھی اسے بادشاہ یوآس اور یہو یدع کے پاس لائے۔ اس کا استعمال انہوں نے خدا وند کی ہیکل کے لئے چیزیں بنانے میں کیا۔ وہ چیزیں ہیکل کی خدمت کی کار گزاری میں اور جلانے کا نذرانہ پیش کر نے میں کا م آتی تھیں۔ انہوں نے سونے اور چاندی کے کٹورے اور دوسری چیزیں بنائیں۔ کاہن ہر روز جلانے کا نذرانہ ہیکل میں پیش کر تے رہے جب تک یہو یدع زندہ رہا۔

15 یہو یدع بوڑھا ہوا اس نے طویل عمر گزاری تب وہ مرا۔ جب یہو یدع مرا تو وہ ۱۳۰ سال کا تھا۔ 16 لوگوں نے یہو یدع کو شہر داؤد میں دفن کیا جہاں بادشاہ دفن ہیں۔ لوگوں نے یہو یدع کو اس لئے وہاں دفن کیا کیوں کہ اس نے اپنی زندگی میں اسرائیل میں خدا اور اسکے گھر کے لئے اچھے کام کئے تھے۔

17 یہو یدع کے مرنے کے بعد یہوداہ کے قائدین آئے اور بادشاہ یوآس کے سامنے جھکے۔ بادشاہ نے ان قائدین کو سنا۔ 18 بادشاہ اور قائدین نے خدا وند خدا کی ہیکل کو ردّ کر دیا جب کہ ان کے آباؤ اجداد خدا وند خدا کے راستے پر چلے تھے۔ ان لوگوں نے آشیرہ کے ستون اور دوسرے بتوں کی پرستش کی۔ خدا یہوداہ اور یروشلم کے لوگوں پر غصہ میں تھا۔ کیوں کہ بادشاہ اور وہ قائدین قصور وار تھے۔ 19 خدا نے لوگوں کے پاس نبیوں کو بھیجا تا کہ وہ انہیں خدا کی طرف واپس لائیں۔ نبیوں نے لوگوں کو خبر دار کیا لیکن لوگوں نے سننے سے انکار کر دیا۔

20 خدا کی روح زکریاہ پر اتری۔ زکریاہ کا باپ کاہن یہو یدع تھا۔ زکر یاہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے کہا ، “جو خدا وند کہتا ہے وہ یہ ہے : ’تم لوگ خدا وند کے احکا مات کو ماننے سے کیوں انکار کرتے ہو ؟ تم کامیاب نہیں ہوگے۔ تم نے خدا وند کو چھو ڑا ہے اس لئے خدا وند نے بھی تمہیں چھو ڑ دیا ہے۔‘”

21 لیکن لوگوں نے زکر یاہ کے خلاف منصوبہ بنا یا بادشاہ نے زکریاہ کو مار ڈا لنے کا حکم دیا انہوں نے اس پر اس وقت تک پتھر ما رے جب تک وہ مر نہیں گیا۔ لو گوں نے یہ سب ہیکل کے آنگن میں کیا۔ 22 بادشاہ یو آس نے یہو یدع کی رحم دلی کو نہیں یاد رکھا۔ یہو یدع زکر یاہ کا باپ تھا۔ لیکن یوآس نے یہو یدع کے بیٹے زکر یاہ کو مار ڈا لا۔ مر نے سے پہلے زکریاہ نے کہا ، “خدا وند اس کو دیکھے جو تم کر رہے ہو اور تمہیں سزا دے !”

23 سال کے ختم پر ارام کی فوج یوآس کے خلاف آئی انہوں نے یہوداہ اور یروشلم پر حملہ کیا اور لوگوں کے تمام قائدین کومار ڈا لا۔ انہوں نے ساری قیمتی چیزیں دمشق کے بادشاہ کے پاس بھیج دیں۔ 24 ارامی فوج ، آدمیوں کے چھو ٹے گروہ میں آئی۔ لیکن خدا وند نے یہوداہ کی فوج کو شکست دینے دیا۔ خدا وند نے اس لئے ایسا کیا کیوں کہ یہوداہ کے لوگ خدا وند خدا کو چھو ڑ دیئے جس راہ پر انکے آباؤ اجداد چلے تھے۔ اس لئے انہوں نے یوآس کو سزا دی۔ 25 جب ارام کے لوگوں نے یو آس کو چھوڑا تو وہ بری طرح زخمی تھا۔ یو آس کے خود کے خادموں نے اس کے خلاف منصوبہ بنایا انہو ں نے اس لئے ایسا کیا کیونکہ یو آس نے کا ہن یہویدع کے بیٹے زکریاہ کو مارڈا لا تھا۔ خادموں نے یو آس کو اس کے اپنے بستر پر ہی مار ڈا لا۔یو آس کے مرنے کے بعد لوگو ں نے اسے داؤد کے شہر میں دفنایا۔ لیکن لوگو ں نے اسے اس جگہ پر نہیں دفن کیا جہاں بادشا ہ دفنائے جا تے تھے۔

26 جن خادمو ں نے یو آس کے خلاف منصوبہ بنایا وہ یہ ہیں : زبد اور یہوزبد۔ زبد کی ماں کا نام سماعت تھا۔ سماعت عمون کی رہنے وا لی تھی۔ اور یہوزید کی ماں کانام سمرتیت تھا۔ سمر تیت موآب کی تھی۔ 27 یو آس کے بیٹوں کا قصّہ اس کے خلاف بڑی پیشین گوئیاں اور اس نے کس طرح خدا کے گھر کو دوبارہ بنایا یہ سلاطین کی تبصرہ نامی کتاب میں لکھا ہے۔امصیاہ اس کے بعد نیا بادشا ہ ہوا۔امصیاہ یو آس کا بیٹا تھا۔

یہودا ہ کا بادشا ہ امصیاہ

25 امصیاہ جب بادشا ہ ہوا اس کی عمر ۲۵ سال تھی۔ اس نے یروشلم میں ۲۹سال حکومت کی۔ اس کی ماں کانام یہوعدان تھا۔ یہوعدان یروشلم کی تھی۔ امصیاہ نے وہی کیا جو خداوند اس سے کروانا چاہتا تھا۔لیکن اس نے اپنے پو رے دل سے نہیں کیا۔ امصیاہ جب ایک طاقتور بادشا ہ ہو گیا۔تب اس نے ان افسرو ں کو مارڈا لا جو اس کے باپ ،بادشا ہ کو مار دیئے تھے۔ لیکن امصیاہ نے ان افسروں کے بچوں کو ہلاک نہیں کیا۔کیوں ؟ کیوں کہ اس نے ان احکامات کی تعمیل کی جو موسیٰ کی کتاب میں لکھے ہو ئے تھے خداوند نے حکم دیا ، “والدین کو اپنے بیٹوں کے گناہوں کے لئے نہیں مارنا چا ہئے۔ بچو ں کو اپنے والدین کے گناہوں کے لئے نہیں مارنا چا ہئے۔ہرایک آدمی کو خود اس کے گناہ کے لئے ماردینا چا ہئے۔”

امصیاہ نے یہودا ہ کے لوگو ں کو ایک ساتھ جمع کیا۔اس نے خاندانی گروہوں کے حساب سے ان لوگوں کو گروہوں میں بانٹا۔اس نے کپتانوں اور جنرلوں کو ذمہ دار عہدے داروں کی طرح بحال کیا۔ وہ قائدین یہودا ہ اور بنیمین کے سپا ہیوں کے صدر تھے۔سپا ہیوں کے لئے جو لوگ چُنے گئے تھے وہ سب ۲۰ سال کے یا ا س سے بڑے تھے۔ وہ سب ۰۰۰,۳۰۰ تربیت یافتہ سپا ہی بر چھو ں اورڈھالوں کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار تھے۔ امصیاہ ایک لا کھ سپا ہیوں کو بھی اسرائیل سے کرا یہ پر لیا تھا۔ اس نے ان سپا ہیو ں کو کرایہ پر حاصل کرنے ۴/ ۳۳ ٹن چاندی ادا کی تھی۔ لیکن ایک خدا کا آدمی امصیاہ کے پاس آیا اس خدا کے آدمی نے کہا، “بادشاہ ! اسرائیل کی فوج کو اپنے ساتھ نہ جانے دو خداوند اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے۔خداوند افرائیم کے لوگو ں کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر تم اپنے آپکو طاقتور بناؤ اور اس طرح سے جنگ کے لئے تیا ر رہو تو خدا تمہیں شکست کا سبب بنائے گا۔کیو ں کہ خدا تمہیں اکیلے فتح یا شکست دے سکتا ہے۔” امصیاہ نے خدا کے آدمی سے کہا، “لیکن ہماری دولت کا کیا ہو گا جو میں نے پہلے سے اسرائیل کی فوج کو دی ہے ؟ ”خدا کے آدمی نے جواب دیا، “خداوند کے پاس بہت زیادہ ہے وہ اس سے بھی زیادہ تمہیں دے سکتا ہے۔”

10 اس لئے امصیاہ نے اسرائیل کی فوج کو واپس افرائیم کو بھیج دیا۔ وہ آدمی بادشا ہ اور یہوداہ کے لوگو ں کے خلاف بہت غصہ میں تھے۔ وہ غصہ میں اپنے گھر واپس ہو ئے۔ 11 تب امصیاہ بہت باہمت ہوا اور اس کی فوج کو ملک ادوم میں نمک کی وادی میں لے گیا۔ اس جگہ پر امصیاہ کی فوج نے صور کے ۰۰۰, ۱۰ آدمیوں کو مار ڈا لا۔ 12 یہودا ہ کی فوج نے بھی صور کے ۰۰۰, ۱۰ آدمیوں کو پکڑا۔ و ہ ان آدمیوں کو شعیر سے ایک اونچی چٹان کی چوٹی پر لے گئے۔ وہ سب آدمی اب تک زندہ تھے۔ تب یہوداہ کی فوج نے ان آدمیوں کو چوٹی پر سے نیچے پھینک دیا اور ان کے جسم نیچے کی چٹانوں پرٹوٹ گئے۔ 13 لیکن اس وقت اسرائیلی فوج یہودا ہ کے کچھ شہرو ں پر حملہ کر رہی تھی۔ وہ سامریہ سے بیت حورون کے شہروں تک حملے کر رہے تھے۔ انہوں نے تین ہزار لوگو ں کو مار ڈا لا اور کئی قیمتی چیزیں لے لیں اس فوج کے آدمی بہت غصہ میں تھے کیونکہ امصیاہ نے انہیں جنگ میں شامل نہیں ہو نے دیا تھا۔ 14 امصیاہ ادومی لوگو ں کو شکست دینے کے بعد گھر آیا۔اس نے صور کے لوگو ں کے دیوتاؤں کے بُت جنکی وہ پرستش کرتے تھے لا یا۔ امصیاہ نے ان بتو ں کی عبادت شروع کی وہ ا ن دیوتاؤں کے سامنے جھکا اور انہیں بخور جلاکر نذرانہ پیش کیا۔ 15 خداوند امصیاہ پر بہت غصہ کیا۔خداوند نے نبی کو امصیاہ کے پاس بھیجا۔ نبی نے کہا، “امصیاہ تم نے ان دیوتاؤں کی عبادت کیوں کی جس کی وہ لوگ عبادت کرتے ہیں ؟ وہ سب وہی خداوند ہیں جو اپنے لوگو ں کو تم سے نہیں بچا سکتے ہیں۔”

16 جب نبی نے بو لا ، تو امصیاہ نے نبی سے کہا، “ہم نے کبھی تمہیں بادشا ہ کا مشیر نہیں بنایا خاموش رہو ! اگر تم خا موش نہ رہو گے تو مار دیئے جا ؤ گے۔” نبی خاموش ہو گیا۔تب اس نے کہا، “در حقیقت خدا نے طئے کیا ہے کہ تمہیں تباہ کرے۔کیونکہ تم نے بُرے کام کئے اور میری نصیحتوں کو نہیں سنا۔” 17 یہودا ہ کے بادشا ہ امصیاہ نے اپنے مشیروں سے بات کی تب اس نے ایک پیغام اسرائیل کے بادشا ہ یہوآس کو بھیجا۔ امصیاہ نے یہوآس سے کہا ، “ہمیں آمنے سامنے ملنا چا ہئے۔” یہوآس یہوآخز کا بیٹا تھا اور یہو آخز اسرائیل کا بادشا ہ یاہو کا بیٹا تھا۔

18 تب یہو آخز نے اس کا جواب امصیاہ کو بھیجا۔یہو آس اسرائیل کا بادشا ہ تھا اور امصیاہ یہودا ہ کا بادشاہ تھا۔ یہو آس نے یہ قصہ کہا: “لبنان کی ایک چھوٹی کانٹے دار جھاڑی نے لبنان کے ایک بڑے بلوط کے درخت کو پیغام بھیجا۔ چھو ٹی کانٹے دار جھاڑی نے کہا، ’اپنی بیٹی کی شادی میرے بیٹے سے کرو۔لیکن ایک جنگلی جانور نکلا اور کانٹے دار جھاڑی کو کچلا اور اسے تباہ کردیا۔ 19 تم یہ کہتے ہو ، ’میں نے ادوم کو شکست دی ہے !‘ تمہیں ا س کا غرور ہے اور اس لئے شیخی کی باتیں کرتے ہو لیکن تم کو گھر پر ٹھہرنا چا ہئے تم اپنے لئے مصیبت کیوں لانا چا ہتے ہو ؟ تم اور یہودا ہ تباہ ہو جا ؤگے۔” 20 لیکن امصیاہ نے سننے سے انکار کیا۔ یہ خدا کی طرف سے ہوا۔ خدا کی مرضی تھی کہ اسرائیلی یہوداہ کو شکست دیں کیوں کہ یہوداہ کے لوگ ان دیوتاؤں کی پرستش کر رہے تھے جیسے کہ ادوم کے لوگ کر تے تھے۔ 21 اس لئے اسرائیل کا بادشاہ یوآس یہوداہ کے بادشاہ امصیاہ سے آمنے سامنے بیت شمس کے شہر میں ملا۔ بیت شمس یہوداہ میں ہے۔ 22 اسرائیل نے یہوداہ کو شکست دی۔ یہوداہ کا ہر آدمی اپنے گھر بھا گ گیا۔ 23 یہو آس نے بیت شمس میں امصیاہ کو پکڑ لیا اور اسکو یروشلم لے آیا۔ امصیاہ کے باپ کا نام یوآس تھا۔ یہو آس کے باپ کا نام یہو آخز تھا۔ یہو آس نے ۶۰۰ فٹ لمبی یروشلم کی دیوار کے حصّے کو جو افرائیم پھا ٹک سے کو نے کے پھا ٹک تک تھی گِرا دیا۔ 24 تب یوآس نے ہیکل کا سونا چاندی اور کئی دوسرے سامان لے لیا۔ عو بید ادوم ان چیزوں کا ذمہ دار تھا لیکن یوآس نے وہ تمام چیزیں لے لیں۔ یوآس نے بادشاہ کے محل سے خزانے بھی لئے تب یوآس نے کچھ آدمیوں کو بطور قیدی بنا لیا اور واپس سامر یہ گیا۔ 25 اسرائیل کے بادشاہ یو آخز کے بیٹے یہو آس کے مرنے کے بعد امصیاہ ۱۵ سال زندہ رہا۔ امصیاہ کا باپ یو آس یہوداہ کا بادشاہ تھا۔ 26 دوسری باتیں جو شروع سے آخر تک امصیاہ نے کیں وہ سب “ تاریخ سلا طین یہوداہ اور اسرائیل ” نا می کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ 27 جب امصیاہ خدا وند کی اطا عت سے رک گیا۔ یروشلم میں لوگوں نے اس کے خلاف ایک منصوبہ بنا یا تو وہ شہر لکیس کو بھا گ گیا۔ لیکن لوگوں نے آدمیوں کو لکیس کو بھیجا اور انہوں نے وہاں امصیاہ کو مار ڈا لا۔ 28 تب وہ امصیاہ کی لاش کو گھو ڑے پر لے گئے اور اسے اس کے آباؤ اجداد کے ساتھ یہوداہ میں دفنایا۔

رومیوں 12

اپنی زندگی خدا کے حوالے کردو

12 پس اے بھائیو اور بہنو! خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتاہوں اپنی جان کو ایسی زندہ قربانی کے لئے نذر کرو جو زندہ اور مقدس اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی خدا کے لئے تمہا ری روحانی عبادت ہے۔ اس دنیا کے لوگوں کی مانند تم خود کو نہ بدلو۔ بلکہ اپنے آ پ کو دماغ کی تجدید کے مطابق بدل ڈالو تا کہ تمہیں پتہ چل جا ئے کہ خدا کی مرضی تمہا رے لئے کیا ہے۔ یعنی تم جان جاؤگے کیا اچھا ہے اور خدا کو کیا پسند ہے اور کیا کا مل ہے۔

میں تو اس فضل کی نعمت کی وجہ سے جو خدا کی طرف سے مجھ کو دی ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میں تم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں۔ جو تم ہو اس سے اپنے آپکو بہتر نہ سمجھو۔ بلکہ جیسا خدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے اعتدال کے ساتھ اپنے آپکو ویسا ہی سمجھو۔ کیوں کہ جس طرح ہمارے ان جسموں میں بہت سے اعضاء ہیں۔اور ہر عضو کے کام ایک جیسے نہیں ہیں۔ اسی طری ہم بھی جو بہت سے ہیں مگر مسیح میں شا مل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء کے طور پر کام کر تے ہیں۔

خدا کے فضل کی نعمت کے موافق ہمیں جو طرح طرح کی نعمتیں ملی ہیں اس لئے کہ جس کسی کو نبوت کی نعمت ملی ہو وہ اپنے ایمان کے موافق نعمت کا استعمال کر نا چاہئے۔ اگر کسی کو خدمت کر نے کی نعمت ملی ہو تو اپنے آپکو دوسروں کی خدمت کے لئے وقف کر نا چاہئے۔ اگر کسی کو معلم کی نعمت ملی ہو تو اسکو تعلیم دینے میں لگا رہنا چاہئے۔ اگر کسی کو ہمت بندھا نے کی نعمت ملی ہو تو اسے ہمت بندھا نی چاہئے۔اگر کسی کو خیرات بانٹنے کی نعمت ملی تو اسے چاہئے کہ سخاوت کرے۔اگر کسی کو قیادت کی نعمت ملی ہے تو سرگر می سے قیادت کرے اگر کسی کو رحم کر نے کی نعمت ملی ہو تو وہ خوشی سے رحم کرے۔

تمہاری محبت خلوص ہو۔ برائی سے نفرت کرو ہمیشہ نیکی سے علیٰحدہ نہ رہو۔ 10 بھا ئیوں اور بہنوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے قریب رہو۔ دوسرے کو احترام کیساتھ اپنے سے بہتر سمجھو۔ 11 کام کی کوشش میں سستی نہ کرو۔ روحانی جوش کو بڑھا ؤ۔ خدا وند کی خدمت کر تے رہو۔ 12 اپنی امید میں خوش رہو مصیبت میں صابر رہو ہمیشہ دعا میں مشغول رہو۔ 13 خدا کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق مدد کرو۔ اور مسافر کو گھر بلا کر خدمت کرنے کے موقع میں لگے رہو۔

14 جو تمہیں ستاتے ہیں انکے واسطے بر کت چاہو۔ ان پر لعنت مت بھیجو۔ بلکہ بر کت چاہو۔ 15 جو خوش ہے انکے ساتھ خوش رہو۔ جو غمزدہ ہے انکے غم میں غمزدہ رہو۔ 16 آپس میں ایک دوسرے سے مل جل کر رہو۔ بلکہ معمولی لوگوں کے ساتھ ملکر رہو فخر نہ کرو۔ اپنے آپکو عقلمند مت سمجھو۔

17 برائی کا بدلہ کسی کو بھی برائی سے مت دو۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں انکی کوشش کرو۔ 18 جہاں تک تم سے ممکن ہو سکے سب کے ساتھ امن سے رہو۔ 19 اے عزیزو! دوسروں سے انتقام نہ لو بلکہ انتظار کرو کہ خدا اپنے قہر میں انہیں سزا دیگا۔ کیوں کہ صحیفوں میں لکھا ہے: “خدا وند نے کہا انتقام لینا میرا کام ہے اور میں ہی بدلہ دونگا۔” [a] 20 بلکہ

“اگر تیرا دشمن بھو کا ہو تو اس کو کھا نا کھلا
    اور اگر پیا سہ ہے تو اسکو پانی پلا،
کیوں کہ ایسا کر نے سے
    تو اس کے سر پر آ گ کے انگاروں کا ڈھیر لگا ئے گا۔” [b]

21 بدی سے شکست نہ کھا ؤ بلکہ بجائے اس کے نیکی سے بدی کو شکست دو۔

زبُور 22:19-31

19 اے خداوند! توُ مجھ کو مت چھوڑ۔
    تومیری قوّت ہے۔ میری مدد کر۔ اب تو تا خیر نہ کر۔
20 اے خداوند! میری جان کو تلوار سے بچا۔
    توُ اُن کتّوں سے میری قیمتی جان کی حفا ظت کر۔
21 مجھے شیر ببر کے منہ سے بچا
    اور سانڈ کے سینگوں سے میری حفا ظت کر۔

22 اے خداوند! میں اپنے بھا ئیوں میں تیرے نام کا اظہا ر کروں گا۔
    میں تیری ستائش عظیم جماعت میں کرو ں گا۔
23 خداوند سے ڈرنے وا لے اے سب لوگو ! اس کی ستا ئش کرو۔
    اور اے یعقوب کی نسل! خداوند کی تعظیم کرو۔
    اے بنی اسرائیلیو! خداوند سے ڈرو اور اس کی تعظیم کرو۔
24 کیوں کہ خداوند ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جومصیبت میں ہو تے ہیں۔
    خداوند اُن سے نہ ہی شرمندہ ہے اور نہ ہی نفرت کرتا ہے۔
    اگر لوگ مدد کے لئے خداوند کو پکا ريں تو وہ خود کو اُن سے کبھی نہیں چھپا ئے گا۔

25 اے خداوند میری ستا ئش عظیم اجتماع میں صرف تجھ سے ہی آتی ہے۔
    اُن سب کے سامنے جو تیری عبادت کرتے ہیں،
    میں اُن باتوں کو پورا کروں گا جن کو کرنے کا میں نے عہد کیا تھا۔
26 حلیم لوگ کھا ئیں گے اور سیر ہوں گے۔
    تم لوگ جو خداوند کی تلاش میں آئے ہو اُس کی ستا ئش کرو۔
    تمہا را دل ابد تک خوش رہے۔
27 تمام لوگ جو دُورممالک میں رہتے ہوں وہ خداوند کو یاد کریں
    اور اس کی طرف لوٹ آئیں روئے زمین کی تمام قومیں خداوندکی عبادت کریں۔
28 کیونکہ خداوند بادشاہ ہے۔
    وہ تما م قوموں پر حاکم ہے۔
29 مضبوط اور صحت مند لوگ کھا چکے ہیں اور خدا کے آگے سجدہ کر چکے ہیں
    در اصل وہ لوگ جو مریں گے اور وہ جو بہت پہلے ہی مر چکے ہیں خدا کے آگے سجدہ کریں گے۔
30 اور مستقبل میں ہماری نسل خداوند کی خدمت کرے گی۔
    لوگ ہمیشہ ہما رے مالک کی با بت کہیں گے۔
31 خدا نے جو بھلا ئی کی ہے
    تمام نسلیں اپنے بچّوں کو اُسے کہیں گے۔

امثال 20:8-10

بادشا ہ جب انصاف کے تخت پر بیٹھتا ہے تو اپنی آنکھ سے بُرا ئی کو دیکھتا ہے۔

کیا کو ئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے اپنے دل کو پاک رکھا ہے اور اس نے کو ئی گناہ نہیں کیا ہے۔

10 خداوند ان سے نفرت کر تا ہے جو نقص دار ترازو ، باٹ اور پیمانے سے لوگو ں کو دھو کہ دیتا ہے۔

Urdu Bible: Easy-to-Read Version (ERV-UR)

2007 by World Bible Translation Center